سیدہ عنبرین عالم
’’بہت بکواس کرنی آگئی ہے تمہیں، نکالوں کیا نوکری سے؟ دیکھ نہیں رہے سارا خواتین اسٹاف ہے، تم سے نہ کہوں تو کس سے کہوں اپنے پائوٍں دبانے کو! بہت نخرے ہوگئے ہیں، کرتے کیا ہو تم سارا دن؟‘‘ اشفاق صاحب نے سید معین شاہ کو خوب ذلیل کیا جو کہ ان کے فیکٹری سپروائزر تھے۔ جینز کی پینٹ اور جیکٹ بنانے کی فیکٹری تھی۔ بڑے بڑے آرڈر، مال برآمد کرنا، مارکیٹنگ کرنا، ملازموں کی نگرانی، فیکٹری اور مشینوں کی دیکھ بھال… یہ سارے کام معین صاحب کے ذمے تھے۔ اشفاق صاحب دو گھنٹے کے لیے آتے اور رعب جما کر چلے جاتے۔ انہوں نے نئی نئی فیکٹری خریدی تھی، جب کہ معین صاحب پچھلے مالک کے زمانے سے ملازم تھے، پرانے مالک کے ساتھ مل کر فیکٹری کو اس مقام تک پہنچایا تھا۔ وہ کہیں اور نوکری نہیں کرسکتے تھے اور اشفاق صاحب انہیں بے عزت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ آج تو ان سے اپنے پائوں دبوانے پر مُصر تھے، معین صاحب اپنے بچوں کے رزق کے لیے مجبور تھے۔
معین صاحب صبح چھ بجے گھر سے نکلتے اور شام سات بجے گھر پہنچتے۔ 3 سال ہوچکے تھے، اشفاق صاحب تنخواہ بڑھانے پر تیار نہ تھے۔ مہنگائی نے سارے ریکارڈ توڑ دیے تھے اور سارا اسٹاف وہی تین سال پرانی تنخواہوں پر کام کررہا تھا۔ گھر میں والدہ، ان کی بیگم صبیحہ اور چار بچے تھے۔ بڑی تین بیٹیاں سارہ، شفا اور مہناز۔ چھوٹا ایک بیٹا ولی۔ تینوں بیٹیوں کو پرائیویٹ اسکولوں سے نکال کر سرکاری اسکولوں میں داخل کرا دیا۔ بیٹا 8 سال تھا، اسے اپنی حیثیت کے ایک پرائیویٹ اسکول میں ہی پڑھا رہے تھے کہ کچھ بن جائے اور سہارا ہو۔ والدہ کی بیماری نے الگ بجٹ آئوٹ کردیا تھا۔ والدہ کہتیں مجھے سرکاری اسپتال لے جائو۔ معین صاحب لے بھی گئے، مگر وہاں سارے چھوٹے ڈاکٹر ہی مریضوں کو بھگتاتے، لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے بڑے ڈاکٹر صرف بیٹھ کر چلے جاتے، اور تمام ڈاکٹروں کا اندازِِ گفتگو ایسا ہوتا جیسے مریض نہ ہوئے بھکاری ہوگئے۔ معین صاحب کو اپنی بے عزتی کی تو عادت تھی، مگر ماں سے ناروا سلوک برداشت نہ تھا، لہٰذا پرائیویٹ اسپتال میں لے جاتے۔ نوبت یہ آگئی کہ اپنی بائیک بیچنی پڑی۔ اب روز ڈیڑھ گھنٹہ بس سے فیکٹری جانے اور ڈیڑھ گھنٹہ آنے میں لگتا۔
گھر تھکے ہارے پہنچتے تو صبیحہ بیگم پٹارہ کھول کر بیٹھ جاتیں: فلاں کی منگنی ہے، فلاں کا عقیقہ ہے، باورچی خانے کا نلکا خراب ہے، ولی کا جوتا ٹوٹ گیا وغیرہ وغیرہ۔ معین صاحب مالک سے دن بھر بے عزت ہو کر آئے ہوتے، اب سارا غصہ بیوی بچوں پر نکلتا۔ بچوں کا یہ حال تھا کہ باپ کے گھر میں داخل ہوتے ہی کونے کھدروں میں چھپ جاتے۔ ان کے ساتھ کھانا بھی نہ کھاتے، ان سے بات بھی نہ کرتے۔ بڑی بیٹی سارہ میں معین صاحب کی جان تھی، بس وہی انہیں چائے، پانی، کھانا وغیرہ دیتی تو معین صاحب اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیتے۔ سارہ 13 سال کی ہوگئی تھی، اس کا نکلتا قد دیکھ کر ہی معین صاحب کو ہول اٹھتے تھے کہ کیسے بیاہوں گا؟ کیسے ریت رواج نبھائوں گا؟
ویسے تو ہر اتوار مشینوں کی مینٹی نینس کے لیے معین صاحب کو فیکٹری جانا ہی پڑتا، اس اتوار کے بدلے وہ کبھی دو گھنٹے، کبھی تین گھنٹے لیٹ جاتے، اس میں گھر کے کچھ کام نمٹاتے یا ماں کو کسی اسپتال وغیرہ لے جاتے۔ یوں کام چل رہا تھا۔ آج کے اتوار طبیعت بڑی بوجھل تھی، چاہ کر بھی بستر سے نہیں اٹھ پارہے تھے، تو سوچا برسوں بعد آج ایک چھٹی سہی۔ بیگم حیران پریشان کہ فیکٹری کیوں نہیں گئے؟ انہیں عادت تھی بچوں کو اسکول اور میاں کو دفتر بھیج کر سونے کی، اور یہ عادت وہ اتوار کو بھی باقاعدگی سے پوری کرتی تھیں۔ اب کریں تو کیا کریں! بچے بھی ہکابکا کہ باپ گھر پر کیوں ہے؟ ایک ماں تھیں کہ انہوں نے بریانی بنانے کا پروگرام بنایا کہ بیٹا گھر پر ہے۔ خود جاکر مرغی کا گوشت، دہی، چاول وغیرہ لے آئیں۔ معین صاحب پشیمان ہوگئے کہ ماں کو اتنی زحمت ہوئی۔
’’ارے نہیں بیٹا! یہ تو میرا روز کا کام ہے، سارا سودا لانا، دوپہر کا کھانا بنانا، بچے اسکول سے آئیں تو ان کو کھانا دینا، نماز پڑھوانا، پھر بچے اور میں سوجاتے ہیں اور صبیحہ اٹھ جاتی ہے، جاگتے ہی کھانا کھاکر ٹی وی کے آگے انڈیا کے ڈرامے دیکھتی ہے، جن میں بت دکھائے جاتے ہیں، گندے گندے موضوعات ہوتے ہیں ڈراموں کے، میں منع کرتی ہوں تو سنتی نہیں ہے‘‘۔ اماں نے بتایا۔
’’آپ دوپہر کا کھانا کیوں بناتی ہیں، اسے کیوں نہیں کہتیں؟ آپ کی عمر ہے یہ سب کرنے کی!‘‘ معین صاحب بولے۔
اماں نے بڑے فخر سے سر ہلایا۔ ’’اصل میں صبیحہ کہتی ہے کہ جو ذائقہ میرے ہاتھ میں ہے وہ اس کے ہاتھ میں نہیں، وہ تو دیوانی ہے میرے ہاتھ کے کھانوں کی، کہتی ہے آپ نہیں بنائیں گی تو میں کھانا کھانا چھوڑ دوں گی‘‘۔ انہوں نے بتایاں۔
’’اس کا مطلب ہے صبیحہ تو کوئی کام کرتی ہی نہیں، کیا کرتی ہے وہ سارا دن؟ صرف ڈرامے دیکھتی ہے؟‘‘ معین صاحب نے پوچھا۔
’’اب ایسا بھی نہیں ہے، سارہ اور شفا کی نگرانی کرتی ہے، تمہارے آنے کے بعد سب کے دوسرے دن کے کپڑے استری کرتی ہے، پھر ولی کے نخرے، کبھی فرنچ فرائز بنادو، کبھی پاپڑ تل دو، کبھی میٹھا پراٹھا بنادو، یہ سب صبیحہ ہی کرتی ہے۔ اب ڈراموں کا تو ایسا ہے کہ یہ دور ہی انڈین ڈراموں کا آگیا ہے، پورے محلے کی عورتیں سارا دن انڈین ڈرامے دیکھتی رہتی ہیں۔
…٭…
آج تو حد ہی ہوگئی، اشفاق صاحب نے معین صاحب کے چہرے پر تھپڑ مار دیا۔ معین صاحب نے تین نئی لڑکیاں رکھی تھیں، اچانک ایک بڑے ایکسپورٹر کا فون آگیا، انہوں نے آرڈر کی بابت تفصیلات بتانے کے لیے معین صاحب کو طلب کرلیا۔ وہ ان نئی لڑکیوں کو ایک سینئر کارکن کے حوالے کرگئے کہ ان کو کام سکھا دینا۔ وہ سینئر خاتون کارکن اچانک بخار میں مبتلا ہوگئیں اور گھر چلی گئیں، اب ان تینوں لڑکیوں نے جو کام کیا تو سب غلط کردیا، ہزاروں روپے کا کپڑا برباد ہوگیا۔ اشفاق صاحب کو تو بہانہ چاہیے تھا معین صاحب کو بے عزت کرنے کا۔ حالانکہ انہوں نے پوری فیکٹری سنبھال رکھی تھی۔ اشفاق صاحب نے آئو دیکھا نہ تائو، لے کر چہرے پر تھپڑ جڑ دیا۔ معین صاحب کو پہلے تو یقین ہی نہ آیا، پھر بس اتنا ہی کہا ’’صاحب! تھپڑ مارتے ہوئے اتنا تو سوچ لیتے کہ میں سید ہوں، پیارے نبیؐ کی آل سے ہوں، آپ کی فیکٹری آپ کے حوالے، میں چلا، جو رزق قسمت میں ہے، مل جائے گا‘‘۔ اور نوکری چھوڑ دی۔
تین دن تو صدمے سے گھر سے ہی نہ نکلے… ’’بتائو ساڑھے تین سو اسٹاف ممبرز کے سامنے مجھے تھپڑ مار دیا!‘‘ وہ تڑپ تڑپ کر بار بار بولتے۔
’’ابا! آپ کا تو اتنا تجربہ ہے، آپ کسی آس پاس کی فیکٹری میں بات کریں، نوکری مل جائے گی‘‘۔ سارہ نے کہا۔
’’وہ منحوس شخص صدر ہے فیکٹری مالکان کی ایسوسی ایشن کا، سب کو منع کردیا مجھے نوکری دینے سے‘‘۔ معین صاحب بولے۔
’’اللہ تعالیٰ روزی دینے والا ہے ابا، ایسے گھر میں بیٹھے بیٹھے تو کچھ نہیں ہوگا، کہیں تو کام ڈھونڈنا پڑے گا‘‘۔ سارہ نے سمجھایا۔
معین صاحب نے نظر اٹھا کر بیٹی کو دیکھا، پتا بھی نہ چلا اور یہ ننھی پری اتنی سمجھ دار ہوگئی۔ ’’ہاں بیٹا!‘‘ انہوں نے کہا۔
…٭…
سید معین شاہ پہلے تو درزیوں کے ہاں کام ڈھونڈتے رہے کہ پینٹ، جیکٹ سینے کا تجربہ تھا، مگر یہ کام درزی کرتے ہی نہیں تھے، سو ناکام رہے۔ کئی دفتروں میں دھکے کھائے، مگر تنخواہ اتنی معمولی تھی کہ مکان کا کرایہ بھی نہ نکلتا۔ فوری طور پر مکان تبدیل کیا، ایک دور دراز علاقے میں چھوٹا سا مکان لیا۔ پھر گاڑیوں کے ایک شو روم میں اکائونٹنٹ کی نوکری ملی، تنخواہ فیکٹری جیسی تو نہیں مگر مناسب تھی، شام سات بجے چھٹی ہوجاتی، اس کے بعد ایک ریسٹورنٹ میں اکائونٹنٹ کی نوکری کرتے، رات ایک بجے گھر آتے۔ ولی کو پھر ایک بہت اچھے پرائیویٹ اسکول میں ڈالا، وین لگوائی، ٹیوشن لگوایا کہ کسی قابل ہوجائے۔ بچیوں کو قریب کے ایک سرکاری اسکول میں ڈال دیا۔
مسلسل شدید محنت نے جہاں معین صاحب کے اعصاب کمزور کردیے تھے، وہیں صحت بھی خاصی متاثر ہوئی تھی۔ گھر مکمل طور پر سارہ نے سنبھال لیا تھا، اماں بس بستر کی ہوگئی تھیں، شفا کا کام دن رات دادی کی دیکھ بھال تھا۔ صبیحہ بچیوں کے بڑے ہوجانے کے بعد، بس اُن کے ہر کام میں نقص نکالنے کا کام کرتی تھیں تاکہ ان کی اہمیت بنی رہی۔ اب انڈین ڈراموں پر پابندی لگ گئی تھی، مگر پاکستانی ڈرامے انتہائی واہیات موضوعات کے ساتھ چوبیس گھنٹے موجود تھے، اور صبیحہ بیگم کی ہر رات شب برات اور ہر دن عید تھا۔ ولی کا انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخلہ ہوا تو لاکھ ہاتھ پائوں مارنے پر بھی معین صاحب اخراجات پورے نہیں کر پا رہے تھے۔ ولی خود بھی شام کو ٹیوشن پڑھاتا تھا، مگر ہلاکت خیز مہنگائی مارے ڈال رہی تھی، اس کی آدھی سے زیادہ کمائی بجلی، گیس، پانی کے بلوں میں چلی جاتی۔ قسطوں پر بائیک بھی لے رکھی تھی، ورنہ اتنی دور سے آنے جانے کا خرچا ہی بہت تھا۔ پریشانی سے معین صاحب کو شوگر، بلڈ پریشر ہوگیا، مگر قرضوں پر قرضے چڑھتے جارہے تھے۔ آخر ایک دن ہمت کرکے صبیحہ بیگم سے درخواست کی کہ کہیں نوکری کرلیں، سارا دن گھر میں فارغ بیٹھی رہتی ہیں، پھر عمر ہی کیا تھی، صبیحہ بیگم صرف 45 سال کی تھیں۔ بچے کیا بڑے ہوئے، وہ بزرگ بن کر دن رات آرام کررہی تھیں۔
’’ارے معین صاحب! بڑھاپے میں ذلیل کرائیں گے؟ عزت دار عورتیں بھلا نوکری کے لیے جوتیاں چٹخاتی اچھی لگتی ہیں! یہ تو آوارہ عورتیں ہوتی ہیں جن کو گھر سے باہر رہنے کا شوق ہوتا ہے‘‘۔ وہ ٹھنک کر نخرے سے بولیں۔
’’جن عورتوں کو گھر والوں کی ضروریات کا خیال ہوتا ہے، وہ انہیں سسکتا بکھرتا نہیں دیکھ سکتیں، وہ اپنے ہم سفر کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ جن عورتوں کے ہاتھ پر ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو نوٹوں کی گڈی رکھ دی جاتی ہے، انہیں کیا احساس کہ باہر نکلنے والی عورتیں ایک، ایک روپیہ کمانے کے لیے کیسے افسروں سے ذلیل ہوتی ہیں۔ میلوں پیدل چلتی ہیں، بسوں میں دھکے کھاتی ہیں، پورا دن بھوکی رہتی ہیں۔ نوکری تفریح کی جگہ نہیں ہوتی، جو تنخواہ دیتا ہے وہ خون بھی نچوڑتا ہے۔ پھر یہی عزت دار خواتین گھر، بچے بھی سنبھالتی ہیں‘‘۔ معین صاحب نے کہا۔
صبیحہ بیگم کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ ’’ہماری اماں کہتی تھیں کہ عورتوں کی کمائی کھانے والے مَردوں میں غیرت کی کمی ہوتی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا۔
سارہ ساری باتیں سن رہی تھی۔ ’’ابا! آپ فکر نہ کریں، جو تھوڑا بہت ہوا میں آپ کا ہاتھ بٹائوں گی‘‘۔ اس نے کہا۔
’’نہیں بیٹا! میری اولاد میری ذمہ داری ہے، میں ہی پوری کروںگا، میرا رب بڑا رازق ہے‘‘۔ انہوں نے جواب دیا۔
…٭…
صبیحہ بیگم ولی کے لاڈ اٹھانے میں مصروف تھیں۔ ’’بیٹا! تمہیں کیا پتا بچپن میں کتنی محنت سے تم سب کو پالا ہے، تم لوگ جادو سے تو بڑے نہیں ہوگئے ناں، تمہارا باپ تو سارا دن گھر سے باہر عیش کرتا تھا، میں تو مہینوں گھر سے نہ نکلتی، ساری زندگی تم لوگوں پر لگا دی، اب بچے بڑے ہوگئے تو تمہارا باپ میری نئی ڈیوٹی لگانا چاہتا ہے‘‘۔ وہ بولیں۔
’’ہاں! یہ تو آپ نے صحیح کہا، ابا سے تو ہم اتوار کے اتوار ہی ملتے رہے، جو صبح چھ بجے نکلتے تو رات کو دو بجے سے پہلے واپس نہیں آتے، آپ ہی ہیں جس نے زندگی بھر ہمارا ساتھ دیا، ابا نے ویسے میری فیس جمع کرادی ہے، آپ دل پر نہ لیں، آئندہ کوئی آپ کو نوکری کے لیے نہیں کہے گا، آپ ہی تو ہماری سرپرست ہیں، آپ کے بغیر گھر کیسے چلے گا؟‘‘ ولی نے جواب دیا۔
صبیحہ بیگم نے ولی کا ماتھا چوما اور اپنے ہاتھ سے اسے کھانا کھلانے لگیں۔ ولی محبت پاش نظروں سے ماں کو دیکھ رہا تھا۔ ’’آپ ہی تو میری جنت ہیں‘‘ اس نے کہا۔ اب معین صاحب کے پاس کہاں اتنی فرصت کہ بچوں کو چومیں، بلائیں لیں یا نخرے اٹھائیں۔ یہ سب تو فرصت والی مائیں کرتی ہیں اور بچوں کے دلوں پر راج کرتی ہیں۔ چاہتیں تو صبیحہ بیگم گھر پر ہی کچھ کام شروع کردیتیں کہ آمدنی ہو، مگر یہ بھی نرم دل والی سمجھ دار مائیں ہی کرتی ہیں۔
معین صاحب اب تین ملازمتیں کررہے تھے، صبح آٹھ بجے سے ایک دفتر میں ملازمت مل گئی تھی، ماشاء اللہ تنخواہ اتنی اچھی تھی کہ ولی کا یونیورسٹی کا خرچا تو اس ملازمت سے ہی نکل رہا تھا، پھر 12 بجے شو روم جاتے، اس ملازمت سے گھر کے خرچے چل رہے تھے، شام کو ریسٹورنٹ میں کام کرتے، یہ تنخواہ اماں جی کے علاج اور بچیوں کے جہیز کی مَد میں استعمال کی جاتی۔ 55 سال کی عمر میں اس جان توڑ محنت نے انہیں وقت سے قبل بوڑھا کردیا تھا، دیکھنے میں 70 سال کے لگتے تھے، ہڈیوں کا ڈھانچا رہ گئے تھے، بس یہ اطمینان تھا کہ سارہ اور شفا اپنے گھر کی ہوگئی تھیں، مہناز بھی ماشاء اللہ اتنی سلیقہ مند تھی کہ گھر سنبھالا ہوا تھا۔ بس ولی کی نوکری کا انتظار تھا کہ اس کی نوکری ہوجائے تو مہناز اور ولی کی ساتھ شادی کردیں، بیٹی جائے اور بہو آئے۔ اور پھر وہ وقت بھی آگیا کہ ولی کی تعلیم مکمل ہوگئی اور بہت اچھی نوکری مل گئی۔ اچھے علاقے میں کرائے کا مکان لے لیا تھا، گھر میں خوش حالی آگئی تھی۔ معین صاحب بے حد خوش تھے کہ زندگی بھر کی محنت وصول ہوگئی۔ ان کی حالت اُس کسان کی سی تھی جس نے سال بھر دھوپ، چھائوں اپنی فصل پر محنت کی ہو اور اب فصل اترنے کا وقت آگیا ہو۔
’’ابا! ابا! ولی نے نئی گاڑی لی ہے، ابھی لایا ہے، آکر دیکھ لیں‘‘۔ مہناز چلّائی۔ معین صاحب جلدی جلدی باہر گئے، گاڑی دیکھ کر ایک دم سانس ہی رک گئی، دیوار کا سہارا لیا اور پھر بے جان ہوکر بیٹھتے چلے گئے، گاڑی کے پیچھے لکھا تھا ’’یہ سب میری ماں کی دعائوں کا نتیجہ ہے‘‘۔