رمشا جاوید
دوپہر جب اپنا فیس بک آن کیا تو سب سے پہلی خبر ہی دل دہلا دینے والی ملی۔ میری وال بھری ہوئی تھی عظیم بلوچ کی شہادت کی خبر سے۔ پہلے پہل تو میرا دل بیٹھتا چلا گیا۔ آنکھیں مکمل دھندلا چکی تھیں۔ میں دیوانہ وار صرف اپنی وال چیک کررہی تھی کہ کہیں سے بس پتا چل جائے کہ یہ کوئی اور عظیم بلوچ ہے۔ بخدا اگر ساتھ اُن کی تصویریں نہ ہوتیں تو دل ماننے کو تیار ہی نہ ہوتا کہ یہ اپنے عظیم بھائی ہیں۔
بچپن سے پڑھتی تھی کہ ’’انسان کا سب سے زیادہ وقت جہاں گزرتا ہے موت بھی وہیں اس کا استقبال کرتی ہے۔‘‘ آج یقین آگیا۔
ہر وقت تو یہی سنتی رہتی تھی کہ آج عظیم بلوچ مرکز میں ہیں، کل سفر میں، پرسوں پروگرام میں۔ جن کا سارا وقت اللہ کے راستے کی نذر ہوگیا، موت نے بھی وہیں ان کا استقبال کیا۔
چند دن پہلے ہمارے وزیراعظم کے ایک بیان کا بڑا چرچا رہا کہ ’’سکون صرف قبر میں ہے۔‘‘ میں بتاؤں آج رونے اور عظیم بھائی کو کندھا دینے والے انہیں قبر میں اتار آئے اور میرے عظیم بھائی کا سفر اتنا عالیشان ہوا کہ ہر آنکھ اشک بار، ہر چہرہ تر، ہر دل نڈھال اور لبوں پر محسن کی اچھائیاں اور دعائے مغفرت موجود رہی۔ اتنا آسان تو نہیں تھا ناں قبر میں سکون کا مل جانا۔ عصر تا عشاء کی اذان کے درمیانی حصے میں میرے لبوں پر صرف عظیم بھائی کے لیے دعائے مغفرت تھی۔ کتنی نیکیاں سمیٹیں انہوں نے۔ کسی کو راہِ راست پر لائے، تو کسی کی امیدوں کا مرکز بنے۔ اپنوں سے بڑھ کر اپنے ثابت ہوئے۔ اُن کے ہر ہر سفر میں عدیل بھائی ساتھ ہوتے تھے۔ یہ بھی ایک اتفاق تھا کہ اِس سفر میں ان کا ساتھی کوئی اور تھا۔ ورنہ بس یہی سننے کو ملتا تھا کہ ’’آج عدیل بھائی عظیم بلوچ کے ساتھ فلاں جگہ جائیں گے اور کل کہیں اور کا پروگرام سیٹ ہے۔‘‘ اور پھر ماہم ہو یا عدیل بھائی، دونوں کی داستان عظیم بلوچ سے شروع ہوتی اور ان پر ہی ختم ہوتی تھی۔
ابھی چند دنوں قبل ہی تو انہوں نے عدیل اقبال کی فیس بک آئی ڈی اغوا ہونے کی خبر دی تھی۔ ادھر عدیل بھائی اور عظیم بھائی تھے اور اِدھر ہم لوگ کہ کسی طرح معلوم ہوکہ آئی ڈی کس کے ہاتھ لگی۔
پھر عدیل بھائی کو فون کیا تھا کہ ’’آپ کی سالی نے بہت مزیدار کھانے بنائے ہیں۔‘‘ اب… نمبر تو وہی ہوگا لیکن فون اٹھانے والا کوئی نہیں ہوگا۔
ٹوٹے ہوئے لوگوں کی ہمت بندھانے والا کوئی نہیں ہوگا۔
چوٹ کھا کر سر اٹھائے مسکرانے والا کوئی نہیں ہوگا۔
محبت، شفقت کی مثال بننے والا کوئی نہیں ہوگا۔
دین کے کام تو جاری رہیں گے لیکن وہ مضبوط اور بے نیاز ہاتھ نہیں ہوں گے۔
ذکر تو چلے گا لیکن وہ دردِ دل نہیں ہوگا۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
کتنی ہی راتیں وہ گھر سے باہر صرف دین کے کاموں کے لیے گزارا کرتے تھے۔ اور کتنے ہی دن تھکاوٹ سے بے نیاز وہ خدمتِ خلق میں کوشاں رہتے تھے۔ یہ بھی چند مہینے پہلے کی بات ہے جب کچھ لوگوں نے انہیں دلی طور پر تکلیف سے دوچار کیا تھا۔ وہ مضبوط انسان اُس وقت بھی مسکرا رہا تھا اور ان کے لبوں پر یہی ایک جملہ تھا کہ ان کی ساری کوششیں، محنتیں اللہ رب العزت کے لیے اور اس کے دین کی سر بلندی کے لیے ہیں۔ اُس وقت سوچا تھا میں نے کہ اس عظیم لیڈر پر چند جملے لکھوں گی۔ ان کی محنت، لگن، نیک نیتی، ایمان داری، وفاداری کو قلم بند کروں گی، لیکن میرے الفاظ ہر بار کم پڑجاتے تھے اور وہ بازی لے جاتے تھے۔ آج کچھ بھی نہیں ہے کہنے کو، محض ایک جملہ ہے کہ:
’’زندگی میں انسانوں کی قدر کرلو۔ مرنے والا رب کے حضور اپنی نیک نیتی سے شہادت کا وہ عظیم رتبہ پا چکا کہ جس کی خواہش تو نبی پاکؐ کیا کرتے تھے۔‘‘