سروے: مریم شہزاد
بچہ جب اِس دنیا میں آتا ہے تو سب سے پہلے اپنے ماں باپ کو ہی پہچانتا ہے اور اُن کی نظر سے دنیا کو دیکھتا ہے۔ یہ ماں باپ ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچے کی بہترین تربیت کریں تاکہ وہ آگے چل کر معاشرے کا بہترین فرد بن سکے، اور اپنے والدین کی تربیت کی روشنی میں پھر اپنے بچوں کی پرورش کرسکے۔ اور یہ نسل در نسل تربیت کی منتقلی اسی طرح چلتی رہتی ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے کچھ ماں باپ کی آرا معلوم کیں کہ وہ کیا فرق محسوس کرتے ہیں آج کے والدین اور 20 سال پہلے کے والدین میں؟ کچھ نئی نسل سے ناراض نظر آئے تو کچھ پرانی نسل سے شکوہ کناں۔ مگر پرانے ماں باپ کی ناراضی یقینا دور ہوگی جب وہ آج کے والدین کے جوابات پڑھیں گے۔ اس ضمن میں ہماری کوشش ہے کہ ماؤں سے ماں کے متعلق اور باپوں سے باپ کے متعلق سوال کریں تاکہ وہ ایک دوسرے کو مورد الزام نہ ٹھیرا سکیں۔ امید ہے کہ دل چسپ جوابات سے یقینا قارئین بھی محظوظ ہوں گے۔
…٭…
سلیم احمد جو 20 سال پہلے کے باپ ہیں، کہتے ہیں کہ پہلے کے باپ اپنے بچوں کو چھوٹے بڑے کی تمیز سکھاتے تھے، سمجھاتے تھے، مگر آج کے باپ کے پاس ٹائم ہی نہیں، وہ بس بچوں کی ضد پوری کردیتا ہے اس بات سے بے خبر کہ بچوٖں کے لیے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ۔ ہمارا تو یہ اصول تھا ’’کھلاؤ سونے کا نوالہ، دیکھو شیر کی نگاہ سے‘‘، مگر آج کا باپ موبائل سے نظر اٹھائے گا تو کچھ دیکھے گا۔
…٭…
مہ جبین آفتاب کا خیال ہے کہ پہلے کی ماؤں کا محورِ زندگی بچے ہوتے تھے اور ان کی تربیت ہماری اوّلین ترجیح تھی، مگر آج کی ماؤں کے پاس ٹائم ہی نہیں ۔
…٭…
انوار صاحب کا کہنا ہے کہ پہلے باپ کا فوکس اس کے بچے ہوتے تھے، وہ ان کے لیے جیتے تھے، ان کے لیے پیسے جوڑ جوڑ کر رکھتے تھے۔ اور جو بچوں کے لیے جیتا ہے وہ ترقی بھی کرتا ہے۔ مگر آج کا باپ اپنے آپ کو پہلے ترجیح دیتا ہے، اپنی زندگی بھی جیتا ہے، اس کا ٹارگٹ اس کے بچے نہیں ہیں۔
…٭…
فاطمہ داؤد کہتی ہیں: ماں بچے کی پہلی درس گاہ ہے، 20 سال پہلے کی ماں سب کو ساتھ لے کر چلتی تھی، سب ایک ساتھ مل کر بیٹھتے، اپنے اپنے احوال سناتے، اخلاقیات سکھاتے۔ مجھ کو یاد ہے ہم رات کو کھانے کے بعد کسی دن قرآن کا ایک رکوع تلاوت کرتے اور پھر اس کا ترجمہ اور تفسیر، کسی دن اچھی باتیں ایک دوسرے سے شیئر کرتے۔ آج کی ماں بہت سوشل ہے، بچے کو چلنا آیا اور اسکول بھیج دیا، اور اپنے سوشل سرکل میں مگن ہوگئی۔ آج کا دور اسمارٹ فون کا ہے جس نے ایک گھر میں رہنے والوں کو ایک دوسرے سے دور کردیا ہے۔
…٭…
عائشہ نوید اور عمر احمد کی رائے میں ماں باپ تو ماں باپ ہیں چاہے 20 سال پہلے کے ہوں یا اِس زمانے کے، کوئی فرق نہیں۔ ان کو بھی زمانے کے ساتھ ساتھ چلنا پڑتا ہے۔ کبھی پرانے ماں باپ کو آج کے ماں باپ سمجھ نہیں آتے، کبھی آج کے بچوں کو وہ ماں باپ پرانے زمانے کے لگتے ہیں جو زمانے کے ساتھ نہیں چلتے۔
…٭…
ماہم فیصل آج کی ماں ہیں، اور ابھی ان کے بچے بہت چھوٹے ہیں، ان کے خیال میں آج کی ماں اپنے بچوں کے لیے اسلامک اور انٹی لیکچول اسکول ڈھونڈتی ہے، وہ اپنے بچوں کو دین اور دنیا دونوں کی سمجھ دینا چاہتی ہے اور خود بھی کسی قابل بننا چاہتی ہے تاکہ اپنی اولاد کو کسی قابل بنا سکے۔ پہلے ماں بچیوں کو سات پردوں میں چھپا کر رکھتی تھی، آج کی ماں باہر کی دنیا سے متعارف کراتی ہے۔
…٭…
سعد احمد آج کے باپ ہیں، کہتے ہیں کہ آج کے باپوں نے اپنی عزت کھودی ہے۔ پہلے بچوں اور باپ میں فاصلہ ہوتا تھا تو بچے بھی سدھر کر رہتے تھے، اب باپ اور بچوں میں دوستی ہوتی ہے تو عزت بھی کم ہے اور بچوں کو کسی کا خوف نہیں رہتا۔ اگر خوف ہو تو بچے غلط کام کرنے سے پہلے ایک بار سوچیں گے ضرور۔
…٭…
مائدہ عمر کے خیال میں آج کی ماں کو ٹیکنالوجی اور اپنے لیے وقت چاہیے، پہلے کی ماں کے پاس اپنے لیے وقت نہیں تھا، اس کی زندگی کا محور اس کے بچے تھے۔ اب باہر کے کھانوں کی وجہ سے اسٹیمنا کم ہوگیا ہے، جبھی حکمت کے بجائے آج کی مائیں فوری ری ایکشن اور مار پیٹ سے ڈیل کرتی ہیں۔
…٭…
سندس کی رائے میں آج کی ماں کا بچوں کی تربیت پر فوکس کم اور سوشل لائف پر فوکس زیادہ ہے۔
…٭…
عمیر آفتاب کہتے ہیں کہ پہلے کے باپ اپنی محبت اور انسیت کا اظہار نہیں کرتے تھے، بچوں کی تربیت صرف ماں کی ذمہ داری سمجھتے تھے، لیکن اب باپ کا کردار ماں سے زیادہ ہے۔ پہلے باپ کا رعب تھا جس کی وجہ سے بچوں میں تہذیب تھی۔ ہمارے دادا کا بہت رعب تھا۔ پھر باپ کا رعب کچھ کم ہوا، اور اب ہم اپنے بچوںکو بالکل ہی بگاڑ رہے ہیں۔ تہذیب سے دوری جیسے: بڑوں کے آگے پاؤں پھیلا کر نہیں بیٹھو یا لیٹو۔ مگر ہم نے ایزی کردیا ہے۔ ہماری محبت ہمارے بچوں کے لیے نقصان دہ ہورہی ہے۔
…٭…
انس کے نزدیک پہلے کے باپ دینی حساب سے بہت اچھے تھے کہ بچوں کی شادی کرتے وقت مذہبی رجحان، فیملی بیک گراؤنڈ دیکھتے تھے، اب پیسہ ہی سب کچھ ہے۔ پہلے کا باپ سمجھاتا تھا کہ ایک گاڑی لیں گے اور تینوں بھائی مل کر استعمال کریں گے، محبت بڑھے گی، مل کر جوائنٹ فیملی میں رہیں گے تو برکت ہوگی۔ پہلے جوڑ کر رکھتے تھے، اب باپ ڈرپوک ہوگئے ہیں۔ پہلے بچہ گر جائے، چوٹ لگ جائے تو ٹیٹنس کے انجیکشن کے لیے نہیں بھاگتے تھے۔ اب بچہ پیدا ہونے سے پہلے ہی اس کے اسکول اور ویکسی نیشن کی فکر شروع ہوجاتی ہے۔
…٭…
حفصہ آج کی ماں کو سپورٹ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ آج کی ماں کی سمجھ میں آگیا ہے کہ بہتر پرورش کے لیے خود بھی بہتر بننا ضروری ہے۔ اپنی ذات پر کام کرنا ایک صحت مند معاشرے کی علامت ہے، خودغرضی نہیں۔
…٭…
عصمت سمیع کے نزدیک 20 سال پہلے کی ماں واقعی ماں تھی۔ اُس دور کے بچے بھی عزت کرنے والے تھے اور ماں بھی پیار کرنے والی۔ آج کے دور میں ماں کی تربیت میں کمی ہے، کچھ زمانے نے ان کو خراب کردیا ہے۔ پہلے کی ماں اور بچے دونوں معصوم ہوتے تھے۔
…٭…
درج بالا آرا کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ماں ہو یا باپ، وہ اپنے بچوں کو وقت کے حساب سے لے کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر پرانی نسل ہمیشہ ہی نئی نسل سے ناراض نظر آتی ہے۔ لیکن ایک بات حیرت انگیز ہے کہ آج کے باپ اس بات سے باخبر ہیں کہ ان کے دوست بن جانے سے باپ اور بچوں کے درمیان احترام اور ڈر کا رشتہ ختم ہوگیا ہے جو آگے چل کر بچوں کے لیے اور خود ان کے لیے بھی نقصان کا باعث بنے گا۔