طارق جاوید سیال
عمر سے میری کافی پرانی شناسائی ہے، میں نے اسے ہمیشہ ایک نفیس، خدا ترس، ہمدرد اور محبت کرنے والا دوست پایا ہے، اس کے سینے میں موجود دل نے ہمیشہ لوگوں کے دکھ درد اور تکالیف کا شدت سے احساس کیا ہے، بڑا رحمدل نوجوان ہے۔ عمر ایک کاروباری شخصیت ہے، اللہ کا دیا اس کے پاس سب کچھ ہے، مالدار ہونے کی باوجود اس کے اندر غرور نام کی کوئی بھی چیز نہیں، خدا کی راہ، غریب اور ناداروں میں اپنی دولت کا کچھ حصہ ضرور خرچ کرتا ہے دولت جمع کرنے ہوس اس میں رتی برابر بھی نہیں ہے۔ مجھے بے حد خوشی محسوس ہوتی ہے کہ وہ میرا دوست ہے، ویسے بھی ایک اچھا دوست بہترین سرمایہ اور نعمت خداوندی ہوتا ہے۔ میں نے کچھ عرصہ پہلے اس کے اندر کافی تبدیلی محسوس کی، وہ آہستہ آہستہ دوستوں کو نظر انداز کررہا تھا اور کاروبار کو مزید وسعت دینے کی سعی میں مگن تھا۔
بظاہر تو یہ ایک فطری عمل تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری دوچار ملاقاتوں میں مجھے یہ شدت سے احساس ہوا کہ عمر کی ترجیحات اور سوچ میں کافی حد تک تبدیلی آئی ہے، ایک بار سفر کے دوران اس نے باتوں باتوں میں نئی سوچ اور رجحان کے بارے میں بات کی، اور کچھ لوگوں کا ذکر اور ان کی بڑھتی دولت کے متعلق بڑی حسرت سے کیا جو دولت اکھٹی کرنے، بنک بیلنس بنانے اور دنیاوی آسائشوں کو حاصل کی بھاگ دوڑ میں پیش پیش تھے،عمر شاید ان سے بے حد متاثر تھا، اس کی آنکھوں میں پھیلی نئی روشنی اور گفتگو میں صاف نظر آرہا تھا۔ اسی دوران اس نے مجھ سے اپنے نئے افکار کا ذکر بھی کیا، مجھے اس کے اس نئے طرز عمل نے کافی حیران اور پریشان کر دیا کہ یہ سماجی برائی کب اس کے اندر سرائیت کر گئی۔
میں جانتا ہوں کہ انسان فطری طور پر ہمیشہ دوسروں کے طرززندگی سے متاثر ہوتا آیا ہے،یہی وجہ ہے کہ سب کچھ حاصل کر لینے کے بعد بھی وہ خوش نہیں رہ پاتا، یہ امر انتہائی بد نصیبی کا باعث ہے مادہ پرستی ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح کھائے جا رہی ہے اور حیرت انگیز طور لوگ اس جانب راغب ہورہے ہیں۔ میرے کئی جاننے والے خاندان اسی دیمک زدہ برائی کا شکار ہوکر اخلاق و کردار کی تنزلی کا باعث بن گئے۔میرے لئے سب سے زیادہ تکلیف دہ امر پڑھے لکھے طبقہ کا مادہ پرستی کی طرف رجحان ہے۔مال ودولت کا حصول اور مادہ پرستی دو الگ چیزیں ہیں، اپنی جائز خواہشات کی تکمیل کے لیے مال دولت انسان کی ضرورت ہے لیکن دولت کا غلط استعمال اور ہوس انسان کو انسانیت سے گرا دیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے کائنات اور اس کی تمام چیزیں انسانوں کی سہولت اور ضروریات کے لیے بنائی ہیں، مگر عمر کے دوست اور ان کے جیسے لاکھوں کروڑوں انسان اپنے مالک و خالق کو بھول کر وہ تمام کام کرتے ہیں جو ایک طرف اللہ تعالیٰ کے احکامات کے خلاف ہیں اور دوسرا خود اس کے اور انسانیت کے متقاضی ہیں۔مادہ پرستی وہ مہلک مرض ہے جو انسانی اخلاق، کردار اور سماجی اقدار کو شدید متاثر کرتا ہے، جس سے ظلم اور ناانصافی بڑھتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو متنبہ کیا ہے اور مادہ پرستی کو اسبابِ فریب قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین دل اور دماغ عطا کیا ہے، دل محبت کرنے کے لئے اور دماغ لوگوں کو آسانیاں فراہم کرنے کیلئے دیا ہے، یہی وجہ ہے انسان نے اپنے دماغ کا استعمال کرکے ایسی ایسی ایجادات عمل میں لائیں جن کا تصور بھی نہ تھا، انسان آج ہر آنے والے دن کے ساتھ ترقی کیے جا رہا ہے۔
زمانہ قدیم سے آج تک جتنی بھی ایجادات ہوئیں ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسان نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت”دماغ” کا استعمال کیا اور اس مقام تک پہنچا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ انسان جو کل تک جہالت کے اندھیروں میں گم تھا آج اسی دماغ کی روشنی پا لینے بعد چاند تک جا پہنچا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے دور حاضر کا انسان اپنے دماغ کا استعمال صرف مادی مفادات کو سامنے رکھ کر کرتا ہے، اور مادی فوائد اور دنیاوی آسائشوں کے حصول میں اپنا دماغ کھپا رہا ہے، مادہ پرست انسان صرف مادی ترقی، مال و زر اور اسباب کی کثرت کو زندگی کی معراج تصور کرتا ہے بھلے وہ خدائی ضابطوں،انسانی رشتوں اور اخلاقی قدروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، یہی وجہ ہے کہ انسان زندگی میں توازن، اعتدال اور ہم آہنگی قائم رکھنا دشوار ہوگیا ہے۔
اگر انسان یہ سمجھتا ہے کہ مال و زر کی کثرت ہی اسے معاشرے میں باوقار بنائے گی اور وہ اس سے راحت و اطمینان کو خرید سکتا ہے تو اس خیال اور وہم کو اپنے دل ودماغ سے نکال دے، کیونکہ انسان مادیت میں غرق ہوکر نہیں بلکہ اپنے اخلاق و اقدار کو سنوار کر اور حقوق العباد ادا کرکے ہی امن وسکون اور راحت و آرام حاصل کر سکتا ہے۔
پاکستان کا نظام تعلیم اور بدلتی معاشرتی اقدار پر توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے۔کیونکہ آج کے تعلیمی نظام نے اخلاقیات سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے جس کی وجہ سے ہمارے دلوں میں احساس، مروت، انسانیت، اخلاق، تحمل مزاجی، اپنائیت اور برداشت نام کی ہر چیز ختم ہوگئی ہے۔تعلیمی اداروں نے مفادات اور نمبرز کی جنگ مسلط کر دی ہے اور اس جنگ نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، آئے روز بدلتی معاشرتی قدروں نے عمر جیسے نفیس انسان کو بھی مادہ پرستی مائل کر دیا ہے،ہمیں مل کر سوچنا ہوگا، ملکی سطح پر اس مہلک مرض کے بڑھتے رجحان کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا،ہمیں اسوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہوکر گفتگو اور طرززندگی میں نرمی برتنی ہوگی، معاشرتی حقوق کی پامالی، ظلم وجبر، دھوکہ دہی، بے ایمانی اور فریب سے چھٹکارہ حاصل کرکے ہی مادہ پرستی سے نجات ممکن ہے۔