کیا مجھے بھول گئے۔۔۔۔؟۔

515

نادیہ سیماب
میں جنت نظیر ہوں، حُسن کا پیکر ہوں، میرے نیلے نیلے پربت، اٹھلاتی بل کھاتی ندیاں، بلندی سے آتی آبشاریں اور باغات… کبھی کبھی مجھے اپنے اوپر فخر محسوس ہوتا ہے، مگر یہ فخر و ناز خاک میں مل جاتا ہے۔ میں اس رب کا شکر ادا کرتی ہوں جس نے مجھے جنت بنایا۔ مگر اُن پر غصہ آتا ہے جنہوں نے مجھے جہنم میں بدلنے کی کوشش کی۔ میری پاک دھرتی ناپاک بوٹوں تلے دبا دی گئی۔
1947ء میں جب برصغیر کی تقسیم کا وقت آیا تو بھگوڑے ڈوگرہ راجا ہری سنگھ نے بھارت سے الحاق کے نام پر پناہ حاصل کرنے کے لیے بدنام زمانہ معاہدے پر دستخط کر دیے۔ اُس وقت موجود 96 فیصد مسلمانوں نے اس پر احتجاج کیا تو جواب میں ان پر ظلم و ستم ڈھائے گئے۔ میری بیٹیاں سرِعام رسوا کی گئیں، میرے بچوں کے سینے چھلنی کیے گئے، میرے جوانوں کو قید میں رکھ کر تشدد کیا جاتا۔ میرے بزرگوں اور مائوں کو بھی نہ بخشا گیا۔ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ اپنی آزادی واپس مانگ رہے تھے۔ مگر جیالے، بہادر سپوت بھی میری پیٹھ پر موجود تھے جن کی پُرزور کاوشوں اور احتجاج سے لارڈ مائونٹ بیٹن اس بات پر مجبور ہوا کہ اس نے معاہدے کی توثیق اس شرط کے ساتھ وابستہ کردی کہ میری وادی کا حتمی فیصلہ، میرے سینے پر بسنے والے یعنی کشمیریوں ہی کی رائے کے مطابق کیا جائے۔
14 اگست1947ء کو پاکستان اور 15 اگست 1947ء کو بھارت نے اپنی اپنی جغرافیائی حدود کے اندر پہنچ کر اپنی اپنی تقسیم کا اعلان کردیا۔ گویا کہ برابری کا فیصلہ ہوگیا، مگر پاکستان کے دشمن اور میری سرزمین پر قابض بھارت کو یہ ہضم نہ ہوا، جب کہ میرا الحاق پاکستان کے ساتھ ہی بنتا ہے۔ میرے پانچوں دریا پاکستان جارہے ہیں۔ اگر یہ لائن کٹ جائے تو گویا شہ رگ کٹ جائے، اور یہ مذموم کوششیں کی بھی گئیں جس کی وجہ سے آزاد کشمیر ’’آزاد‘‘ کہلایا، اور میں ’’مقبوضہ‘‘۔ دن گنتی ہوں، آنکھ ترستی ہے، کب میرا وجود مکمل ہوگا۔ میرے وجود کو وہ (بھارت) ہر سائڈ سے پکڑ کر کھینچ کر اپنے سے لگانے کی کوشش کررہا ہے جس کا مجھ سے کوئی جوڑ بنتا ہی نہیں، نہ جغرافیائی، نہ دینی، نہ جذباتی… مگر میں جس وجود کا حصہ ہوں وہاں سے خاموشی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میرے اوپر پاکستانی فوجیں اترتیں، قوم گلی گلی ان کا استقبال کرتی، بہار پھول برساتی، ہوائیں گنگناتیں، جیسا کبھی مدینے کی گلیوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیا گیا تھا۔ مگر… میں ادھوری ہوں، کیسے سانس لوں! کسی نے کیا خوب کہا تھا: دل دل ہے کشمیر… جان جان پاکستان… کیا پاکستان کو میں یاد ہوں…؟ کیا میرے وجود (پاکستان) کو یہ اندازہ ہے کہ 72 سال ہونے کو آئے ہیں، نہ وہ (پاکستان) پورا ہے نہ میں (کشمیر)۔ ہم اپنی اپنی جگہ ادھورے ہیں۔ یہ زمینی حقائق ہیں۔ جذباتی تو ادھورا ہونے سے بن رہے ہیں۔ ظلم و تشدد کی داستان رقم ہونے سے بن رہے ہیں۔ مجھے کوئی تو خبر دو… کیا پاکستان ابھی تک اپنے پیروں پہ بھی کھڑا نہ ہوسکا جو اپنی شہ رگ کا خیال کرتا؟ مجھے ایک بازو کے علیحدہ ہونے کی خبر ملی تھی۔ یہی دھڑکا لگا تھا کہ کہیں… مگر نہیں، میں نے یہ بھی سنا تھا کہ سیالکوٹ میں دشمنوں کو مزا چکھایا گیا ہے، اور پھر پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا… مگر یہ کیا…! اس کے باوجود میرا آئینی تشخص ختم کیا جارہا ہے۔ شاید میرے وجود پاکستان کو اس کی خبر نہ ہوئی۔ کیا اس بات کی بھی خبر نہیں کہ ’’ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘‘۔ ہاں ظلم کی داستان رقم کرنے والے بہادر ہیں اور مظلوم بزدل… ذرا کان قریب لائو… یہ حقیقت بتا دوں کہ اب میرے وجود کو قراردادوں سے نہیں جوڑا جاسکتا۔ 1948ء سے موجود اس قرارداد کا اب تک مجھے کیا فائدہ پہنچا… میرے اوپر ہونے والے ستم کیا دنیا میں کسی کو نظر نہیں آتے؟
بازو کے بغیر کوئی زندگی گزار سکتا ہے مگر اپنی شہ رگ کے بغیر کیسے جی سکتا ہے؟ میرے وجود میں کسی ننھے معصوم کشمیری کا خون جذب ہوتا ہے تو میں صبر کے گھونٹ پیتی ہوں، مگر کب تک؟ آئے دن میرے کانوں میں ان کلیوں کی چیخیں سنائی دیتی ہیں جو درندہ صفت کتوں کے ہاتھ لگ جاتی ہیں۔ کبھی میرے وجود میں سیکڑوں مُردے دفنائے گئے۔ گڑھے کھودے جاتے ہیں تاکہ عالمی سطح پر نمایاں نہ ہوں۔ مگر اللہ سب جانتا ہے، جو زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے ضرور سوال کرے گا کہ تُو کس قصور میں ماری گئی۔ آہ… آہ کس کس ظلم کی داستان سنائوں… داستان سننے والو! کبھی اپنوں کی جدائی کا غم بھی سہا ہے؟ کبھی کسی کے ہاتھ پیر گاجر مولی کی طرح کٹتے دیکھے ہیں؟ میرا حوصلہ دیکھو، میرا جگر دیکھو، جب میرے وجود میں کسی جوان کا خون ٹپکتا ہے تو مجھے سکون ملتا ہے، کسی انقلاب کی نوید ملتی ہے، کیوں کہ یہ خون بے بسی کا نہیں ہوتا بلکہ مجھے میرے وجود سے ملانے کی کوشش میں بہادری سے لڑتے ہوئے ٹپکا ہوتا ہے… کچھ لوگ ہیں جو میری قدر و قیمت سے واقف ہیں۔
مگر یہ خیال رہے کہ 72 سال سیاسی خون کی خوشبو کے سوا مجھے کچھ نظر نہیں آتا۔ مجھے تو خیر اب اس ماحول کی عادت پڑ گئی ہے، مگر میرے وجود کی اہمیت یاد رکھنا۔ مجھے تمہارے بانی قائداعظم نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ اگر مجھے کچھ ہوا تو سوچو تمہارا کیا ہوگا؟ تمہیں خبر بھی ہے کہ میرے بچے بچیاں تمہارے جھنڈوں کو ہاتھ میں لیے شہید ہوتے ہیں اور اسی میں کفنائے جاتے ہیں (اتنی محبت تو شاید تمہیں بھی نہ ہو)۔ ہے خبر؟ یا تمہارے بھی سارے مواصلاتی نظام، نیٹ، موبائل سروس بند پڑے ہیں؟
ابھی آزاد ہو تو ہوش کے ناخن لو، 5 اگست2019ء کو بھارت کے آئین میں شامل آرٹیکل 35-A اور 370 جو کہ میری علیحدہ حیثیت کو شو کرتا تھا، ختم کردیا گیا ہے۔ تم سے پہلے کے لوگوں نے 1971ء میں ایک بازو گنوا کر کچھ غم بھی منا لیا تھا، مگر اس سقوطِ کشمیر پر جو عملی طور پر میرے ساتھ کیا جارہا ہے، تم صرف خوشی منا رہے ہو یہ کہہ کر کہ ہم نے پوری دنیا کو بتادیا کہ ’’شہ رگ کٹ گئی ہے‘‘۔ تف ہے، افسوس ہے۔ یاد رکھنا میں تمہاری شہ رگ ہوں، بازو نہیں جس کے بغیر تم جی سکو۔ بازو کا غم مناکر تو جیا جاسکتا ہے، مگر شہ رگ کے بغیر تو زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔ اٹھو، آگے بڑھو، میرے لیے نہ سہی اپنے لیے ہی سہی… مُردہ ضمیروں کو جھنجھوڑو، اپنی خواب گاہوں سے نکلو خواہ ہلکے ہو یا بوجھل۔ دنیا کو میرا یہ پیغام سنادو کہ مسلمان ہوں اور پاکستان سے میرا مضبوط رشتہ لا الٰہ الااللہ کا ہے، اس لیے میری آزادی یقینی ہے۔
بھارتی وزیراعظم میرے اوپر چڑھائی کرکے سب سے بڑی بے وقوفی کرچکا ہے۔ اب اُس کے لیے واپسی کا کوئی راستہ نہیں بچا۔ اس سنہری موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دو، مودی کا پلٹنا اب بے عزتی کے سوا کچھ نہیں، وہ اپنی موت دیکھ کر ہی یہاں آیا ہے۔ اب بھارت کی بربادی اور ٹکڑے ٹکڑے ہوتے دیکھیں گے۔ اللہ پاکستان اور کشمیر کی حفاظت کرے، آمین۔

حصہ