انشال راؤ
موجودہ حالات پر غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ امریکا نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے ایک شکل یہ اپنائی ہے کہ جہاں جہاں امریکی آشیرباد سے حکومتیں قائم ہیں ان کی سرپرستی جاری رہے گی اور جن خطوں سے امریکی مفادات کے حصول میں رکاوٹ محسوس ہوگی تو انہیں آگ و خون کی ہولی میں تبدیل کردیا جائے گا، مڈل ایسٹ ممالک میں لگی آگ اسی بات کی غمازی ہے اور جو جب امریکی مفادات کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کرے گا اسے راستے سے ہٹا دیا جائے گا‘ جس طرح ایرانی جنرل قاسم سلیمانی و ابو مہدی المندس کو ڈرون حملے میں اڑا دیا گیا جس کے بعد سے بظاہر ایران امریکا کے مابین شدت آگئی ہے اور ماہرین اسے پورے خطے میں جنگ کا پیش خیمہ سے تعبیر کررہے ہیں۔ مزید اگر روس یا چین میں سے کسی بھی طاقت نے امریکی مفادات کے آڑے آنے کی کوشش کی تو یہ جنگ عالمی جنگ میں تبدیل ہوجائے گی۔
مشرق وسطیٰ میں سب سے پہلے عراق پر امریکا نے براہ راست چڑھائی کی تو اس وقت صدر صدام حسین نے کہا تھا کہ ’’چراغ سب کے بجھیں گے‘ ہوا کسی کی نہیں‘‘ اور چشم فلک نے دیکھا کہ عراق میں لگی آگ شام، لبنان، یمن و دیگر عرب ممالک سے ہوتے ہوئے شمالی افریقہ تک پہنچ کر لیبیا کو بھی لپیٹ میں لے گئی اور ایران نے مڈل ایسٹ کو جنگ کی آگ میں جھونکنے میں اہم کردار ادا کیا۔ خواہ یمن ہو، عراق و لبنان یا پھر شام یا بحرین ہر جگہ ایرانی پراکسیز نے ہی مشرق وسطیٰ میں خونچکاں صورت حال پیدا کی۔
ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر ایران کی آہ و بکا کو کیا سمجھا جائے جب کہ یہی وہ قاسم سلیمانی تھے جو گزشتہ ایک دہائی سے امریکا کے ساتھ مل کر مختلف کارروائی کرتے آرہے تھے۔
2011 میں معروف امریکی اسٹیٹس مین ہینری کسنجر نے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’مڈل ایسٹ میں جنگ کے نقارے بج رہے ہیں‘ جنہیں یہ سنائی نہیں دے رہے وہ بہرے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’امریکا نے بہت سے مسلمانوں کو خرید رکھا ہے جو ان کی توقعات سے اچھا کام کررہے ہیں۔‘‘ اس انٹرویو کے تحت دیکھا جائے تو اچانک سے اٹھنے والی یہ اسپرنگ، پراکسیز و میڈیا کی پروپیگنڈہ کیمپین سب زرخرید ہی معلوم ہوتی ہیں، ہینری کسنجر نے اس عالمی جنگ کا نقطہ آغاز ’’ایران‘‘ کو ہی قرار دیا تھا اور اب شاید وہ وقت آپہنچا ہے جس کی پیشن گوئی چودہ سو سال پہلے حضور ؐ نے کی تھی۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ ’’تمہاری پشت پہ ایک طاقت کھڑی ہوجائے گی جسے تم رومیوں کے ساتھ مل کر شکست دوگے جس کے بعد ایک شخص کھڑا ہوکر کہے گا کہ یہ صلیب کی فتح ہے جسے ایک مسلمان قتل کردے گا تو اہل صلیب وہاں موجود تمام مسلمانوں کو شہید کردیں گے اور یوں یہ مسلمانوں اور رومیوں میں جنگ میں تبدیل ہو جائے گی جس کے بعد رومی 80 جھنڈے لے کر حملہ آور ہوں گے اور ہر جھنڈے تلے 12000 رومی ہوںگے۔‘‘
لازمی نہیں کہ وہ پشت پہ تیار ہونے والی طاقت ایران ہی ہو، ہوسکتا ہے وہ روس ہو اور عین ممکن ہے کہ روس اس جنگ میں کود جائے جس کے مفادات اس خطے سے جڑے ہوئے ہیں، مفادات کے ٹکراو سے ہی جنگوں کی آگ بھڑکتی ہے، انیسویں صدی میں برطانوی PM لارڈ پامرسٹن نے کہا تھا جو مشہور زمانہ قول ہی نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے انہوں نے کہا تھا کہ ”England has no permanent friend, She has permanent interests” کے مصداق امریکا کی بھی یہی پالیسی ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ و دیگر امریکی عہدیدار بارہا یہ بات دہراتے آرہے ہیں کہ امریکی مفادات کے حصول میں انہیں جو کرنا پڑے گا وہ کریں گے۔
جب تک امریکی مفادات تھے وہ ایران کے ساتھ مل کر داعش و دیگر گروہوں کے خلاف کارروائی کرتے رہے لیکن جب ایران امریکی مفادات کی راہ میں رکاوٹ بننے لگا تو امریکا نے متعدد بار خبردار کیا۔ آبنائے ہرمز سے گزرنے والے تیل بردار جہازوں پر ایرانی پراکسیز کے حملے اور مشرق وسطیٰ میں ایرانی اثر و رسوخ امریکا کو ایک آنکھ برداشت نہ ہوا۔ دسمبر 2019 کے اوائل میں مائیک پامپیو نے ریگن نیشنل ڈیفنس فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی عراق میں امریکا مخالف کارروائیوں کی سرپرستی کرنے سے باز رہے۔ لیکن جب ایران باز نہ آیا تو امریکا نے 12000 کلومیٹر دور سے کارروائی کر کے نہ صرف ایران کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا بلکہ دنیا میں ٹیکنالوجی کی دھاک بھی بٹھادی۔ صرف اتنا ہی نہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حالیہ ٹویٹ میں عندیہ دے دیا ہے کہ ایران امریکا جنگ کی صورت میں امریکا نئے ہتھیار دنیا میں متعارف کروائے گا۔
یاد رہے 1945 میں جب امریکا نے جاپانی شہروں پہ ایٹم بم گرائے تو دنیا کو معلوم ہی نہیں تھا کہ امریکا نے کیا کیا ہے، بالکل اسی طرح ڈیزی کٹر بم ہوں یا ڈرون یا گائیڈڈ میزائل یا پھر B-52 جیسے جدید جنگی طیارے امریکا نے متعارف کروائے تو دنیا کے سامنے ایک نئے جنگی ہتھیار سامنے آئے اور اب ٹرمپ کا ایران کے نام دھمکی آمیز ٹویٹ یہی اشارہ ہے کہ یقینا امریکا نے کوئی مہلک ترین ہتھیار بنا رکھے ہیں‘ جو شاید ایٹم بم سے بھی زیادہ مہلک ثابت ہوں۔ امریکی تنازعات کا سطحی جائزہ لیا جائے تو ایک بات واضح ہے کہ جہاں امریکا کو محسوس ہوا کہ اس کے مفادات کو نقصان ہونے کا خدشہ ہے تو وہیں امریکی رویے میں سختی نظر آئی جو شدت اختیار کرتے نظر آئے ہیں۔ سوویت یونین کو صرف تسلیم کرنے میں امریکا نے 15 سال لگائے، ویت نام جنگ کے اختتام 1973 کے باوجود امریکا کے سرد رویے میں نرمی 1995 میں ہوئی، کیوبا کا معاملہ بھی دنیا کے سامنے ہے۔ اسی طرح ایران سے امریکی تنازع کوئی نیا نہیں ہے۔ لیکن ماضی کے ایران کا ذکر یہاں ضروری نہیں، خمینی کے ایرانی انقلاب کے بعد پہلی بار امریکا اور ایران میں اُس وقت ٹھنی جب ایران نے امریکی سفارتی عملے کو 444 دنوں تک یرغمال بنائے رکھا جواباً امریکا نے ایران پر پابندیاں عائد کرتے ہوئے 12 ارب ڈالر روک لیا‘ جسے الجزائر کی ثالثی کے بعد حل کیا گیا۔ اس کے بعد سے امریکا ایران تنازع جاری ہے جس کے جواب میں امریکا نے ایران کے خلاف معاشی، سفارتی اور سیاسی کارروائیاں ضرور کیں لیکن کبھی فوجی کارروائی نہیں کی۔ یہ امریکی تاریخ رہی ہے کہ وقت آنے پر امریکا اپنے حریف کو تباہ کیے بغیر نہیں رہتا۔ 1996 میں امریکا نے Iran Libya Act 96 کے تحت ایران اور لیبیا پر سخت پابندیاں عائد کیں اور کچھ عرصے بعد مشروط طور پر لیبیا پر پابندی نرمی کردی گئی لیکن اس کے باوجود امریکا نے لیبیا کو تباہ کیا۔ بالکل اسی طرح اب امریکی رویے سے ظاہر ہے کہ ایران پر امریکا جنگ مسلط کرکے ہی رہے گا۔ اور R.N Haass نے بالکل صحیح کہا ہے کہ ’’یہ جنگ پورے خطے میں لڑی جائے گی جس میں نقصان صرف امت مسلمہ کا ہی ہونا ہے۔‘‘