۔’’اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں ہم ایک ہیں‘‘۔
فضائوں میں چاروں طرف گونجتی ملّی نغموں کی آوازوں نے سماں باندھ دیا۔ یہ رات عام رات نہ تھی، لوگ جوق در جوق سڑک کی جانب جارہے تھے۔ اس رات لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر اسے چاند رات بنادیا تھا۔ خوشی کے ان لمحات میں گھر کی چار دیواری کے درمیان قید رہنے کے بجائے میں بھی ان حسین مناظر کو اپنی آنکھوں میں قید کرنے سڑک کی جانب چل پڑا، جہاں عارضی طور پر لگائے گئے اسٹالوں پر خواتین اور بچے خریداری کرتے دکھائی دیے۔ قدم قدم پر لگائے گئے ان اسٹالوں پر بجتے گانے لوگوں کا خون گرما رہے تھے۔ موسم انتہائی سرد ہونے کے باوجود ہر طرف جشن کا سا سماں تھا۔ میں ابھی اس پُررونق رات میں ہوتی گہماگمی کے مناظر سے اپنی آنکھیں خیرہ کر ہی رہا تھا کہ رات بارہ بجتے ہی آتش بازی کا شاندار مظاہرہ شروع ہوگیا، جس نے آسمان پر مختلف قسم کے خوبصورت رنگ بکھیر دیے، فضائیں ’’پاکستان زندہ باد‘‘ اور ’’ہیپی نیو ائیر‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھیں۔ ایک طرف یہ صورتِ حال تھی جبکہ دوسری جانب قریبی عمارتوں پر لگے برقی قمقمے دل کش نظارہ پیش کررہے تھے۔ کوئی ڈانس کرتا تو کوئی پرچم لہراتا، کچھ لوگ ورائٹی پروگرام کی تیاریوں میں مشغول تھے، توکہیں نوجوان موٹر سائیکلوں کے سائیلنسر نکال کر کبھی اِدھر تو کبھی اُدھر چکر لگاتے دکھائی دے رہے تھے۔ جب اتنا کچھ ہورہا ہو ایسی صورت میں رائیڈرز بھلا کیسے پیچھے رہ سکتے تھے! ان کا وکھرا ہی انداز تھا، یعنی وہ اپنی موٹر سائیکلوں کو ہوائی جہاز بناکر اڑانے کی ناکام کوششوں میں مصروف تھے، انہیں دیکھ کر لگتا تھا جیسے وہ 2019ء کو الوداع کہنے کے بجائے اپنی زندگی کو الوداع کہہ رہے ہوں۔ میں ابھی آسمان پر بکھرتے رنگوں سے لطف اندوز ہو ہی رہا تھا کہ ہوائی فائرنگ شروع ہو گئی گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا شدید فائرنگ کی وجہ سے لوگ انتہائی خوف زدہ ہو گئے تھے جبکہ کئی نوجوان زخمی بھی ہوئے فائرنگ کرنے والے کون تھے اور کہاں سے آئے تھے کوئی نہیں جانتا تھا جہاں چند منٹ قبل جشن کا سماں تھا اب وہاں خوف کے ڈھیرے تھے۔ اس رات ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں ہیپی نیو ائیر مناتا دکھائی دیا۔ جذبے اور شور شرابے سے بھرپور یہ شب کب تمام ہوئی، خبر نہیں۔ منچلے نوجوان اپنے اپنے گھروں کو کب لوٹے، خدا جانے! ہاں میرے لیے وہاں اگر کچھ متاثر کن تھا تو وہ نوجوانوں کا خطرناک انداز میں موٹر سائیکل چلانا تھا۔ ویسے تو یہ کوئی نئی بات نہیں، ایسی خبریں آئے دن اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ لیکن چونکہ میں نے یہ کمالات براہِ راست پہلی مرتبہ دیکھے، اس لیے مجھے یہ نئی سی بات لگی، اور حقیقت بھی یہی ہے کہ کراچی شہر کی شاید ہی کوئی ایسی سڑک ہو جہاں ایک پہیّے پر موٹر سائیکل چلاتا کوئی نوجوان دکھائی نہ دے۔ خاص طور پر شام کے اوقات میں جب سڑکوں پر بے ہنگم ٹریفک ہوتا ہے اور گاڑیاں پھنس پھنس کر چل رہی ہوتی ہیں اُس وقت بھی آپ کو اپنی دُھن کے پکے چند ایسے نوجوان ضرور مل جائیں گے جو تمام خطروں کو جانتے بوجھتے پیٹ کے بل لیٹ کر موٹر سائیکل چلانا بہت بڑی بہادری سمجھتے ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ٹریفک کے رش میں انتہائی تیز رفتاری سے ریس کے انداز میں وہ بھی لیٹ کر موٹر سائیکل چلانا معمولی بات نہیں… یہ انتہائی بہادری کے ساتھ ساتھ دل گردے کا کام بھی ہے۔ سوچیے جس منظر کو دیکھ کر ہی لوگ اپنی انگلیاں دانتوں میں دبالیں، وہ کس قدر مشکل ہوگا! نوجوانوں کا اس طرح کے کرتب دکھاتے ہوئے، بہادری اور بے وقوفی میں بہت کم فرق رہ جاتا ہے… لیکن، کراچی کے نوجوان تو خطروں کے ایسے کھلاڑی بن چکے ہیں کہ وہ کسی صورت بھی ماننے کو تیار نہیں۔ وہ اس خطرناک کام میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ اگر انہیں شہر کی مرکزی شاہراہوں پر اپنی ’’فنکاریاں‘‘ دکھانے کا موقع نہ مل سکے تو اپنے ’’شوق‘‘ کو جِلا بخشنے کے لیے وہ ہر اتوار کلفٹن کے ساحل، دو دریا، ڈیول پوائنٹ یا ڈیفنس پہنچ جاتے ہیں، جو تیز رفتار موٹر سائیکل ریس دیکھنے اور اسٹنٹس کرنے کے لیے مشہور ہیں، جہاں ہر اتوار کی دوپہر سے ہی سیکڑوں نوجوانوں کا رش لگنا شروع ہوجاتا ہے، جو مغرب تک جاری رہتا ہے۔ سنا ہے ساحل کے انتہائی قریب ہونے والی اس ریس کے بعض نظارے ایسے ہوتے ہیں جنہیں محسوس کرتے ہی دیکھنے والے کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ موٹر سائیکل پر مختلف کرتب دکھانے والوں کی یہ ریس عموماً شام چار بجے کے آس پاس شروع ہوتی ہے۔ اس ریس میں حصہ لینے والوں کی تعداد سیکڑوں میں ہوتی ہے، کبھی چار سو تو کبھی پانچ سو، اور کبھی اس سے بھی زیادہ۔ چونکہ اس ریس کا باقاعدہ کوئی منتظم نہیں ہوتا، لہٰذا نہ تو ’’موت سے کھیلنے والوں‘‘ اور نہ ہی انہیں دیکھنے والوں کی اصل تعداد کے بارے میں درست اعداد و شمار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ ریس عام موٹر سائیکل ریس سے بالکل مختلف ہوتی ہے، یہاں مقابلہ تیز رفتاری سے جیتنے کا نہیں بلکہ موٹر سائیکل کو تیزرفتاری سے چلاتے ہوئے مختلف کرتب دکھانے کا ہوتا ہے جن میں ایک پہیّے پر موٹرسائیکل چلانا، لیٹ کر چلانا، دونوں ہاتھ چھوڑ کر چلانا، کھڑے ہوکر چلانا، ایک ہاتھ سے چلانا، الٹے بیٹھ کر چلانا، لمبی لمبی چھلانگیں لگانا، موٹر سائیکل کو ہوا میں اچھالنا، گول گول دائروں میں گھمانا، بائیک کو کبھی اگلے پہیّے پر توکبھی پچھلے پہیّے پر اٹھانا، گھمانا، چلانا، دوڑانا اور تیزی سے دوڑاتے دوڑاتے اس قدر تیز بریک مارنا کہ ٹائروں سے دھواں نکلنے لگے، یا سائیڈ اسٹینڈ کو سڑک کے ساتھ لگا کر چنگاریاں اڑانا ایسے خطرناک اسٹنٹس ہیں جو دیکھنے والوں کو نہ صرف حیرت زدہ کردیتے ہیں بلکہ پہلی مرتبہ اس قسم کے کرتب دیکھنے والے کی تو آنکھیں ہی پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ خطروں کے ان کھلاڑیوں کو نہ تو موت کا ڈر ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے حوصلے ڈگمگاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ون ویلنگ یا چلتی ہوئی موٹر سائیکل پر کرتب دکھانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہ موت کا کھیل ہے جو اب تک سیکڑوں نوجوانوں کی جان لے چکا ہے۔
موٹر سائیکل پر کرتب دکھانے کا شوق خطرناک تو ہے ہی، بہت زیادہ مہنگا بھی ہے۔ کم از کم اس صورت میں تو یہ لازمی طور پر مہنگا پڑتا ہے جب کھلاڑی اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے اس شوق کی تسکین کرے۔ بہت زیادہ خرچ سے بچنے کے لیے یہ نوجوان عام موٹر سائیکلوں کو تھوڑی بہت تبدیلی کے بعد ریس کے قابل بنا لیتے ہیں، لیکن اس پر بھی کوئی کم خرچ نہیں آتا۔ اس طرح کی موٹر سائیکلیں تیار کرنے والے موٹر مکینکس کا کہنا ہے کہ ریس اور کرتب دکھانے کے لیے جو خصوصی موٹر سائیکلیں آتی ہیں وہ انتہائی مہنگی ہوتی ہیں، کراچی کے متوسط یا غریب خاندانوں کے لڑکے انہیں ’افورڈ‘ ہی نہیں کرسکتے۔ لہٰذا عام موٹر سائیکلوں میں کچھ ضروری تبدیلیاں یا ترامیم کرکے انہیں کسی حد تک ریس کے قابل بنالیا جاتا ہے۔ اس کام پر خرچ کا انحصار کھلاڑی کے شوق اور ڈیمانڈ پر ہے۔ زیادہ ڈیمانڈ، زیادہ پیسہ… کم ڈیمانڈ،کم پیسہ… اب جو کھلاڑی جتنا مال خرچ کرسکے اُسے اتنے پاور کی موٹر سائیکل تیار کرکے دے دی جاتی ہے۔
غیر ممالک میں ایسے اسٹنٹس کرنے کے لیے خاصی ٹریننگ لینا پڑتی ہے۔ لیکن کراچی کے نوجوان خطروں سے بھرے اس کرتب کو بار بار دہراتے ہیں باوجود اس کے کہ اس کام کی انہوں نے کوئی ٹریننگ نہیں لی ہوتی۔ وہ محض اللہ کے سہارے پر ہی اپنے شوق کی نہ صرف تسکین کرتے ہیں بلکہ اس خطرناک کھیل کی آڑ میں ہزاروں، لاکھوں روپے کی شرطیں بھی لگایا کرتے ہیں۔
میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ کراچی کی سڑکوں پر نوجوانوں کا اس انداز میں موٹر سائیکل چلانا معمولی بات نہیں، اس میں مہارت حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ ٹریننگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ نوجوانوں کا انتہائی تیز رفتار چلتی موٹر سائیکل پر کرتب دکھانا خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ کراچی کی سڑکوں پر روزمرہ سفر کرنے والے زیادہ تر لوگ متوازن رفتار سے ہی موٹر سائیکل چلایا کرتے ہیں، ان لاکھوں افراد میں سے چند درجن نوجوانوں کا آپے سے باہر ہونا اس بات کی علامت ہے کہ ان میں پیدائشی طور پر وہ تمام صلاحیتیں موجود ہیں جن کو حاصل کرنے کے لیے انٹرنیشنل معیار کی اس کوچنگ کی ضرورت ہوتی ہے جس کے ذریعے انسان میں چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جاتا ہے۔کرکٹ کھیلنے والا فٹ بالر نہیں بن سکتا، اسی طرح اسکواش کی طرف راغب شخص کو ہاکی تھما کر یا کسی پہلوان سے دنگل کروانے کے لیے اکھاڑے میں اتار کر اچھے نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے، ایسی صورت میں وہ ناکام ہی رہے گا۔ خدا نے ہر انسان کو الگ الگ صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ سائنس پڑھ کر انجینئرنگ کے شعبے سے وابستہ افراد میڈیسن کے بارے میں کیا جانیں! یہ پیدائشی طور پر کی جانے والی وہ تقسیم ہے جس کے تحت ہر شخص اپنی صلاحیتوں کے مطابق ہی کامیابیاں حاصل کرسکتا ہے، کوچ کا کام صرف اتنا ہی ہے کہ وہ کسی شخص کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کردے۔ اس کو ہی عام لفظوں میں ’’کوچنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ سڑکوں اپنے تئیں رائیڈر بنے ان نوجوانوں کے اندر چھپے ہوئے ٹیلنٹ کو کیوں ضائع کیا جارہا ہے؟ کیوں انہیں ان حادثات کی جانب دھکیلا جارہا ہے جن کا شکار ہوکر یہ زندگی بھر کے لیے معذور ہوجاتے ہیں؟ دنیا بھر میں رائیڈنگ ایک فن ہے، بین الاقوامی طور پر موٹر سائیکل ریس ایک کھیل کا درجہ بھی رکھتی ہے، مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے رائیڈرز کے درمیان ہونے والے موٹر بائیک ریس مقابلوں کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ اگر ہمارے نوجوانوں کو حکومتی توجہ اور تعاون میسر آجائے تو درجنوں کامیاب رائیڈر تیار کیے جاسکتے ہیں، اور بین الاقوامی معیار کی ٹریننگ کے نتیجے میں موٹر سائیکل ریس سے وابستہ نوجوانوں کو نہ صرف اپاہج ہونے سے بچایا جاسکتا ہے بلکہ دوسرے کھیلوں کی طرح اِس میدان میں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑے جاسکتے ہیں۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی! بات ہورہی تھی نئے سال کی آمد پر منائے جانے والے جشن کی، اور موٹر سائیکل رائیڈرز تک آن پہنچی۔ خیر ابھی کے لیے اتنا ہی، یعنی ہمیں سالِ نو کی آمد کے سلسلے میں مختلف تقریبات کا انعقاد کرنے سے قبل اپنی زندگی کے گزرنے والے سال کا محاسبہ کرلینا چاہیے، اس کے بعد شاید پھر کبھی ہیپی نیو ائیر منانے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔