افروز عنایت
میں اس خاتون کا یہ دوسرا روپ دیکھ رہی تھی جو ایک شفیق ماں کا روپ تھا، جس کی آنکھوں میں (سوتیلے) بیٹے کی محبت کے لشکارے نظر آرہے تھے جو اس کی ممتا کی ترجمانی کررہے تھے۔ وہ اپنی صحت کی فکر کیے بغیر تندہی سے بیٹے کی شادی کی تیاریوں میں مصروف تھی کہ کہیں کوئی کمی نہ رہ جائے، اور اس بچے کو یہ محسوس نہ ہو کہ زندگی کے اس حسین موڑ پر میرے سگے (سگے والدین) موجود نہیں…۔
٭…٭
ماں: بیٹا شاہدہ! نہ جانے زندگی کب میرا ساتھ چھوڑ جائے، میرے بعد تن تنہا اس دنیا کا کیسے مقابلہ کرو گی! بھائی بہن سب اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہیں، میری مانو تو اکرم صاحب کے رشتے کے لیے مان جائو… بیوی کا انتقال ہوچکا ہے، چار بچے ہیں، تمہاری اور اُن کی عمر میں پندرہ سولہ سال کا فرق ہے۔ اچھا کماتے ہیں…
شاہدہ: اماں! اس عمر میں؟ میرا مطلب ہے کہ چالیس بہاریں تو گزار چکی ہوں (زور سے قہقہہ لگاتے ہوئے)، باقی بھی گزر جائیں گی۔ اور… اس عمر میں کیا اچھا لگے گا کہ دلہن بنوں…! پھر…دوسرے کے بچوں کو پالوں! نہیں، رہنے دیں بھائیوں کے در پر ہی مجھے…۔
ماں: نہیں بیٹا ایسا مت کہو۔ کب تک پڑی رہو گی! صبح ملازمت کے لیے نکلتی ہوں، شام کو مسافروں کی طرح لوٹتی ہوں… یہ بھی کوئی زندگی ہے! عورت کا کوئی گھر ہونا چاہیے جو اس کا اپنا ہو۔
شاہد: اماں! میری طبیعت ایسی نہیں کہ دوسروں کے بچوں کو پیار دوں۔ دنیا کی سختیوں نے میرے اندر بھی سختی کو پروان چڑھا دیا ہے۔ اگر، میرا مطلب ہے کہ… ۔
اماں: (شاہدہ کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر) بیٹا سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اکرم صاحب بڑے سنجیدہ اور سمجھ دار انسان ہیں، میں اُن سے مل چکی ہوں اور… ویسے بھی بیٹا، نہ جانے اب میں کتنے دن جیوں… زندگی میں تمہاری خوشی دیکھنا چاہتی ہوں۔ ویسے بھی تمہارے بھائی بال بچوں والے ہیں، وہ تو اپنی ہی زندگیوں میں مگن ہیں۔ میری بات مان لو بیٹا…۔
٭…٭
اکرم صاحب خوشحال اور آسودہ انسان تھے، بیوی کے انتقال کے بعد وہ بہت عرصے تک تو دوسری شادی کو ٹالتے رہے، لیکن بہن بھائیوں نے سمجھایا کہ بچے ابھی چھوٹے ہیں، انہیں گھر میں نوکروں کے حوالے کرنا درست نہیں۔ لہٰذا انہوں نے شادی کے لیے ہامی بھرلی… شاہدہ اکرم صاحب کے گھر میں داخل ہوئی تو وہ سوچ رہی تھی کہ ان بچوں کی صحیح طرح دیکھ بھال کر بھی پائے گی یا نہیں۔ اماں نے اسے سمجھایا کہ بچے ابھی چھوٹے ہیں، انہیں پیار محبت سے ہینڈل کرو گی تو جلدی تم سے مانوس ہوجائیں گے… ہاں اگر سختی سے کام لو گی تو مشکل ہوجائے گی۔ اس رشتے سے تمہیں تحفظ و عزت حاصل ہوگی۔ اللہ نے تمہیں ان بچوں کی رہنمائی اور نگہبانی کے لیے چنا ہے، اس میں کوتاہی نہ برتنا، اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت تو ہر ایک خوش دلی سے کرتا ہے، مزا تو تب ہے جب تم ان بن ماں کے بچوں کو پیار دو، ان کی تربیت کرو۔
٭…٭
شاہدہ نے سوچا وہ تمام کشتیاں جلا کر آئی ہے، لہٰذا ماں کی بات پر عمل کرنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ اس نے اپنی طبیعت میں نرمی پیدا کی اور بچوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہوگئی۔
ابھی شادی کو چند ہی سال ہوئے تھے کہ اچانک اکرم صاحب کا انتقال ہوگیا۔ شاہدہ کے لیے یہ بہت بڑا سانحہ تھا۔ اس نے بڑی مشکل سے اس شادی اور بچوں سے سمجھوتا کیا تھا، اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ روئے یا بچوں کے آنسو پونچھے۔ بچوں کی تمام ذمہ داری اس کے اوپر آگئی جو اس کی کوکھ سے نہ تھے۔ اس نے سوچا دوبارہ ماں کے گھر چلی جائے اور ملازمت شروع کردے، بقیہ زندگی آرام سے گزر جائے گی۔ لیکن ان بچوں کو جو اس کے نہ تھے، باپ کے بعد بالکل بے بارو مددگار کس کے سہارے پر چھوڑ کر جائے؟ تمام رات وہ کروٹیں بدلتے گزار دیتی، صبح جب بچے اماں کہہ کر اسے پکارتے تو وہ پگھل جاتی۔ دس سالہ عمر اس کے گلے لگ کر کہتا ’’اماں آپ روئیں نہیں، ہم ہیں ناں‘‘۔ 14 سالہ اسلم اسے دلاسہ بھی دیتا اور ڈرتے ڈرتے پوچھتا ’’اماں آپ ہمیں چھوڑ کر تو نہیں جائیں گی؟‘‘ سامنے بیٹھی عالیہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتی کہ ہم باپ کے ساتھ ساتھ ایک مرتبہ پھر ماں کو بھی کھو دیں گے؟ تو اس کا دل کٹ جاتا، وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پارہی تھی۔
٭…٭
شاہدہ: اماں یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ چاروں بچے پڑھ رہے ہیں، ان کے اخراجات کہاں سے پورے ہوں گے؟ اکرم کا چھوڑا ہوا پیسہ اتنا نہیں کہ…
اماں: شاہدہ تم پہلے بھی تو ملازمت کرتی تھیں، اب بھی ان بچوں کو چھوڑ کر ملازمت ہی کرنے پر مجبور ہوجائو گی۔ یہ بن ماں اور بن باپ کے بچے تمہارے بغیر دربدر ہوجائیں گے۔ رزق دینے والا اللہ ہے، تم چھوٹا موٹا کاروبار بھی کرسکتی ہو، اکرم کے پیسے کو کسی بزنس میں لگا سکتی ہو۔ اپنے لیے تو ہر کوئی جی لیتا ہے، مزا تو تب ہے جب دوسروں کے لیے انسان جیے۔ بیٹا! ہمارا رب بھی اسی میں راضی ہے۔ پھر یہی بچے تمہارے بڑھاپے کا سہارا بنیں گے۔ دوسروں کے لیے جیو گی تو تمہیں زندگی کا ایک نیا لطف ملے گا۔
٭…٭
شاہدہ نے ایک نئی امید اور حوصلے سے زندگی کو شروع کیا۔ گرچہ راستہ کٹھن تھا لیکن منزل پر پہنچنا ناممکن نہ تھا۔ اللہ نے اسے نئے جذبوں اور نئے حوصلوں سے منور کردیا۔ آج یہ چاروں بچے اُس کا مان تھے۔ جتنی محبت اُس نے اِن بچوں پر نچھاور کی اور جتنی محنت ان بچوں کو سنوارنے کے لیے کی، آج اس سے کہیں زیادہ اُسے اس کا حق مل گیا تھا۔ اسی لیے اس کی آنکھوں میں بچوں کے لیے محبت کے لشکارے بھی تھے اور دل کو سکون بھی۔
٭…٭
بے شک جو دوسروں کے راستے سے کانٹے ہٹاتا ہے، رب اُس کی مشکلات اور پریشانیاں اُس سے دور کرتا ہے۔