وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

1198

قدسیہ ملک
مرد کی طرح عورت بھی معاشرے کا ایک اہم ستون ہے۔ معاشرے کی بقاء کے لیے دونوں کا کردار بہت اہم ہے۔ کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لیے تعلیم لازمی حیثیت رکھتی ہے۔ اسلام نے عورت کو معاشرے میں عزت کا مقام دیا ہے، اور عورتوں کی دینی ودنیاوی تعلیم کے حصول پر زور دیتا ہے۔
اسلام میں عورتوں کی تعلیم کے بارے میں کبھی دو رائے نہیں ہوسکتیں۔ بے علم اور جاہل عورت معاشرے کی پسماندگی اور ابتری کا باعث بنتی ہے۔ جاہل اور اسلام سے ناواقف عورتوں کو نہ کفر وشرک کی کچھ تمیز ہوتی ہے، نہ دین و ایمان سے کچھ واقفیت۔ اللہ اور رسولؐ کے مرتبے و مقام سے ناواقف بعض اوقات شانِِ خداوندی میں بڑی گستاخی و بے ادبی سے گلے شکوے کرجاتی ہیں، شرعی احکامِ کی حکمت اور افادیت سے واقف نہ ہونے کی بنا پر اُلٹی سیدھی باتیں کرتی ہیں، اس کے برعکس ہر طرح کے فیشن، بے حجابی و عریانی اور فضول رسم و رواج کے پیچھے بھاگتی ہیں، اولاد و شوہر کے بارے میں طرح طرح کے منتر، جھاڑ پھونک اور کالے علم میں ملوث ہوتی رہتی ہیں، شوہروں کی کمائی اسی طرح کے غلط اور باطل کاموں میں ضائع کردیتی ہیں۔ شوہر سے ان کی بنتی ہے، نہ سسرالی رشتے داروں سے۔ انہیں اپنے بہن بھائیوں، رشتے داروں اور ہمسایوں کے حقوق کی ذرا خبر نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس لڑائی جھگڑا، گالی گلوچ، زبان درازی و لعن طعن کرکے سب سے بگاڑ کر خوش رہتی ہیں۔ ایسی ہی عورتوں کے بارے میں اکبر الٰہ آبادی کہتے ہیں:
یہاں کی عورتوں کو علم کی پروا نہیں بے شک
مگر یہ شوہروں سے اپنے بے پروا نہیں ہوتیں
اسلام سے ناآشنا عورتیں زیور، کپڑوں کے ناجائز مطالبوں سے ہر وقت شوہروں کا ناک میں دم کیے رکھتی ہیں اور بالآخر ان کو حرام کمائی میں ملوث کرکے چھوڑتی ہیں۔ وقت اور اپنی جوانی کی بھی ان کو قدر نہیں ہوتی۔ فضول باتوں میں، لعن طعن میں، غیبت اور گالم گلوچ میں سارا وقت برباد کردیتی ہیں۔ دینی تعلیم کی جتنی ضرورت آج مردوں کو ہے، اس سے کہیں زیادہ عورتوں کو ہے۔ عورت کا قلب اگر دینی تعلیمات سے منور اور روشن ہو، تو اس چراغ سے کئی چراغ روشن ہوسکتے ہیں۔ وہ دین دار بیوی ثابت ہوسکتی ہے، ہر دل عزیز بہو بن سکتی ہے اور نیک اور شفیق ساس ثابت ہوسکتی ہے، وہ اپنے بچوں کی بہترین معلم ہوسکتی ہے، وہ خاندانی نظام کو مربوط و مضبوط رکھ سکتی ہے، معاشی تنگی کو خوش حالی سے بدل کر معاشی نظام مضبوط کرسکتی ہے، وہ شوہر کے مرجھائے اور افسردہ چہرے پر گل افشانی کرسکتی ہے، میخانے کو مسجد اور بت خانے کو عبادت خانہ بناسکتی ہے، اولاد کو جذبۂ جہاد سے سرشار کرسکتی ہے۔ دینی تعلیم یافتہ عورت وہ سب کچھ بہت آسانی سے کرسکتی ہے جو اسلام چاہتا ہے۔ اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہوجائے تو منفی نتیجہ کیسا خوف ناک ہوگا، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ اور دینی تعلیم سے بے انتہا غفلت عورت کو شیطان بنادیتی ہے۔
ثریا بتول علوی ’’محدث‘‘ میگزین میں لکھتی ہیں: ’’اسلام کی رو سے خواتین کے لیے علیحدہ نصابِ تعلیم ہونا چاہیے۔ خواتین کے لیے ایسی تعلیم لازمی ہے جوبچوں کی پرورش، تربیت اور سیرت سازی میں معاون ثابت ہوسکے۔ لہٰذا اس کو وہ اُمور ضرور سیکھنے چاہئیں جو ساری عمر گھر میں انجام دینے ہیں، مثلاً:
(1) خانہ داری: میسر وسائل میں غذائیت سے بھرپور کھانا تیار کرنا۔
(2) گھر کی ضرورت کے مطابق سلائی کٹائی اور بے کار چیزوں کو کارآمد بنانا، پھٹے کپڑوں کو پیوند لگاکر دوبارہ قابلِ استعمال بنانا۔
(3) موسم کے مطابق ستر کی حدود کو ملحوظ رکھتے ہوئے لباس تیار کرنا۔ پھر لباس پہننے کا سلیقہ بھی ہو، تاکہ صفائی ستھرائی سے کم قیمت لباس کو بھی دیدہ زیب بنا سکے۔
(4) گھر کی صفائی ستھرائی اور آرائش میں سلیقے اور ترتیب کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ کم قیمت مگر سلیقے سے رکھا ہوا سامان بیش قیمت، مگر بے ترتیبی سے رکھے گئے سامان کے مقابلے میں زیادہ دیدہ زیب اور خوبصورت معلوم ہوتا ہے۔ جبکہ عورت کا بے سلیقہ اور پھوہڑ ہونا پورے گھر کو منتشر اور خراب کردیتا ہے۔
(5) گھر کا بجٹ تیارکرنا: اپنی چادر کے مطابق پاؤں پھیلانا تاکہ کسی سے ادھار مانگنے کی نوبت نہ آئے۔ ضروری اور اہم چیزوں کو ترجیح دینا… تعیش اور سجاوٹ کی اشیا کو نظرانداز کرنا ضروری ہے۔
(6) گھر کا اس طرح بندوبست کرنا کہ ہر ایک کے لیے گھر میں سکون و اطمینان میسر ہو، ہر ایک کی ضرورت و ترجیحات کو سامنے رکھ کر ان کو آرام مہیا کیا جائے۔ بیمار کی تیمارداری ہو، بچوں کو پڑھانے کا بندوبست ہو۔ افرادِ خانہ باہم پیار و محبت اور حُسنِ سلوک سے پیش آئیں، کہ قرآن پاک میں گھر کی اہم صفت اس کا سکون و اطمینان ہی بتایا گیا ہے۔ لہٰذا عزیزوں، رشتے داروں اور ہمسایوں سے خوشگوار تعلقات قائم رکھنے کا سلیقہ بھی عورت کو سکھایا جانا چاہیے۔
(7) ابتدائی طبی امداد یا فرسٹ ایڈ اور مریضوں کی تیمار داری وغیرہ
(8) بجلی کی گھریلو استعمال کی اشیاء کو ٹھیک کرنے کے لیے ابتدائی واقفیت بھی ضروری ہے۔
(9) عورتوں کو فوجی ٹریننگ بھی اتنی ضرور دی جانی چاہیے کہ وہ اپنا دفاع اور تحفظ کرسکیں۔ ضرورت کے وقت ان کو پریشانی نہ اُٹھانا پڑے۔ پھر جو خواتین اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہیں، ان کے لیے اسلام کی رو سے ہر طرح کی تدریس اور طب کے شعبے موجود ہیں، وہ علم و ادب کے میدان میں بہت آگے بڑھ سکتی ہیں۔ نرسنگ اور ہوم اکنامکس کے کورس حاصل کرسکتی ہیں۔ ایسے کام جو گھریلو حدود کے اندر انجام دیے جاسکتے ہوں، ان کا عورت کو علم ہونا چاہیے۔ ان نصابات میں عورت کی نفسیات، شخصیت اور فطری فرائض کو پیش نظر رکھنا بڑا ضروری ہے، مثلاً یہ کہ
(1) خواتین کا منصب اور ان کے حقوق و فرائض
(2) دائرۂ زوجیت اور فریضۂ مادریت کے بارے میں اسلامی حکمت ِعملی
(3) عہد ِنبوی سے لے کر دورِ حاضر تک خواتین کی دینی، علمی، ادبی، ملّی، رفاہی اور تعلیمی و تصنیفی سرگرمیاں
(4) ترقیِ نسواں اور مساواتِ مرد و زن کے نظریے کا تنقیدی جائزہ
(5) پردے کے موضوع پر عقلی تجربات اور مشاہدے کی روشنی میں دینی احکام کی حکمت اور مصلحت
(6) مذاہب ِعالم اور اسلامی علوم کا تقابلی مطالعہ اور اسلام کی فوقیت و برتری
غرض قرآن و سنت کا گہرا شعور دینا اور نبی پاکؐ کی سیرتِ طیبہ کو زندگی کا محور و مرکز بنادینا لازمی ہے۔ ایسے ہی خواتین کے مسائل اور موضوعات پر ان کو مہارت ہونی چاہیے۔
پھر جو خواتین اپنے دائرۂ کارکے اندر مناسب ملازمت کرنا چاہیں، لازمی ہے کہ وہ پردے اور حجاب کی شرط کو ملحوظ رکھیں۔ سادگی اور وقار سے اپنے بیرونِ خانہ فرائض انجام دیں۔ مگر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ عورت کا بہرحال دائرۂ کار اس کا گھر، اس کا شوہر، بچے اور دیگر افرادِ خانہ ہیں۔ گھر کے نقصانات کی قیمت پر بیرونِ خانہ ملازمت اسلام کے طے شدہ پروگرام کے خلاف ہے۔‘‘
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تبلیغی مشن میں ہفتے میں ایک دن صرف خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے مخصوص ہوتا تھا۔ اس دن خواتین آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوتیں اور آپؐ سے مختلف قسم کے سوالات اور روزمرہ مسائل پوچھتیں۔ نمازِِ عید کے بعد آپؐ ان سے الگ سے خطاب کرتے۔ اُمہات المومنین کو بھی آپؐ نے حکم دے رکھا تھا کہ وہ مسلم خواتین کو دینی مسائل سے آگاہ کیا کریں۔ پھر آپؐ نے خواتین کے لیے کتابت یعنی لکھنے کی بھی تاکید فرمائی۔ حضرت شفاء بنتِ عبداللہؓ لکھنا جانتی تھیں، آپؐ نے انہیں حکم دیا کہ تم اُمّ المومنین حضرت حفصہؓ کو بھی لکھنا سکھا دو۔ چنانچہ انہوں نے حضرت حفصہؓ کو بھی لکھنا سکھا دیا۔ آہستہ آہستہ خواتین میں لکھنے اور پڑھنے کا اہتمام اور ذوق و شوق بہت بڑھ گیا۔ عہد ِنبوی کے بعد خلفائے راشدین کے مبارک دور میں بھی خواتین کی تعلیم و تربیت کی طرف بھرپور توجہ دی گئی۔ حضرت عمرؓ بن خطاب نے اپنی مملکت کے تمام اطراف میں یہ فرمان جاری کردیا تھا: خواتین کو سورۃ النور ضرور سکھائو کہ اس میں خانگی زندگی اور معاشرتی زندگی کے متعلق بے شمار مسائل واحکام موجود ہیں۔‘‘
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ انسان ہونے میں مرد اور عورت دونوں مساوی ہیں، تمدن کی تعمیر اور تہذیب کی تاسیس و تشکیل اور انسانیت کی خدمت میں دونوں برابر کے شریک ہیں۔ ہر صالح تمدن کا فرض یہی ہے کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی اپنی فطری استعداد اور صلاحیت کے مطابق زیادہ سے زیادہ ترقی کرنے کا موقع دے۔ انھیں بھی مردوں کی طرح تمدنی و معاشی حقوق عطا کرے اور انھیں معاشرت میں عزت کا مقام دے۔‘‘
اس مقصد کے لیے معاشرے کے باصلاحیت افراد بلاتخصیص مرد و عورت کو اپنی صفوں میں شامل کرنے کے لیے مولانا مودودیؒ نے معاشرے کے پڑھے لکھے اور ذہین افراد کو اپنے گرد جمع کیا تھا، کیونکہ ان کی اپنی علمی سطح اتنی بلند تھی کہ وہ قوتِ استدلال سے ان کے ذہنوں کو مطمئن اور متاثر کرسکتے تھے۔ پھر انھوں نے قریب آنے والے افراد کی علمی و اخلاقی تربیت اور نشوونما کرتے ہوئے مستقبل کی قیادت تیار کی۔
خواتین میں ان کی اہلیہ محمودہ بیگم، خواتین کی تربیت کا وسیلہ بنیں، اور محترمہ حمیدہ بیگم، محترمہ نیر بانو، محترمہ اُمِ زبیر سمیت کئی ابتدائی خواتین نے یہ فیض حاصل کیا۔ اُس زمانے میں بہت کم خواتین ابتدائی تعلیم سے آگے بڑھ پاتی تھیں۔ ایسے میں حلقۂ خواتین کی تاسیسی رکن محترمہ حمیدہ بیگم عام خواتین سے کہیں زیادہ تعلیم یافتہ تھیں۔ انھوں نے 1934ء میں فاضل، پھر ایف اے اور 1939ء میں پنجاب یونی ورسٹی سے اعلیٰ پوزیشن کے ساتھ بی اے اور پھر بی ایڈ پاس کیا۔ 1944ء تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ نیربانو نے میٹرک کے بعد طبیہ کالج دہلی سے طب کا تین سالہ کورس کیا اور کچھ عرصہ درس و تدریس سے وابستہ رہیں۔ نیر بانو صاحبہ 1944ء میں رکن بنیں اور مولانا محترم سے خط کتابت کے ذریعے رہنمائی حاصل کرتی رہیں۔ مولانا انھیں ایک ہی کام کی ترغیب دلاتے رہے کہ پڑھیے، پڑھیے اور خوب پڑھیے۔ اُمِ زبیر محض پانچ جماعتیں پڑھی تھیں، مگر جماعت کی ذمہ داریوں اور سرگرمیوں نے انھیں اتنا نکھارا کہ انھوں نے کئی کتب تصنیف کیں۔

حصہ