راحیلہ سلطان
پاکستانی ثقافت میں چائے کو مرکزی اہمیت حاصل ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ چائے تمام مشروبات کی مرشد ہے تو غلط نہ ہوگا۔ پاکستان میں سب سے زیادہ پیا جانے والا مشروب چائے ہی ہے۔یہ بھی اہم بات ہے کہ خود پاکستان میں چائے کی پیداوار نہیں مگر چائے کی چاہ کا یہ عالم کہ دنیا میں چائے درآمد کرنے میں تیسرا درجہ جاصل ہے اور استعمال کرنے میں ساتواں درجہ رکھتا ہے۔
ملک کے ہر علاقے میں چائے کا رنگ خوشبو اور ذائقہ جداگانہ ہے گویا ہر علاقے کی ثقافت نے چائے میں رس گھول دیا ہے۔ کراچی میں کالی ،مسالہ چائے اور ہر دلعزیز پٹھان ہوٹل کی گاڑھی دودھ پتی۔ پنجاب میں گاڑھی دودھ کی چائے جس میں اخلاقا چائے کی پتی چھڑک دی جاتی ہے۔ شمالی، مغربی علاقے خیبر پختو نخواہ اور بلوچستان میں قہوہ۔ کشمیر میں کشمیری گلابی یا ن چائے ، چترال بلتستان اور بلوچستان میں نمکین مکھنی یا تیتی طرز کی چائے جو وسطی ایشیا کی پیداوار ہے۔
ہمارے ہاں چائے خانے سماجی رابطوں۔سیاسی مباحثوں ملکی و غیر ملکی معاملات پر گرما گرم اظہار خیال۔۔ نوجوانوں کی دلداریوں اور محبت کے رازونیاز کا مرکزہیں۔ سیاست میں چائے کے ایک کپ پر بڑے بڑے اندرونی و بیرونی معاملات حل ہوجاتے ہیں اور اسی کپ پر نئے رشتے بھی استوار کرلیے جاتے ہیں۔ ایک زمانے میں لاہور کا۔۔پاک ٹی ہاؤس۔۔ادیبوں اور دانشوروں کا مرکز سمجھا جاتا تھا جہاں ادب اور سیاست پر جلتی سگریٹوں اور گرم چائے کے کپ سے نکلنے والے دھوئیں کی طرح گرم جوشی سے بحث کی جاتی تھی۔ریڈیو پر دھیمی آواز میں چلنے والے فرمائشی نغمے اور سیر حاصل مباحثے اس ٹی ہاؤس کو زندگی بخشتے تھے۔ آج کراچی میں اسی ٹی ہاؤس کے نقش قدم پر بے شمار جدید چائے خانے بن چکے ہیں مگر یہاں ادیبوں کی محفل نہیں سجتی بلکہ حلقہ یاراں خوش گپیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں کلام کی آمد یا مکرر کے نعروں کی جگہ مارکیٹ میں آنے والے نئے موبائیل اور گاڑیوں کی بات ہوتی ہے۔
کراچی کی ثقافت میں چائے بنیادی حیثیت رکھتی ہے سورج ڈھلتے ہی نوجوان ہوں یا پکی عمر کے مرد کچھ چائے کے طالب اورکچھ حق دوستی نبھانے کی خاطر چائے خانوں کو آباد کردیتے ہیں۔گلی محلوں کے چھوٹے چھوٹے پٹھان ہوٹلوں سے لیکر فائیو اسٹار ہوٹلوں ( Five star hotel ) تک چائے کی پیالی گفتگو اور سیاسی ومعاشی بحث و مباحثے کا مرکز سمجھی جاتی ہے۔
70 کی دھائی میں جب ذوالفقار علی بھٹو کی آزاد خیالی نے ملک میں قدم جمائے اس وقت کراچی کی راتیں بھی شراب خانوں اور رقص گاہوں میں جاگتی تھیں۔ نپیئر روڈ میں اشرافیہ اور سیاستدانوں کی محفلیں لگتی تھیں لیکن اس وقت بھی کراچی کا متوسط و غریب طبقہ نے چائے خانوں کو آباد رکھا تھا۔ 80 کی دھائی میں جنرل ضیاالحق نے ان محفلوں کو تو ویران کردیا مگر چائے خانوں کی محفلیں آباد رہیں۔
کہتے ہیں کہ کراچی کی راتیں جاگتی ہیں یہاں کے لوگ اپنا ایک منفرد مزاج رکھتے ہیں۔ مزاج میں چائے کی طرح گرم، اخلاق میں چائے کی طرح خوش ذائقہ اور خلوص و محبت میں چائے کی طرح خوشبو دار ہوتے ہیں۔ اب شہر کراچی میں جدید چائے خانوں کا فیشن بھی چل پڑا ہے جہاں گرم گرم بھاپ اڑاتی منفرد مٹکا چائے، تندوری چائے، کوئلہ چائے اور ساتھ ہی لائیو میوزک چائے کو چار چاند لگاتے ہیں۔ کراچی کے چائے خانے نصف شب اور بعض فجر تک کھلے رہتے ہیں۔ جہاں دن بھر کے تھکے ہارے لوگ کچھ سمے کے لیے چائے کے دھوئیں کے ساتھ اپنی فکر و پریشانی کو اڑا کر ذہنی سکون حاصل کرتے ہیں۔