ایک دن ماسٹر صاحب سب بچوں کو پھلواڑی میں لے گئے۔ کیاری کی مٹی کی کھرپی سے نرم کرکے چنے کے دانے بکھیر دیئے۔ اوپر سے کھاد ڈالی مٹی ڈال کر ذرا پانی دے دیا۔ تیسرے دن بچوں نے ماسٹر صاحب کو بتایا کہ بیجوں میں سے سفید سفید کوئی چیز نکل آئی ہے۔ ماسٹر صاحب نے بتایا کہ یہی پودے کا چھوٹا سا تنا ہے۔ یہ بعد میں بڑا ہو جائے گا۔ اس میں پتے بھی لگیں گے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پودے کی ننھی سی جڑ زمین کے اندر بڑھ رہی ہے۔
ماسٹر صاحب نے ایک پودے کو اکھاڑ کر سب بچوں کو دکھایا۔ سب بچے جان گئے کہ پودے کا تنا اوپر کی طرف بڑھتا ہے۔ جڑ نیچے کی طرف زمین میں بڑھتی ہے۔ ماسٹر صاحب نے بتایا کہ پودے بغیر بیج کے بھی اگائے جا سکتے ہیں۔ یہ سن کر بچوں کو بڑی حیرانی ہوئی۔
فواز سے رہا نہ گیا، وہ بول ہی اٹھا: ماسٹر صاحب بغیر بیج کے پودے کیسے اگائے جاسکتے ہیں؟
ماسٹر صاحب نے کہا: بغیر بیج کے پودے زیادہ تر پودوں کے تنوں سے اگائے جاتے ہیں۔ گنا، گلاب، مہندی وغیرہ پودوں کی قلم کاٹ کر زمین میں بو دیتے ہیں۔ ان قلموں کے اوپر چھوٹی چھوٹی کلیاں ہوتی ہیں۔ ان کلیوں سے پھوٹ کر نئی شاخیں نکلتی ہیں۔ زمین کے اندر کے حصے سے جڑیں اگتی ہیں۔ کچھ ہی دنوں میں یہ ننھا سا پودا بڑا ہو جاتا ہے۔ کچھ پودوں کی پتیوں سے بھی بغیر بیج کے پودے اگ آتے ہیں۔ ان میں سے جڑیں بھی اگتی ہیں۔ یہ کلیاں جب زمین پر گرتی ہیں تو نیا پودا اگ آتا ہے۔ گھاس، پودینہ، ادرک، کسر، پیاز، لہسن، آلو، گوبھی، ہم بغیر بیجوں کے اگا سکتے ہیں۔