فتنہ و فساد۔۔۔۔ ظلم و زیادتی

1535

ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
معبودِ حقیقی نے جو قوانین نافذ کیے ان کو بستیوں پر لاگو کیا۔ اس نے انسان کے لیے بستیاں بسائیں، ہر انسانی بستی اور آبادی میں تین قسم کے لوگ آباد کیے۔ پہلی قسم نافرمان لوگوں کی ہوتی ہے جو کھلم کھلا اور بلا جھجک پوری سرکشی کے ساتھ اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں، اللہ کے احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہیں اور اس پر کوئی شرمندگی بھی محسوس نہیں کرتے۔ دوسری قسم اُن بزدل لوگوں کی ہوتی ہے جو خود خدا کے احکامات سے روگردانی نہیں کرتے مگر دوسرے نافرمان لوگوں کو غلط کام سے نہیں روکتے اور خاموشی سے تماش بین بنے رہتے ہیں۔ نصیحت کرنے والوں کو بھی منع کرتے ہیں کہ ان نافرمان لوگوںکو روکنا ٹوکنا بے کار ہے، یہ اپنی سرکشی سے باز نہیں آئیں گے۔ تیسری قسم اُن لوگوں کی ہے جن کی غیرتِ ایمانی حدود اللہ کی اس کھلم کھلا بے حرمتی کو برداشت نہیں کرتی، اور وہ نیکی کا حکم کرنے اور بدی سے روکنے میں سرگرم عمل رہتے ہیں خواہ اس کے لیے انہیں کتنی ہی مخالفت اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑے۔ وہ ان نافرمانوں کو راہِ راست پر لانے کی بھرپور کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ اگر یہ لوگ راہِ راست پر نہ بھی آئیں تب بھی وہ اپنا فرض پورا کرتے رہیں گے اور اللہ کے سامنے اپنے عمل کے لیے سرخرو ہوجائیں گے۔
گناہوں کو دیکھنا اور طاقت کے باوجود ان کو نہ روکنا جرم ہے، جس پر اللہ کی گرفت ہوسکتی ہے۔ اس لیے ہر دور میں صالحین نے اپنا فرض پورا کیا ہے اور نافرمانوں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ انہیں وعظ و تبلیغ سے راہِ راست پر لانے کی حتی الامکان کوشش کی ہے، مگر وہ ہٹ دھرم اسے اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر اپنی روش بدلنے پر تیار نہیں ہوتے، اور کہتے ہیں کہ ہلاکت اور عذاب ہمارا مقدر ہے تو پھر ہمیں وعظ و نصحیت کیوں کرتے ہو! امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل پیرا ہونے والی جماعت انہیں برائیوں سے اس لیے روکتی ہے تاکہ اپنے خدا کے سامنے سرخرو ہوسکے۔ حقیقت یہی ہے کہ قانونِ قدرت کے تحت جب اللہ کا عذاب اس بستی پر آتا ہے تو اس عذاب سے صرف وہی لوگ بچا لیے جاتے ہیں جن کو اپنی معذرت پیش کرنے کی فکر ہوتی ہے۔ باقی دونوں گروہ ظالموں میں شامل ہوتے ہیں اور اپنے جرم کی حد تک اللہ کے عذاب میں مبتلا کردیے جاتے ہیں۔ دین میں الحاد کج روی اور گمراہی ہے۔ حدیثِ مبارکہ ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیے جاتا ہے، حتیٰ کہ جب اس کو پکڑتا ہے تو پھر نہیں چھوڑتا‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’دنیا کا عذاب، عذابِِ آخرت سے بہت ہلکا ہے۔ دنیا کا عذاب عارضی اور فانی ہے، اور آخرت کا عذاب دائمی ہے۔ اس کا زوال و فنا نہیں۔ جہنم کی آگ دنیا کی آگ سے 79 گنا زیادہ ہے۔‘‘
قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں سورہ رعد کی آیت نمبر 102 میں ارشادِ ربانی ہے: ’’اس طرح تیرے رب کی پکڑ ہے جب وہ ظلم کی مرتکب بستیوں کو پکڑتا ہے۔ یقینا اس کی پکڑ بہت ہی سخت اور المناک ہے‘‘۔ اسی مضمون کے تحت سورہ رعد آیت 34 میں ظالموں کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے: ’’ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی عذاب ہے اور آخرت کا عذاب تو بہت ہی زیادہ سخت ہے، انہیں اللہ کے غضب سے بچانے والا کوئی نہیں ہے‘‘۔ ظالموں کی بستیوں کے بارے میں سورہ اعراف میں آیات 96 سے 99 تک ارشادِ خداوندی ہوا: ’’اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم آسمان اور زمین کی برکتیں ان پر کھول دیتے، لیکن انہوں نے تکذیب کی، ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا۔ کیا پھر بھی ان بستیوںکے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہوگئے ہیں کہ ان پر عذاب شب کے وقت آ پڑے جس وقت وہ سوتے ہوں۔ اور کیا ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہوگئے کہ ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے آ پڑے جس وقت وہ اپنے کھیلوں میں مشغول ہوں۔ پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس بات سے بے خبر ہوگئے کہ ہماری گرفت اچانک ان پر رات کے وقت آجائے جب کہ وہ سوئے پڑے ہوں، یا انہیں اطمینان ہوگیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا، جب کہ وہ کھیل رہے ہوں۔ کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خبر اور بے خوف ہیں، حالانکہ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو۔‘‘
اسی سورت کی آیت 178 میں ارشاد ہوا: ’’جسے اللہ ہدایت بخشے بس وہی راہِ راست پاتا ہے، اور جس کو اللہ اپنی رہنمائی سے محروم کردے وہی ناکام و نامراد ہوکر رہتا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان کے پاس دل ہے مگر وہ سوچتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں ہیں، ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں ہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے ہوئے ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے ہم انہیں بتدریج ایسے طریقے سے تباہی کی طرف لے جائیں گے کہ انہیں خبر تک نہ ہوگی۔ میں تو انہیں ڈھیل دے رہا ہوں، میری چال کا کوئی توڑ نہیں ہے۔‘‘
سورہ انفال آیت 22 میں اللہ کے نافرمان اُن بندوں کو قرار دیا گیا ہے جو ’’اللہ کے نزدیک بدترین قسم کے بہرے گونگے لوگ ہیں، جو عقل سے کام نہیں لیتے‘‘۔ سورہ اعراف آیت 175 میں خواہشِِ نفس کے پیچھے چلنے والے انسانوں کو ایسے کتے کی مانند کہا گیا ہے کہ ’’تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے، اور اسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے‘‘۔ قرآن پاک میں بار بار اس فتنے سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے جو اجتماعیت پر ضرب لگاتا ہے اور وبائے عام کی طرح معاشرے میں پھیل کر ایسی شامت لاتا ہے جس میں صرف گناہ گار ہی گرفتار نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگ بھی عتاب کا نشانہ بنتے ہیں جو اس گناہ گار معاشرے میں گناہوں سے روکنے کے لیے عملی اقدام نہیں کرتے، اور زبان اور کان بند کیے رہتے ہیں۔ اور جب ان کو ہماری آیات سنائی جاتی تھیں تو کہتے تھے کہ ہاں سن لیا ہم نے، ہم چاہیں تو ایسی ہی باتیں ہم بھی بنا سکتے ہیں، یہ تو وہی پرانی کہانیاں ہیں جو پہلے سے لوگ کہتے چلے آئے ہیں۔ اور ہاں وہ بات بھی یاد ہے جو انہوں نے کہی تھی کہ خدایا! اگر یہ واقعی حق ہے تیری طرف سے، تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا کوئی دردناک عذاب ہم پر لے آ۔‘‘
سورہ توبہ آیت 34 اور 35 میں اس دردناک عذاب کا تذکرہ ہے: ’’دردناک سزا کی خوش خبری دو اُن کو جو سونے اور چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں، پہلوئوں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔ یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا۔ لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزا چکھو‘‘۔ سورہ یونس 22 تا 24 آیات میں اللہ کی پکڑ اور عذاب کا تذکرہ ہے: ’’دنیا کی زندگی کے چند روزہ مزے ہیں (لوٹ لو)، پھر ہماری ہی طرف تم کو پلٹ کر آنا ہے، اُس وقت ہم تم کو بتادیں گے کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو۔ دنیا کی یہ زندگی (جس کے نشے میں مست ہوکر تم ہماری نشانیوں سے غفلت برت رہے رہو) کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے ہم نے پانی برسایا تو زمین کی پیداوار جسے آدمی اور جانور سب کھاتے ہیں، خوب گھنی ہوگئی، پھر عین اُس وقت جب کہ زمین اپنی بہار پر تھی اور کھیتیاں اور کھلیان بنے سنورے کھڑے تھے اور ان کے مالک یہ سمجھ رہے تھے کہ اب ہم ان سے فائدہ اٹھانے پر قادر ہیں، یکایک رات کو ہمارا حکم آگیا اور ہم نے اسے ایسے غارت کرکے رکھ دیا کہ گویا کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔ اسی طرح ہم نشانیاں کھول کھول کر پیش کرتے ہیں‘‘۔ اسی مضمون کو اور وضاحت سے آیت نمبر 50 میں بیان کیا گیا: ’’ہر امت کے لیے مہلت کی ایک مدت ہے، جب یہ مدت پوری ہوجاتی ہے تو گھڑی بھر کی تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی۔ ان سے کہو کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر اللہ کا عذاب اچانک رات کو یا دن کو آجائے تو (تم کیا کرسکتے ہو؟) آخر یہ ایسی کون سی چیز ہے جس کے لیے مجرم جلدی مچائیں، یا جب وہ تم پر آپڑے اُس وقت تم اس کو مانوگے۔ اب بچنا چاہتے ہو؟ حالانکہ تم خود ہی اس کے جلدی آنے کا تقاضا کررہے تھے۔ پھر ظالموں سے کہا جائے گا کہ اب ہمیشہ کے لیے عذاب کا مزا چکھو، جو کچھ تم کماتے رہے ہو اس کی پاداش کے سوا اور کیا بدلہ تم کو دیا جاسکتا ہے۔‘‘
اللہ کا قانون ہمیشہ سے اٹل ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ سورہ ہود میں آیات نمبر 102 سے 106 تک اللہ کے نافرمان بندوں اور اُن پر عذاب کا ذکر کیا گیا ہے: ’’تیرا رب جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ ایسی ہی ہوا کرتی ہے۔ فی الواقع اس کی پکڑ بڑی سخت اور دردناک ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس میں ایک نشانی ہے ہر اُس شخص کے لیے جو عذابِ آخرت کا خوف کرے۔‘‘
سورہ یوسف آیات 107۔108میں ارشادِ ربانی ہے: ’’کیا یہ مطمئن ہیں کہ خدا کے عذاب کی کوئی بلا انہیں دبوچ نہ لے گی، یا بے خبری میں قیامت کی گھڑی اچانک ہی ان پر نہ آجائے گی‘‘۔ ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کی حالت اُس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف تبدیل نہیں کرتی، اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کرے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی، اور نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی و مددگار ہوسکتا ہے۔ وہی ہے جو تمہارے سامنے بجلیاں چمکاتا ہے جنہیں دیکھ کر تمہیں اندیشے بھی لاحق ہوتے ہیں اور امیدیں بھی بندھتی ہیں۔ وہی ہے جو پانی سے لدے بادل اٹھاتا ہے، بادلوں کی گرج اس کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتی ہے اور فرشتے اس کی ہیبت سے لرزتے ہوئے اس کی تسبیح کرتے ہیں۔ وہ کڑکتی ہوئی بجلیاں بھیجتا ہے اور (بسا اوقات) انہیں جس پر چاہتا ہے عین اس حالت میں گرا دیتا ہے جب کہ لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں۔ فی الواقع اس کی چال زبردست ہے‘‘ (سورہ رعد108-107)۔ ’’جن لوگوں نے اپنے رب کی دعوت قبول کرلی ہے ان کے لیے بھلائی ہے، اور جنہوں نے اسے قبول نہ کیا وہ اگر زمین کی ساری دولت کے بھی مالک ہوں اور اتنی ہی اور فراہم کرلیں تو وہ خدا کی پکڑ سے بچنے کے لیے ان سب کو فدیہ میں دے ڈالنے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن سے بری طرح حساب لیا جائے گا اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے، بہت ہی برا ٹھکانہ‘‘ (سورہ رعد 18)۔ ’’جن لوگوں نے خدا کے ساتھ کفر کا رویہ اختیار کررکھا ہے، اُن پر ان کے کرتوتوں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی آفت ہی رہتی ہے، یا ان کے گھر کے قریب کہیں آفت نازل ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا، یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آن پورا ہو۔ یقینا اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا جاتا رہا ہے، مگر میں نے ہمیشہ منکرین کو ڈھیل دی اور آخرکار ان کو پکڑ لیا۔ پھر دیکھ لو میری سزا کیسی سخت تھی‘‘ (آیت 36)۔ ’’اگر تم نے علم کے باوجود، جو تمہارے پاس آچکا ہے، لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کے مقابلے میں نہ کوئی تمہارا حامی و مددگار رہے گا اور نہ کوئی اس کی پکڑ سے تم کو بچا سکتا ہے۔‘‘
قرآن انسان کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی تاکید کرتا ہے، اس کے لیے بار بار ہدایت کرتا ہے: ’’پھر کیا وہ لوگ جو (پیغمبر کی مخالفت میں) بد سے بد تر چالیں چل رہے ہیں، اس بات سے بالکل ہی بے خوف ہوگئے ہیں کہ اللہ ان کو زمین میں دھنسا دے، یا ایسے گوشے سے ان پر عذاب لے آئے جدھر سے اس کے آنے کا وہم و گمان تک نہ ہو، یا اچانک چلتے پھرتے ان کو پکڑ لے، یا ایسی حالت میں انہیں پکڑے جب کہ انہیں خود آنے والی مصیبت کا کھٹکا لگا ہوا ہو اور وہ اس سے بچنے کی فکر میں چوکنے ہوں‘‘ (سوہ نحل 45)۔ اسی سورہ کی 76 ویں آیت میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اچھا تو کیا تم اس بات سے بالکل بے خوف ہو کہ خدا کبھی خشکی پر ہی تم کو زمین میں دھنسا دے یا پھر پتھرائو کرنے والی آندھی تم پر بھیج دے اور تم اس سے بچانے والا کوئی حمایتی نہ پائو، اور تمہیں اس کا اندیشہ نہیں کہ خدا پھر کسی وقت سمندر میں تم کو لے جائے اور تمہاری ناشکری کے بدلے تم پر سخت طوفانی ہوا بھیج کر تمہیں غرق کردے اور تم کو ایسا کوئی نہ ملے جو اس سے تمہارے اس انجام کی پوچھ گچھ کرسکے۔‘‘ (سورہ بنی اسرائیل 68)
’’اور فکر اُس دن کی ہونی چاہیے جب کہ ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تم زمین کو بالکل برہنہ پائو گے، اور ہم تمام انسانوں کو اس طرح گھیر کر جمع کریں گے کہ (اگلے پچھلے میں سے) ایک بھی نہ چھُوٹے گا، اور تیرا رب بڑا درگزر کرنے والا اور رحیم ہے، وہ ان کے کرتوتوں پر انہیں پکڑنا چاہتا تو جلد ہی ان پر عذاب بھیج دیتا، مگر ان کے لیے وعدے کا ایک دن مقرر ہے، اور اس سے بچ کر نکلنے کی یہ کوئی راہ نہ پائیں گے۔ یہ عذاب رسیدہ بستیاں تمہارے سامنے موجود ہیں۔‘‘ (سورہ کہف 58-47)
عذابِ الٰہی کافروں کا حتمی انجام ہے اور یہی قانونِ قدرت ہے کہ ظالم کو ظلم کی سزا ملے۔ سورہ اعراف آیت171 میں ارشاد ہوا: ’’کچھ یاد ہے ہم نے پہاڑ کو ہلا کر ان پر اس طرح چھا دیا تھا گویا وہ چھتری ہے، اور یہ گمان کررہے تھے کہ وہ ان پر آن پڑے گا، اور اس وقت ہم نے ان سے کہا تھا کہ جو کتاب ہم تمہیں دے رہے ہیں اسے مضبوطی سے تھام لو اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اسے یاد رکھو، توقع ہے کہ تم غلط روی سے بچے رہو گے‘‘۔ سورہ ہود میں اسی قانونِِ قدرت اور اللہ کے عذاب کا تذکرہ ان الفاظ میں ہوا: ’’اور تیرا رب جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ ایسی ہی ہوا کرتی ہے، بڑی سخت اور دردناک۔‘‘
اللہ کے عذاب اور اس کی پکڑ سے بچنے کے لیے تقویٰ اختیار کرنا ضروری ہے۔ تقویٰ کا مطلب اللہ کی اطاعت اللہ کی دی ہوئی روشنی کے مطابق کرنا، اور پھر اسی معبودِ حقیقی سے ثواب کی امید رکھنا، اور اللہ کی معصیت اللہ کی دی ہوئی روشنی کے مطابق اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے ترک کردینا ہے۔ ’’متقی اور پرہیزگار اللہ کے نزدیک وہی لوگ ہیں کہ جب اُن سے کوئی ناشائستہ کام ہوجائے یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو وہ فوراً اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ یعنی جب ان سے کسی غلطی کا ارتکاب ہوجاتا ہے تو وہ فوراً توبہ اور استغفار کا اہتمام کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی گناہوں کو معاف کرنے والا نہیں ہے، اور باوجود علم رکھنے کے کسی برے کام پر انہیں ضد نہیں ہوجاتی۔ ہٹ دھرمی نہیں کرتے۔ اور جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل تھرا جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پائوں جمادیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوٰۃ دیں، اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں۔ تمام کاموں کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے‘‘ (سورہ حج41)۔ ’’یہی حق کے پیروکار، معزز اور اشراف ہیں، یہ مومن بندے اللہ کی نافرمانیوں سے اجتناب کرتے ہیں، ہر لمحہ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور حساب کی سختی کا اندیشہ رکھتے ہوئے ظلم سے بچتے ہیں۔‘‘
ہر لمحہ عافیت اور رحمت ِالٰہی کی توقع کرنا ضروری ہے۔ اللہ کی پکڑ بہت سخت اور عذابِ الٰہی اٹل ہے۔ اس کی قدرتِ کاملہ میں یہی شامل ہے کہ وہ ظالموں کو اُن کے انجام تک پہنچاتا ہے، خواہ انسان اپنے غرور و تکبر میں اس سے کتنا ہی بھاگے۔ اللہ کی پکڑ اس کو اچانک انجام سے دوچار کر دیتی ہے۔ اللہ سے ڈرنا، اس سے اپنے گناہوں کی توبہ کرنا اور سنتِ نبویؐ کی پیروی کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے، جو اپنے فرائض سے روگردانی کرتے ہیں وہ ہمیشہ انجامِِ بد سے آشنا ہوتے ہیں، یہی قانونِ قدرت ہے۔

حصہ