لوگ کیا کہیں گے!۔

482

افروز عنایت
شاندار محل نما گھر رنگ برنگے قمقموں سے جگمگا رہا تھا۔ سیمی کو اس کی دوستوں نے گھیرا ہوا تھا۔ آج اس کی سالگرہ کے موقع پر اس کے سسرال والے اسے انگوٹھی پہنانے بھی آرہے تھے۔ اس نے سامنے والے دروازے سے اپنی دوست کو داخل ہوتے دیکھا جو عبایا پہنے ہوئے تھی، ہلکا پھلکا میک اَپ اس کی سادگی پر نمایاں رنگ بکھیر رہا تھا۔ سیمی نے مما سے کہا کہ سعدیہ کو بھی یہیں بھیج دیجیے گا۔ ماں نے ناگوار لہجے میں کہا: اب ایرے غیرے سب کو بلانے کی کیا ضرورت تھی، لوگ کیا کہیں گے کہ سیمی کی دوست کس قسم کی ہیں! ہمارا نہیں تو اپنے سسرال والوں کا ہی خیال کرو، وہ کیا کہیں گے…!
رات کو مہمانوں کے جانے کے بعد بھی مما نے سیمی کی کلاس لے لی ’’ٹھیک ہے وہ اچھی ذہین لڑکی ہے، تم نے کالج میں اسے دوست بنا لیا، اب متوسط گھرانے کی اس گنوار کو یہاں بلانے کی کیا تُک تھی! تمہارے سسرال والے اور دوسرے لوگ کیا کہیں گے!
٭…٭
آٹھویں جماعت کی کلاس ٹیچر نے ایک مرتبہ پھر جماعت کی طالبات کے سامنے اس بات کو دہرایا کہ کل ہفتے کے دن میٹنگ میں آپ کے والدین کو ضرور شرکت کرنی ہے، خاص طور پر زینب میں آپ سے مخاطب ہوں، آپ کے والد اگر مصروف آدمی ہیں تو والدہ کو تو ضرور شرکت کرنی چاہیے، یہ اِس سال کی تیسری میٹنگ ہے، آپ کے گھر سے آج تک کوئی تشریف نہیں لایا، اِس مرتبہ کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔
پیر کو میڈم نے اُن بچوں کو اسمبلی میں ہی روک دیا جن کے والدین میٹنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے، ان دس بارہ بچوں میں زینب بھی شامل تھی۔ چند بچوں نے تو والدین کی طرف سے خط پیش کیے جس میں نہ آنے کی وجہ بیان کردی گئی تھی۔
میڈم: جی زینب، آپ کے والدین کبھی شریک نہیں ہوئے۔ مس (کلاس ٹیچر سے) آپ زینب سے فون نمبر لے کر ان کے گھر فون کریں، ان کی والدہ سے بات کریں، وجہ پوچھیں۔
زینب ہچکچائی اور نمبر دے دیا۔
فون پر دوسری طرف اس کے والد تھے جنہوں نے بتایا کہ میں تو کاروباری آدمی ہوں، بہت مصروف رہتا ہوں، میری بیوی اَن پڑھ ہے اس لیے… بچی نے اسے نہیں بتایا کہ میٹنگ ہے۔
زینب سے بعد میں جب ٹیچر نے پیار و محبت سے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ میں اپنی والدہ کو اس لیے یہاں نہیں لاتی کہ وہ پڑھی لکھی نہیں ہیں، میری تمام دوستوں کی مائیں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، میری دوستیں اور ٹیچرز کیا کہیں گی کہ میری والدہ اَن پڑھ ہیں!
ٹیچر نے زینب کو سمجھایا: آپ کی والدہ تو بہت بہترین، عقل مند اور سمجھ دار ماں ہیں جو آپ کو روز اچھی طرح تیار کرکے اسکول بھیج رہی ہیں تاکہ آپ تعلیم حاصل کرسکیں۔ وہ تو بڑے علم والی ہیں، آپ کو اُن کی قدر کرنی چاہیے۔
٭…٭
شوہر: (آفس جاتے ہوئے) بیگم مہربانی فرما کر بچوں کی طرح مجھے یہ لنچ باکس نہ دو، میں کینٹین سے کچھ کھالوں گا۔
بیگم: کبھی کبھار کی بات ہو تو چل جاتا ہے، روز باہر کا کھانا صحت کے لیے مضر ہے۔
شوہر: لوگ کیا کہیں گے کہ بچوں کی طرح گھر سے لنچ لا رہے ہیں۔
٭…٭
صادق صاحب: ارے بھئی دو ڈشز کافی ہیں دعوت میں، چلو ایک آدھ اور بنالو۔ لیکن یہ چھ سات ڈشز… یہ تو فضول خرچی ہے۔
بیگم: صادق صاحب لوگ کیا کہیں گے، اتنے بڑے عہدے پر آپ فائز ہیں، یہ بڑی سی کوٹھی اور کھانے میں اتنی کنجوسی…! آخر لوگوں کا بھی تو خیال رکھنا پڑتا ہے، اپنی عزت ہے اس میں… ’’لوگ کیا کہیں ہے‘‘
٭…٭
جی ہاں یہ وہ چند تصویریں ہیں جو آئے دن آپ کے آس پاس بھی نظر آتی ہوں گی کہ ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘… جن کی جکڑ میں ہر چھوٹا بڑا، ہر طبقے کا فرد پھنسا ہوا ہے۔ اکثر اس ایک جملے اور خیال کی وجہ سے بندہ اونچی چھلانگ لگانے سے بھی باز نہیں آتا جس سے چوٹ لگنے کا اندیشہ ہو۔ پچھلے دنوں ایک صاحبہ نے بتایا کہ بیٹے کی شادی پر بڑا قرض چڑھ گیا۔ وجہ پوچھنے پر پتا چلا کہ وہی خاص وجہ، یعنی ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘۔ اس طرح خرچ بڑھتا گیا…
٭…٭
ویسے لوگ یہ بات عموماً بیٹیوں (لڑکیوں) کی شادی میں زیادہ سوچتے ہیں۔ آج ہمارے معاشرے میں بہت سی سماجی روایات ایسی پھیلی ہوئی ہیں جو صرف پیسے کا ضیاع ہیں، لیکن لوگ اس لیے نبھا رہے ہیں کہ ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘… خصوصاً شادی بیاہ کے موقع پر۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے بتایا کہ مجھے بہت سی ایسی چیزیں اپنے بیٹے کی شادی میں کرنی پڑ رہی ہیں جو صرف یہ سوچ کر میرے شوہر کرنے پر مجبور ہیں کہ ان کا خاندان اور برادری کیا کہے گی کہ شہر جاکر اپنی روایات بھول گئے… آج شادی بیاہ میں مہندی، ڈھولکی اور دوسریکئی رسومات اسی وجہ سے نظر آرہی ہیں۔
اپنی مرضی سے جینے کے لیے اس جملے ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ کے چکر سے نکلنا ہوگا۔ میری ایک دوست نے بتایا کہ میں نے مدرسہ جوائن کیا تو سب سے پہلے شوہر نے ہی اعتراض کیا کہ لوگ کیا کہیں گے، کیا ملّانی بننا ہے!
ہم دن بھر میں ضرور ایک آدھ مرتبہ یہ جملہ استعمال کرتے ہیں، اور کئی ایسے کام جو ہماری ذات کے لیے فائدے مند ہوتے ہیں انہیں چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، اور کئی ایسے کام جو ہماری ذات کو نفع نہیں پہنچاتے انہیں ہم کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، جبکہ اسلامی تعلیمات ہمیں وہ راستہ منتخب کرنے کے لیے کہتی ہیں جس میں لوگوں کی مرضی اور چاہت کو نہیں بلکہ رب کی رضا کو سامنے رکھنا ہوگا۔ اس ذاتِ باری تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ کی فکر چھوڑنی پڑے گی۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس اس کائنات کی عظیم ترین ہستی تھی، چاہتے تو رب العزت انہیں دنیاوی شان و شوکت سے نواز دیتے، لیکن میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر معاملے میں اپنے رب کی مرضی کو مقدم جانا۔ یہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طریقہ تھا، اور یہی راستہ ہم امتِ مسلمہ کے لیے ہونا چاہیے۔

حصہ