سید مودودی ؒ سے میری ملاقاتیں

1329

تصنیف: منظور الحق صدیقی
تعارف، تدوین و تلخیص: محمود عالم صدیقی
مرتب: اعظم طارق کوہستانی
دوسرا اور آخری حصہ

پروفیسر منظور الحق صدیقی۔

حیات و خدمات(۱۲؍اپریل ۱۹۱۷۔ ۲۷ جولائی ۲۰۰۴ء)۔

آپ کے جدِ اعلیٰ زبدۃ الاولیا حضرت قاضی قوام الدینؒ ۱۳۰۰ء کے لگ بھگ بغرض سیاحت وارد ہند ہوئے۔ سلطان دہلی نے آپ کو علاقہ رہتک کے منصب قضا پر فائز کیا۔ آپ کی اولاد رہتک اور قصبہ مہم میں اپنے بنائے ہوئے قلعوں میں رہتی رہی اور ۱۹۴۷ء میں ہجرت کرکے پاکستان آگئی۔ مسلم عہد حکومت میں اس خانوادے کے افراد انتظامیہ اور عدلیہ کے اعلیٰ مناصب پر فائز رہے۔ اس جلیل القدر خانوادے کے علما و مشائخ نے برصغیر میں موثر تبلیغ و اشاعتِ دین کی۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں دینی پیشوائوں کے اس خانوادے نے بھرپور حصہ لیا جس کی پاداش میں اس کے اکثر کنبوں کے سربراہوں کو پھانسی دی گئی اور باقی کو سخت ترین سزائیں دیں۔ تحریک پاکستان میں اس خاندان کے مرد و زن نے تاریخ ساز کردار ادا کیا۔
پروفیسر منظور الحق صدیقی تحریک پاکستان کے ان اولین کارکنوں میں سے ہیں جنھوں نے قرارداد پاکستان والے اجلاس لاہور میں شرکت کی اور پھر قرارداد لاہور کو عوام میں مقبول بناکر اسے تحریک پاکستان بنانے میں بھرپور حصہ لیا۔ آپ کو قائداعظم اور سید مودودیؒ سے طویل ملاقاتوں اور خط و کتابت کا شرف حاصل ہے۔ تحریک پاکستان گولڈ میڈلسٹ ہیں۔
صدیقی صاحب ۱۹۴۰ء سے مسند تدریس پر فائز تھے۔ آپ کے مخصوص طریق تعلیم و تربیت اور فیض نظر کے طفیل تین نسلوں کے ہزاروں شاگردوں میں سے اکثر کی شناخت دیانت اور حسن کارکردگی ہے۔ آپ پاکستان کی مایہ ناز درسگاہ کیڈٹ کالج حسن ابدال کے بانی اساتذہ میں سے ہیں۔ آپ ایک بلند پایہ محقق، مصنف اور مورخ بھی ہیں۔ ریاضیات، معماگوئی، تاریخ اور سوانح نگاری پر آپ کی بیس کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ جن میں مآثر الاجداد، ہادی ہریانہ، تاریخ حسن ابدال اور قائداعظم اور راولپنڈی کتب حوالہ کا درجہ رکھتی ہیں۔
آپ کے علمی و ادبی خزانے میں بکثرت شاہی فرامین، مخطوطات، دستاویزات، مشاہیر کے خطوط، تاریخ پاکستان اور تحریک پاکستان کے نادر و نایاب مآخذ ہیں۔ حکومت پاکستان نے ان نوادرات پر کنزلآثار صدیقی کے نام سے ایک رسالہ شائع کیا ہے۔

فرمانے لگے کہ جب کسی تحریک کا آغاز ہوتا ہے تو اس کے بہت سے متاثرین اپنے خیالات کا کھلے بندوں اظہار نہیں کرتے، گو ایسے متاثرین قومی زندگی کے ہر شعبہ میں ہوتے ہیں لیکن جب تحریک زور پکڑجاتی ہے تو ان میں سے ہر ایک میدان عمل میں اتر آتا ہے کانگریس کی تحریک میں یہی بات پائی جاتی تھی جب کاگریس نے زور پکڑا تو اچانک یہ راز فاش ہوا کہ کم و بیش ہر ہندو سرکاری ملازم کانگریسی ہے یہی حال مسلم لیگ تحریک کا تھا، اس کے عروج کے دور میں کون سا مسلمان سرکاری ملازم تھا و مسلم لیگی خیالات کا حامی نہ تھا، جماعت اسلامی اس وقت ابتدائی دور میں ہے، اس کے متاثرین اور ہمدرد ہر جگہ ہیں، حال ہی میں کوئٹہ گیا تھا وہاں سرکاری ملازم پر پابندی تھی کہ وہ میری تقریر نہ سنے، فوج کے لیے وہ علاقہ باہر از حدود out of Bounds تھا۔ جلسہ گاہ کے باہر باوردی اور سادہ کپڑوں میں پولیس متعین تھی کہ جو سرکاری ملازم اندر جائے اس کا نام نوٹ کرلیا جائے بااین ہمہ جلسہ میں متعدد سرکاری ملازم تھے افسران بھی تھے اور فوجی افسر بھی۔ یہا تک کہ وہاں کے ڈی ایس پی، سی آئی ڈی (غالباً) کا بیان ہے کہ ہماری تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود ہر وہ شخص جو چل سکتا تھا جلسے میں گیا۔
اخلاق سازی کے بارے میں فرمایا کہ بھلائی اور برائی کی مثال بلندی اور پستی کی سی ہے، بلندی پر چڑھنا بڑا مشکل ہوتا ہے، وہاں پہنچنے کے بعد بس ذرا گرفت ڈھیلی کی اور لڑھکتے ہوئے پستی میں آرہے۔
اثنائے گفتگو میں ایک پلمبر غسل خانے کا نل ٹھیک کرنے آیا، سید صاحب نے خود اٹھ کر غسل خانے کے باہر کا دروازہ کھولا اور اسے ہدایات دے کر واپس آگئے اور فرمایا کہ چلو باہر بیٹھیں، چنانچہ خود کرسی اٹھا کر باہر لے گئے۔ میں بھی اپنی کرسی اٹھا کر باہر لے آیا۔ دفتر کے کچھ کارکن بھی اپنی اپنی کرسیاں لے کر آگئے اور دنیا کے ہر چھوٹے اور بڑے مسئلے پر گفتگو ہونے لگی۔ جناب لیاقت علی خاں کا ذکر آیا تو ان کا نام ’’لیاقت علی خاں صاحب‘‘ بغیر کسی طنز کے احترام کے ساتھ لیا حالانکہ وزیراعظم موصوف نے اپنی یوم استقلال والی تقریر میں حقارت کے ساتھ ’’لاہور کے ایک مولوی صاحب‘‘ کہا تھا۔ سوا سات بجے سب نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔

پانچویں ملاقات (۲۲؍ اگست)۔

آج شام مودودی صاحب سے پھر ملنے گیا، ساڑھے پانچ بجے مسجد میں ان کے ساتھ نماز عصر ادا کی، دوسری صف میں ان کے دائیں طرف کھڑا ہونے کا موقع مل گیا، نماز سے فارغ ہوکر جماعت اسلامی کے دفتر کی طرف گئے، آج مولانا کے ساتھ مجھ سمیت آٹھ اشخاص تھے، باہر کرسیاں ڈال دی گئیں اور باتیں شروع ہوئیں، گورڈون کالج راولپنڈی کے دو طالب علم بھی آگئے۔ آج پہلی بار معلوم ہوا کہ مولانا خوش مزاج بھی ہیں ایک صاحب پاس پڑی ہوئی چارپائی پر بیٹھ گئے فرمانے لگے: ’’چارپاے تو کرسی کے بھی ہوتے ہیں، پھر آپ وہاں کیوں جابیٹھے‘‘۔
میں نے سوال کیا اگر جماعت حکومت بنائے تو کیا وہ اشتراکیوں کی طرح ایسا کرے گی کہ اپنی مخالف جماعتوں کو حق رائے دہندگی نہ دے یا اگر دے تو اس صورت میں کہ وہ صرف جماعت اسلامی کے امیدوار کو ووٹ دے سکیں؟ فرمانے لگے کہ ’’یہ بات مزاج اسلامی کے خلاف ہے ہر شخص اور جماعت کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں کو تبلیغ و اشاعت سے اپنا ہم نوا بنائے اور ہر جماعت کو اکثریت کے بل بوتے پر حکومت بنانے کا حق ہے اس میں جماعت اسلامی یا کسی اور ایسی جماعت کی کوئی خصوصیت نہیں۔
میرے ایک سوال کے جواب میں فرمایا عورتوں کو ووٹ دینے کا حق ہے مگر موجودہ حالات میں ہم اس بات کے خلاف ہیں کہ عورتیں منتخب ہوکر اسمبلی میں جائیں، ہاں جماعت اسلامی اقتدار میں آجائے تو عورتوں کی ایک ایسی ہی علیحدہ منتخب مجلس بنائی جاسکتی ہے جس کا دائرہ عمل محدود و متعین ہو۔
مغرب کی نماز مولانا کے دائیں طرف کھڑے ہوکر مسجد میں باجماعت ادا کرکے پھر دفتر جماعت میں آبیٹھے اور آٹھ بجے تک باتیں ہوتی رہیں۔ اس اثنا میں جماعت کے دیگر ارکان سے بھی کچھ باتیں کیں اور ترجمان القرآن کے متعلق کوئی مشورہ دیا۔ معلوم ہوا کہ ترجمان القرآن مولانا کا اپنا پرچہ ہے، اس پرچے کی معمولی سی آمدنی مولانا کے اخراجات کی کفیل ہوتی ہے، شاید اس کے ساتھ کچھ اور کتابیں بھی ہوں۔

چھٹی ملاقات (۲۵؍ اگست)۔

مولانا مودودی سے ملنے نکلا تو پروفیسر عبدالحمید صدیقی سے ملاقات ہوگئی (ان دنوں یہ بی اے بی ٹی تھے اور اسلامیہ ہائی اسکول گوجرانوالہ میں پڑھاتے تھے۔ ۱۹۷۸ء میں انتقال ہوا) یہ جماعت اسلامی کے سرگرم رکن اور رسالہ ترجمان القرآن کی ادارت میں مولانا کے معاون تھے۔ ہماری ان سے یاداللہ ۱۹۴۱ء سے تھی، جب یہ ڈی اے وی کالج راولپنڈی میں پڑھتے تھے اور ’’بم پارٹی‘‘ کے رکن تھے۔ راولپنڈی مسلم اسٹوڈنٹس سرگرم عمل ہوئی تو ان سے میرا تعارف ہوا اور وہ تحریک پاکستان کے کارکن بن گئے۔ ۷ اور ۸ مارچ ۱۹۴۲ء کو پنجاب مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے راولپنڈی میں اپنا دوسرا سالانہ اجلاس منعقد کیا اور مجھے اس اجلاس کا صدر مجلس استقالیہ مقرر کیا۔ رکن مجلس استقبالیہ کی حیثیت سے عبدالحمید صدیقی اکثر میرے پاس آیا کرتے تھے۔ میرے پاس جو رسائل آتے تھے وہ پڑھا کرتے اور رسالہ ترجمان القرآن پڑھنے کے لیے گھر لے جایا کرتے تھے (میری ڈائری میں ان رسائل کا اندراج ہے جو یہ پڑھنے کے لیے لے جاتے رہے) اس روز اُنھوں نے مولانا سے میرا تفصیلی تعارف کروایا اور بتایا کہ یہ ہیں جو میرے جماعت اسلامی میں آنے کا باعث بنے مگر خود ہیں کہ جماعت کے رکن نہیں بنتے۔ مولانا سے خاصی طویل ملاقات رہی مگر میری ڈائری میں مولانا عبدالحمید صدیقی کی معیت کے علاوہ صرف اس قدر اندراج ہے۔
میں نے مولانا سے عرض کیا کہ جماعت کے روزنامہ ’’قاصد‘‘ کا انداز تحریر جماعت کے وقار کے منافی ہے، اس بات کو میں نے ذرا تفصیل کے ساتھ پیش کیا، ان کے چہرے پر ملال کے آثار نمایاں ہوئے اور جچے تلے الفاظ میں فرمانے لگے ’’میں اس بات کو محسوس کرتا ہوں، مگر کیا کیا جائے،‘‘ میں نے کچھ ایسا محسوس کیا کہ وہ قاصد کے کارپردازان سے غیرمطمئن اور ان کی بے احتیاطی سے نالاں ہیں، میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ ان میں آمریت نام کو نہیں۔ پھر الیکشن کے بارے میں جماعت کے موقف کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا ’’جدید جمہوری خیال و نظام میں ہمارا موقف ایک انوکھا تجربہ ہے اور آئندہ کے واقعات ہی بتاسکتے ہیں کہ یہ کس حد تک کامیاب ہوتا ہے‘‘۔
آج چند کارکنوں سے بھی بات چیت کرنے کا موقع ملا بالخصوص مولانا عبدالغفار حسن صاحب اور نعیم صدیقی صاحب سے۔ نعیم صدیقی صاحب کے گھر پر بھی ان سے ایک گھنٹے ملاقات رہی۔ کرید سے معلوم ہوا کہ ان تمام کارکنوں کا مطالعہ بڑا وسیع ہے، اکثر کا مطالعہ مغربی علوم پر بھی حیران کن ہے۔
اس ملاقات میں رائو محمد خورشید علی خاں ایم ایل اے کا ذکر بھی آگیا۔ انہیں میں نے ۱۹۴۱ء میں مودودیؒ صاحب کی تحریروں سے پہلی مرتبہ متعارف کرایا تھا۔ پھر یہ کیمبل پور جیل میں مولانا امین احسن اصلاحی کے ساتھ قید رہے۔ حضرت اصلاحی صبح کے وت درس قرآن دیا کرتے تھے۔ رائو صاحب نے مجھے بتایا تھا کہ وہ اس درس قرآن کے طفیل پہلی مرتبہ قرآن کو صحیح صحیح سمجھنے لگے تھے۔ اسی ہم زندانی نے انھیں جماعت اسلامی کے قریب کردیا تھا۔ ذکر آنے پر مولانا مودودی فرمانے لگے کہ رائو صاحب کو ایک بار مجھ سے تو ملوائیں چنانچہ اس ملاقات کے بعد جب میں ملتان میں خورشید صاحب سے ملا تو مودودی صاحب کا پیغام ان تک پہنچایا۔ مجھ سے رازدارانہ انداز میں کہنے لگے کہ ابھی میں اپنے آپ کو اس کا اہل نہیں پاتا کہ ان سے ملوں۔ مجھ میں خیال و عمل کی خامیاں ہیں، میں ابھی معیار پر پورا نہیں اترتا۔ میں اپنی اصلاح کی کوشش کررہا ہوں۔
اس ملاقات میں تفہیم القرآن کے بارے میں بھی مفصل گفتگو ہوئی۔ بیس ماہ کی قید کے بعد مولانا اس ملاقات سے صرف تین ماہ پیشتر ۲۸ مئی کو رہا کیے گئے تھے، ملتان جیل میں اُنھوں نے تفہیم القرآن کی پہلی جلد مکمل کرلی تھی اور اب اس کی طباعت کی تیاریاں ہورہی تھیں۔

مزید تین ملاقاتیں

گیارہ سال بعد مولانا کی خدمت میں دو مرتبہ ۱۹۶۱ء میں (۹ ؍اگست اور ۲۵ دسمبر) کو حاضری دی۔ اس کی تفصیل ڈائری میں نہیں لکھی پھر مزید گیارہ سال بعد آخری بار ۱۹۷۲ء میں ایک تفصیلی ملاقات ہوئی، اس بار بھی بتیس سال پیشتر پہلی ملاقات کی طرح میرے رفیق کار پروفیسر چودھری محمد صادق میرے ساتھ تھے۔ ملاقات مولانا کے کمرہ مطالعہ بھی ہوئی۔
فرمانے لگے کہ کیڈٹ کالج حسن ابدال کے کسی طالب علم نے لکھا ہے کہ یہاں غیراسلامی نظریات کا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے (یاد پڑتا ہے کہ جماعت اسلامی سے متعلق کسی پرچے میں ایک نوٹ بھی نکل چکا تھا) ہمارے لیے یہ انکشاف تھا۔
صورت احوال یہ تھی کہ بھٹو گردی میں اس کے پرستار اسلام کے خلاف بے باک ہوگئے تھے، عام طور پر کالجوں کے پروفیسر بھی زبان درازیاں کرجاتے تھے۔ کیڈٹ کالج حسن ابال کے ایک پروفیسر (جن کا انتقال ہوچکا ہے) نے کلاس روم میں سوشل ازم کے حق میں کچھ باتیں کہیں اور بس ہم نے بات صاف کردی اور یہ بھی بتادیا کہ ہمارے کالج کے اساتذہ میں ایک بھی ایسا نہیں جس نے سوشل ازم کا باقاعدہ مطالعہ کیا ہو اور اس پر اعتقاد کلی رکھتا ہو۔
اس کے بعد ملکی حالات کا ذکر ہونے لگا، فرمایا کہ اسلام دشن پارٹیوں سے تو ہم نمٹ لیں گے، لیکن اندیشہ اس بات کا ہے کہ راتوں رات کوئی ایسا فوجی انقلاب نہ آجائے جو اسلام دشمن عناصر کی امنگوں کا آئینہ دار ہو۔ پھر اُنھوں نے فوجی افسروں کے رجحانات کے متعلق دریافت فرمایا۔ ہم نے اپنے علم کی حد تک بتایا کہ فوج کی طرف سے کسی اشتراکی انقلاب کا کوئی امکان نہیں۔

حصہ