نگہت ظہیر
۔’’خوشخبری، خوشخبری‘‘… عدنان یہ کہتا ہوا تیزی سے گھر میں داخل ہوا اور لائونج میں پہنچ کر اس نے بے قراری سے ثمرین کو آوازیں دینا شروع کردیں۔ ثمرین جو ابھی ابھی عصر کی نماز سے فارغ ہوئی تھی جلدی سے جائے نماز لپیٹ کر لائونج میں آگئی۔ اس نے خوشی سے مسکراتے ہوئے پوچھا ’’کیا بات ہے بھئی، بڑا شور شرابہ ہورہا ہے‘‘۔ ثمرین کو دیکھتے ہی اس نے نعرہ لگایا ’’ارے میڈم تمہاری دعائیں قبول ہوگئی ہیں، مابدولت کی ترقی ہوگئی ہے، میں جس پروجیکٹ پر کام کررہا تھا جس کے لیے سنگاپور بھی گیا تھا، وہ بھرپور طریقے سے کامیاب ہوگیا ہے، کمپنی کو زبردست منافع ہوا ہے۔ اسی شاندار کارکردگی کی خوشی میں باس نے میرے اعزاز میں ایک زوردار تقریب کا اہتمام کیا ہے، پنج ستارہ ہوٹل میں۔ اور پتا ہے آپ کو، اس تقریب کے ہیرو ہوں گے مسٹر عدنان احمد… اور ہیروئن ہوں گی مسز ثمرین عدنان… ہے ناں خوشی کی بات… دیکھو ثمرین تم کو میرے ساتھ ضرور، ضرور چلنا ہوگا‘‘۔ وہ تو خوشی سے بے قابو ہوا جارہا تھا، جبکہ ثمرین سوچ میں پڑ گئی تھی، وہ جان گئی تھی کہ کس قسم کی شاندار تقریب ہوگی اور اس میں کیا ہوگا۔
عدنان اور ثمرین کی شادی کو ایک سال کے قریب ہورہا تھا لیکن وہ اس کے مزاج کو صحیح سے سمجھ نہیں پائی تھی۔ وہ بہت خیال رکھنے والا شوہر تھا۔ بس کچھ انفرادیت اور انوکھا پن اس کی طبیعت میں تھا، اکثر اس کو انوکھی اور منفرد چیزیں پسند آجاتی تھیں۔ وہ لا ابالی، شوخ، چلبلا اور پُرمذاق شخصیت کا مالک تھا، لیکن اگر کبھی کسی بات پر ناراض ہوجاتا تو اس کا موڈ بحال کرنا دشوار ہوتا۔ ثمرین بڑی مشکل سے معاملات کو سنبھالتی۔ وہ انکار سننے کا عادی نہیں تھا، ہر حالت میں اپنی منوا کر چھوڑتا۔ اس لیے ثمرین نے جان لیا تھا کہ عدنان کی مرضی کے مطابق ہی چلنا ہوگا۔ اب کہاں تک چلنا ہے یہ بھی وہ جانتی تھی۔
تقریب کے انعقاد میں ابھی بیس دن باقی تھے، عدنان اپنی اور اُس کی تیاری جوش و خروش سے کروا رہا تھا۔ اس نے ثمرین کے لیے گلابی رنگ کا سلور کام والا سوٹ پسند کیا اور اُس کے ساتھ میچنگ جیولری، چوڑیاں اور سینڈل بھی لیے۔ ثمرین تیاریوں میں اُس کے ساتھ شریک تھی، ہر بات خوشی خوشی مان رہی تھی اور ساتھ میں اس نے اپنے رب سے لو بھی لگا رکھی تھی۔
آخر وہ دن آپہنچا جس کا انتظار بے چینی سے تھا۔ ثمرین نے اُس کی پسند کے مطابق بھرپور تیاری کی، عدنان بھی فل تیاری میں بہت جچ رہا تھا۔ وہ دل ہی دل میں نظرِبد سے بچانے اور موڈ اچھا رہنے کی دعا کررہی تھی۔ اس کا دل ڈوبا جارہا تھا لیکن اس کو اپنے رب پر کامل بھروسا تھا کہ وہ اس کی مدد ضرور کرے گا۔
’’ثمرین یار بڑی زبردست لگ رہی ہو، سب لوگ مسز عدنان کی خوبصورتی دیکھ کر حیران رہ جائیں گے۔ بس اب جلدی کرو، دیر ہورہی ہے‘‘۔ عدنان نے جلدی جلدی بالوں میں برش پھیرتے ہوئے کہا۔
’’ذرا میں عبایا نقاب پہن لوں‘‘۔ ثمرین نے ڈرتے ڈرتے کہا، اور اپنا عبایا نقاب پہن لیا۔ عدنان کے چہرے پر ایک سایہ سا لہرا گیا، اُس کا موڈ خراب ہوچکا تھا، اس نے تیزی سے باہر گاڑی کی طرف قدم بڑھا دیے، ثمرین بھی اس کے پیچھے پیچھے گاڑی میں آگئی۔ دونوں نے سارا راستہ خاموشی سے طے کیا۔ثمرین کے ذہن میں اس کے کہے ہوئے جملے گردش کررہے تھے جو اُس نے ایسے ہی ایک موقع پر کہے تھے اور ناراضی کا اظہار کیا تھا:
’’وہ کوئی اوباش اور منچلے لوگوں کی محفل تھوڑی تھی جو تم کو گھورتے، آوازے کستے۔ وہ تو شرفاء کی باوقار محفل تھی، وہاں تمہیں اس طرح behave کرنے کی کیا ضرورت تھی!‘‘ دراصل عدنان کے خاندان میں روایتی پردہ ہوتا تھا۔ اس کو اور اس کے گھر والوں کو برقعے اور پردے کے فرق کی آگہی نہیں تھی۔ بہت دفعہ ثمرین نے سمجھانے کی کوشش کی، لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ وہ ثمرین کو اپنی مرضی پر ہی چلانا چاہتا تھا۔
گاڑی ایک جھٹکے سے رکی تو وہ خیالوں کی دنیا سے باہر آئی۔ وہ لوگ گاڑی سے اترے تو عدنان کی آمد کے منتظر لوگ استقبال کے لیے آگے بڑھے۔ عدنان کے ساتھ مسز عدنان کو دیکھ کر لوگوں کے تاثرات ملے جلے تھے۔ کچھ کی نظریں احترام سے جھک گئی تھیں تو کچھ کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی تھی۔ ہمیشہ اسے ایسے ہی تاثرات کا سامنا رہا تھا۔ عدنان ثمرین کو نظرانداز کرتا بیگانہ سا بنا تیز تیز قدموں سے اپنے دوستوں کی طرف بڑھ گیا، جبکہ ثمرین نے کرسی سنبھال لی جہاں کچھ اور خواتین بیٹھی تھیں۔ عدنان کے موڈ اور ہوٹل کے ماحول کی وجہ سے وہ کچھ نروس ہورہی تھی۔ افسران کی بیگمات اور دفتر میں کام کرنے والی لڑکیاں ہوشربا حلیوں میں آرہی تھیں۔ ایک سے ایک بڑھ کر اسٹائلش بنی سنوری خواتین اور لڑکیاں… اس نے ایک جگہ بیٹھے رہنے میں ہی عافیت جانی۔
اسٹیج پر لائٹوں کی چکا چوند میں پروگرام شروع ہوچکا تھا۔ نئے عزم، نئے جوش سے کام کرنے کی بات ہورہی تھی، عدنان کی بہترین کارکردگی کے بارے میں لوگوں کے تاثرات بیان ہورہے تھے، تعریفی کلمات سے نوازا جارہا تھا۔ اب عدنان کے چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی اور وہ خوش نظر آرہا تھا۔ اُس کو خوش اور مسکراتا دیکھ کر ثمرین کے خطا اوسان بحال ہوچکے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں پروگرام ختم ہوگیا اور تمام مہمانوں کو دعوتِ طعام دی گئی۔ وہ بھی رکے رکے قدموں سے طعام گاہ کی طرف بڑھنے لگی۔ اچانک پیچھے سے اسے عدنان کی چہکتی ہوئی آواز آئی ’’کہاں گم ہیں میڈم!‘‘ اُس نے انتہائی شوخ لہجے میں کہا ’’اگر یہ کسی فلم کا سین ہوتا تو تمہارے ساتھ ساتھ یہ گانا بج رہا ہوتا
یہ محفل جو آج سجی ہے
اس محفل میں ہے کوئی ہم سا
ہم سا ہو تو سامنے آئے‘‘
عدنان کے خوشگوار موڈ کو دیکھ کر ثمرین کے دل پر چھائے اداسی کے بادل چھٹ گئے، اس کا دل خوشی سے سرشار ہوگیا۔ اس نے اپنے رب کا شکر ادا کیا۔
واپسی میں وہ دونوں ہنستے مسکراتے محوِ سفر تھے۔ عدنان نے ثمرین سے کہا ’’قسم سے کوئی نہیں تھا تم جیسا… اسٹیج سے جب میں نے پورے ہال میں نظریں دوڑائیں تو سب مجھے ایک ہی دوڑ میں دوڑتے نظر آئے۔ سب ایک جیسی یکسانیت کا شکار، حسن کی نمائش کرتی عورتیں، فیشن اور اسٹائل میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کے لیے کوشاں… اسٹائل میں منفرد تو بہت سی خواتین تھیں لیکن تم جیسا منفرد کوئی نہیں تھا۔ دل نے کہا: اس محفل میں کوئی نہیں ہے تم جیسا… ارے ہاں ایک اور راز کی بات بھی بتادوں‘‘ اُس نے مسکراتے ہوئے کہا ’’میں نے بھی کسی لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا، کسی کو لفٹ نہیں کرائی، اگر میری بیوی کا حسن اور سجاوٹ صرف میرے لیے ہے تو میں بھی صرف اُسی کے لیے ہوں… صرف تمہارے لیے… میڈم… صرف تمہارے لیے۔‘‘
عدنان کی ایسی خوش کن باتوں سے ثمرین کا دل باغ باغ ہوگیا اور اُس نے اس کا جواب ایک دل آویز خوبصورت مسکراہٹ سے دیا۔ وہ عدنان کو جو بات بہت دنوں سے سمجھا رہی تھی آج اچانک اس کی سمجھ میں آگئی تھی۔
عدنان کو مذاق سوجھا، اس نے انتہائی شرارتی انداز میں کہا ’’میڈم… اگر یہ کسی فلم کا سین ہوتا تو…‘‘ ثمرین اُس کی اس بات پر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔