یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم

993

قدسیہ ملک
پروجیکٹر اسکرین پر وقفہ نماز و ظہرانہ کے ساتھ ساتھ مائیک پر بھی وقفے کا اعلان ہوچکا تھا۔ نظم و ضبط کے ذمہ دار کارکنان حرکت میں آچکے تھے۔ نظم وضبط کےساتھ بہترین ترتیب سے بیٹھے حاضرینِ محفل میں تھوڑی تھوڑی ہلچل شروع ہوچکی تھی۔ ہم نے بھی سوچا کہ کھانے سے پہلے نماز پڑھ لی جائے تاکہ پُرسکون ہوکر ظہرانے کا لطف اٹھایا جائے۔ بھاگم بھاگ وضو خانے کی جانب دوڑ لگادی۔ اتنا سارا فاصلہ طے کرنے کے بعد جب وضو خانے پہنچے تو پتا چلا کہ جوتے تو وہیں نشست گاہ میں بیگ کے ساتھ لگی تھیلی ہی میں رہ گئے۔ ابھی ہم اسی شش وپنج میں مبتلا کھڑے اپنے حافظے کو کوس رہےتھے کہ ایک شفیق خالہ جان نے ہمیں کھڑا دیکھ کر اپنی پہنی ہوئی چپلیں ہمیں مہیا کردیں اور کہا ”بیٹا یہ پہن کر وضو خانے چلی جاؤ، میں یہیں ہوں“۔ سوچا ارے واہ یہ تو واقعی وضو خانے کے لیے بہترین چپلیں مل گئیں۔ وضو خانے پہنچے تو لمبی لمبی قطاریں لگی تھیں۔ چھوٹے بچے کے ساتھ تھوڑی پریشانی تو ہوتی ہی ہے۔ ابھی وہیں کھڑے ہوئے تھے کہ ایک خالہ جان نے اپنی باری آنے پر ہمیں اپنی باری دے کر کہا ”بیٹا بچے کی پروا مت کرنا۔ میں اسے دیکھ رہی ہوں۔ ویسے بھی یہ میرے پوتے جیسا ہی لگتا ہے“۔ ہم اسی خوشی و سرشاری کی کیفیت میں جلد از جلد وضو کرکے وضو خانے سے باہر نکلے۔ چپل والی خالہ جان کو ڈھونڈا، انہیں ان کی چپلیں واپس کیں تو کہنے لگیں ”ارے بیٹا وہیں میز کے نیچے رکھ دو، کوئی بھی وضو خانے جائے تو پہن جائے گا“۔ میز کے نیچے چپلیں رکھیں۔ نمازِ ظہر پڑھی۔ کھانے کے لیے جیسے ہی مطبخ کا رخ کرنے لگے پاس بیٹھی خالہ جان نے اپنا ناشتے دان ہمارے سامنے کھول دیا اور کہا ”بیٹا ابھی شاید کھانا آنے میں دیر ہے۔ آپ بسم اللہ کیجیے“۔ ہم نے انہیں شکریے کے ساتھ منع کیا اور دیگر پرانے روابط سے ملنے کے لیے اسٹیج کی جانب قدم بڑھا دیئے۔ جس سے ملتے، کسی نہ کسی کھانے کی پیشکش کردیتا جو ہم بڑی خوبصورتی سے ٹالتے رہے، کیونکہ پیٹ بھی اپنا ہی تھا۔ بالآخر ایک بہن سے اسٹیج کی سیڑھیوں پر بیٹھے باتیں کرہی رہے تھے کہ فرح خالہ جان نے دسترخوان پر آنے کی دعوت دی۔ وہاں سے مامی کے کہنے پر دوسری مامی کو ڈھونڈ کر، جو خاصی دیر سے انتظار کررہی تھیں، ان کے بنائے ہوئے ڈھیر سارے سینڈوچ لے کر آئے اور اسٹیج سے ملحق دسترخوان پر پہنچائے۔ سب ہی کچھ بہت خلوص اور محبت سے بنا ہوا تھا جس کے باعث اس کی لذت میں اضافہ ہوگیا تھا۔ ملاقاتوں کے ساتھ ساتھ خوب سیر ہوکر کھانا کھایا۔
اپنی نشست گاہ کی جانب بڑھے تھے کہ بہت سی خواتین نے کھانے کے بعد کا سامان پیش کردیا، جس میں مختلف اقسام کے حلوہ جات، مٹھائیاں، کیک اور موسمی پھل تھے، کسی نے سونف وغیرہ کا انتظام بھی کیا ہوا تھا۔ہر کوئی اتنی محبت اور خلوص سے مل رہا تھا جیسے ہمیں بہت اچھی طرح جانتا ہو۔
کوئی عام فرد ان اجتماعات میں آئے تو حیران رہ جائے کہ خدایا یہ کس بستی کے باشندے ہیں؟ نفسانفسی اور مادیت پسندی کے اس دور میں یہ لوگ کس خلوص، اپنائیت، محبت، نیک نیتی اور صاف دل سے ملتے ہیں۔ ان کے دل کتنے صاف ہیں! کیا ان پر اس دور کی منافقت،دورنگی، خودپسندی، مادیت پسندی اور نفسانفسی کی دھول تک بھی نہیں پڑی! سوائے چند لوگوں کے سبھی اس قافلے میں باہم محبت کرنے والے بےلوث لوگ ہیں، جن کا مقصد حقوق العباد کے ساتھ معاشرے کو دینِ اسلام کی روشنی سے منور کرنا، اور بدلے میں فلاحِ اُخروی حاصل کرنا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے اسلام نے ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور بھائی چارے کا پیغام دیا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرے اور نہ اسے (کسی ظالم کے) سپرد کرے، اور جو شخص اپنے کسی بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں لگا ہوگا اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت اور حاجت پوری کرے گا۔“ (صحیح البخاری6951)۔

ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

اس شعر کے مصداق اگر اس معاشرے کے سچے لوگوں کو جو آپس میں رحیم اور کفار پر سخت ہوں، دیکھنا ہو تو آپ کے لیے جماعت اسلامی سے بہتر کوئی انتخاب ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ صرف دینِ اسلام کی محبت ہے جس کے باعث اللہ اس دین کی محبت اور اپنی رحمت سے بندوں کے دلوں میں باہمی محبت پیدا فرماتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق فرمایا ہے کہ (ترجمہ)۔
۔”یہ تو اللہ ہی نے ان میں الفت ڈال دی ہے، وہ غالب حکمتوں والا ہے۔“۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
۔’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم جنت میں اُس وقت تک نہیں جاؤ گے جب تک ایمان نہ لے آؤ، اور تم (کامل) مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرنے لگو۔‘‘ (سنن ابن ماجہ:3692)۔
ہمیں یاد ہے جب دادون اور امی ایسے اجتماعات میں جاتے تھے۔ اگر اس دوران امی کا کوئی پروگرام ہوتا اور انہیں اسٹیج پر جانا ہوتا تو ہم چھ چھوٹے بہن بھائیوں کو امی کی تحریکی سہیلیاں ہاتھوں ہاتھ لے لیتی تھیں۔ اجتماعی کھانے کے وقت امی اور دادون کا ناشتے دان کھل کر کہیں کا کہیں چلا جاتا تھا۔ حیدرآبادی پکوان میں امی مہارت کے سارے انداز اس ناشتے دان میں سمو دیتی تھیں۔ اگر ظہرانے کے اختتام پر بگھارے بیگن، حیدرآبادی بریانی یا دم کے قیمہ بھرے پراٹھوں کا کوئی حصہ بچ جاتا تو وہ میری پیاری دادون کی ہدایت کے مطابق امی کے ہاتھوں کسی تحریکی ساتھی کے ناشتے دان کی زینت بنادیا جاتا۔ اس طرح اخلاص اور محبت کی چاشنی فرد سے ہوتی ہوئی گھروں تک پہنچ جاتی تھی۔ انہی محبتوں، اپنائیت اور خلوص کے جذبات میں ہم کب بڑے ہوئے پتا ہی نہ چلا۔ میں نے اپنے بچپن میں کسی تحریکی فرد کو کبھی کسی دوسرے فرد سے بغض و کینہ رکھ کر منہ پر تعریفوں کے پل باندھتے نہ دیکھا نہ کبھی سنا۔ ہم سب تحریک سے جڑے افراد کو اسی طرح پُرخلوص سمجھتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
۔’’آپس میں بغض نہ رکھو اور ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، پیٹھ پیچھے کسی کی برائی نہ کرو، بلکہ اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو، اور کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ بات چیت بند کرے۔‘‘(صحیح البخاری: 6076)۔
بہت مرتبہ تو یہاں تک دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ کارکنان بہنیں عید کی تیاری کے لیے اگر اپنے گھروں سے کچھ لینے نکلتی ہیں تو اپنی ساتھی بہنوں کے لیے بھی وہی چیز لے آتی ہیں۔ میں نے اپنی مختصر تحریکی زندگی میں ابھی تک بہت سی محبتیں بھی سمیٹیں جن میں ایسے واقعات بھی ہوئے بالکل اسی حدیث کے مصداق، جس کےراوی سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
۔”تم میں کوئی شخص اُس وقت تک کامل ایمان والا نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے (مسلمان)بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتاہے۔“
۔(صحیح البخاری، کتاب الایمان،باب: من الإيمان أن يحب لأخيه ما يحب لنفسه، الحدیث:13)۔
میں نے اپنی زندگی میں کسی تحریکی ساتھی کو اپنی کسی تحریکی بہن سے دنیاداری کے معاملے میں سبقت لے جاتے یا دنیاداری دکھاتے نہیں دیکھا۔ یہ ساتھی بہنیں دینی معاملات میں تو اپنی بہنوں کا خوب خوب مقابلہ کرتی ہیں، لیکن کبھی دنیاوی معاملات میں ایسا عمومی طور پر نہیں دیکھنے میں آیا۔
سیدنا سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
۔”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص نے آکر عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جسے میں کروں تو اللہ تعالیٰ بھی مجھ سے محبت کرے، اور لوگ بھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا سے بے رغبتی رکھو، اللہ تم کو محبوب رکھے گا، اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اُس سے بے نیاز ہو جاؤ، تو لوگ تم سے محبت کریں گے ۔(سنن ابن ماجہ :4102)۔
ہم نے ایک خالہ جان سے شکوہ کیا ”آپ اتنے لمبے عرصے بعد ملی ہیں!“ تو وہ ہم سے کہنے لگیں ”یہ بھی محبت بڑھانے کا ایک انداز ہوتا ہے“۔ پھر انہوں نے مجھے یہ حدیث سنائی جس کے راوی سیدنا حبیب بن مسلمہ الفہری رضی اللہ عنہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
’’ناغہ کرکے ملاقات کرو تاکہ محبت میں اضافہ ہو۔‘‘
۔(المعجم الاوسط للطبرانی: 296۔ صحیح الترغیب و الترھیب :2583)۔
حافظ نعیم الرحمٰن نے اسی لیے تو کہا ہے کہ جماعت اسلامی نہ صرف دعوت ِ الی اللہ کا فریضہ انجام دے رہی ہے بلکہ عوامی خدمات اور مسائل کے حل کے لیے بھی سرگرمِ عمل ہے، اور یہ کام بھی خلقِ خدا کی خدمت کے جذبے کے تحت انجام دیے جاتے ہیں۔ جماعت اسلامی پوری امت کے جسدِ واحد ہونے کے تصور پر یقین رکھتی ہے، دنیا بھر میں جہاں جہاں مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں اُن مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرتی اور اتحادِ امت اور ہم آہنگی کے لیے ہمیشہ سرگرم رہتی ہے۔
تنظیمِ جماعت میں ہر سطح پر یہ بات باور کروانے کی کوشش ہوتی ہے کہ دعوتی لگن اور داعیانہ اسلوب کے بغیر معاشرے میں نفوذ کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اسی لیے تمام کارکنان سیسہ پلائی دیوار کی طرح باہم مربوط ہوکرمحبت اور اخوت سے کام کرتے ہیں۔
پاکستان بننے کے بعد ہی تھوڑی سی، مٹھی بھر حوصلے والی خواتین کے ہاتھوں قائم ہونے والی، عوام الناس سے صرف رب العالمین کی خاطر الفت و محبت کے جذبے سے سرشار اس تنظیم نے دعوتِ دین کے پیغام کو ہر سطح اور ہر معاشرتی طبقے کی خواتین تک پھیلانے کے لیے حلقہ ہائے دروسِ قرآن قائم کرنے شروع کیے۔ برصغیر میں، پاکستان ہو یا ہندوستان، یہ خواتین کی پہلی تنظیم ہے۔ اسی تنظیمی ڈھانچے پر حلقہ خواتین جماعت اسلامی کی طرح دیگر مذہبی تنظیموں نے اپنے اپنے خواتین ونگ منظم و مضبوط کیے۔ تاہم بنیادی نظریے اور مضبوط دستور کے سبب حلقہ خواتین کے کام کی جس قدر مختلف جہتیں تھیں، دیگر تنظیموں کا اس سے کسی قسم کا کوئی موازنہ نہیں ہے۔
وکی پیڈیا کے مطابق جب دینِ اسلام کی تعلیمات وقت کے گزرنے کی وجہ سے بھلائی جا رہی ہوں اور ایسے وقت میں کوئی شخص یا جماعت، اسلامی تعلیمات کو دوبارہ نافذ کرنے کی جدوجہد کرے اُسے اسلامی احیائی تحریک کہتے ہیں۔ جو افراد ایسی تحریک کو چلاتے ہیں وہ مجدد کہلاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اموی خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ جو مجدد الف اول یعنی ایک ہزار سالہ پہلے مجدد کہلاتے ہیں، اور شہنشاہ اکبر کے دینِ الٰہی کو رد کرنے والے حضرت شیخ احمد سرہندی جو مجدد الف ثانی کہلاتے ہیں، یعنی ایک ہزار سالہ دوسرے مجدد۔ جبکہ احیائی تحریکوں میں عثمانی دور کی آخری تحریک جس کے ارکان میں اولین عثمانی سلاطین ارطغرل بیگ اور ان کے بیٹے عثمان خان غازی بھی شامل تھے۔ دورِ جدید میں جماعت اسلامی پاکستان اور اخوان المسلمون مصر شامل ہیں۔
لیکن امام مودودی کے زیر سایہ پروان چڑھنے والی اس تنظیم نے اپنے قیام سے لے کر اب تک کبھی کوئی زیر زمین کام نہیں کیے۔ حکومت کی جانب سے جیل کی صعوبتیں اور ہر طرح کی مخالفت، ظلم و ناانصافی بھی کارکنوں کا جذبہ محبت کم نہ کرسکیں۔
اللہ تعالیٰ میری جماعت کو ہمیشہ پھلتا پھولتا رکھے اور اپنے مقصد میں کامیاب کرے۔

حصہ