اللہ سے بغاوت

622

سیدہ عنبرین عالم
شہانہ ملک صاحبہ وزارتِ خارجہ سے منسلک تھیں، اکثر بیرونی دوروں پر رہتی تھیں۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا جنید جو میٹرک کرچکا تھا۔ شہانہ ملک صاحبہ کی مصروفیت کی بنا پر وہ نانا، نانی کے ساتھ ہی قیام پذیر تھا۔ میٹرک کے بعد شہانہ نے جنید کو عربی زبان اور مختلف لہجے سیکھنے کے لیے ریاض سعودی عرب روانہ کردیا۔ جنید خاصا ذہین تھا، دو سال میں ہی عربی زبان پر مکمل دسترس حاصل کرلی، لکھ اور پڑھ بھی لیتا تھا۔ پھر وہ مختلف ممالک جاکر دوسری زبانوں کی تربیت حاصل کرتا رہا۔ 24 سال کی عمر تک وہ عربی، فارسی، ترکی، انگریزی اور اردو زبانوں میں باقاعدہ مقالات بھی لکھ لیتا تھا اور تمام زبانوں کا آپس میں ترجمہ بھی کرسکتا تھا، لہٰذا اسے پاکستانی وزارتِ خارجہ میں اعلیٰ گریڈ کی نوکری مل گئی۔ اب اُسے فیصلہ کرنا تھا کہ مستقل طور پر کس ملک کے سفارت خانے میں منتقل ہونا چاہیے۔ اس فیصلے سے پہلے اس نے اپنی والدہ سے ان ممالک کے بارے میں معلومات لینا ضروری سمجھا۔
شہانہ ملک کمپیوٹر پرکچھ دستاویزات بنا رہی تھیں، مگر جنید کے لیے سب کام چھوڑ چھاڑ کر بیٹھ گئیں۔ ’’بیٹا! ترکی آنے والے وقتوں میں دنیا کی سیاست میں اہم کردار ادا کرے گا۔ 1299ء میں ایک سلطان عثمان تھے، انہوں نے عثمانی خلافت قائم کی جو تین براعظموں کے بیشتر علاقوں پر مشتمل مسلم سلطنت تھی۔ حالات کافی بہتر جارہے تھے کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے سازشیں شروع کردیں، اور جیسا کہ آپ کے علم میں ہے مسلمانوں میں غدار کثیر تعداد میں میسر آجاتے ہیں، عربوں کو بھی ترک خلافت سے اضطراب تھا، وہ عربوں کو خلافت کا حق دار سمجھتے تھے، اور ترکی میں بھی حکومت کے روکنے کے باوجود یہودی کمپنیوں نے شراب، چائے، سگریٹ اور کلب وغیرہ کا کلچر متعارف کرانا شروع کیا۔ ترک خلافت مالی طور پر کمزور تھی اور یہودیوں کے قرضوں میں ڈوبی ہوئی تھی، اس لیے یہودیوںکے خلاف سخت اقدامات نہ کیے جاسکے، اور پھر جنگِ عظیم کے ہنگاموں میں ترک خلافتِ عثمانیہ ختم کردی گئی۔‘‘ وہ بولیں۔
’’اچھا پھر 1922ء میں کمال اتاترک کا سیکولر نظام قائم ہوا، یہی ہوا تھا ناں؟‘‘ جنید نے پوچھا۔
’’جی بیٹا! یہ بہت بھیانک وقت تھا، اسلامی خلافت 40 ممالک میں تقسیم ہوگئی۔ کمال اتاترک یہودیوں کا آدمی تھا، اُس نے عربی زبان پر، داڑھی پر، پردے پر… غرض ہر اُس چیز پر پابندی لگا دی جو ذرا بھی اسلام سے تعلق رکھتی ہو۔ جو شخص بھی اسلامی تشخص برقرار رکھنا چاہتا، اسے نشانِ عبرت بنادیا جاتا۔ 1923ء میں Lausanne agreement ہوا، کیا تم اس کے بارے میں کچھ جانتے ہو؟‘‘ شہانہ ملک نے پوچھا۔
جنید نے اثبات میں سر ہلایا ’’ہاں یہ برطانیہ اور فرانس کی غنڈہ گردی تھی، پسِ پردہ صہیونی قوتیں کام کررہی تھیں۔ خلافتِ عثمانیہ کے تمام اثاثے ضبط کرلیے گئے، 100 سال تک کے لیے عہد لیا گیا کہ کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جس سے اسلام کو تقویت پہنچے یا دوبارہ اسلامی خلافت قائم ہوسکے۔ 100 سال تک ترکی اپنی کوئی معدنیات یا تیل خود دریافت کرکے استعمال نہیں کرسکتا تھا، سو سال تک باسفورس کی بندرگاہ سے ٹیکس نہیں لے سکتا تھا۔ 2023ء میں یہ سب پابندیاں ختم ہوجائیں گی، اس لیے یہودی ترکی کو 2023ء سے پہلے تباہ کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ اس نے بتایا۔
’’شاباش…‘‘ شہانہ نے مسکرا کر کہا ’’اس وقت طیب اردوان کی قیادت میں ترکی ایک مضبوط ریاست ہے، مگر سازشیں کہیں زیادہ برق رفتار ہوچکی ہیں۔ اگر ترکی کے لیے کچھ کرسکتے ہو تو وہاں چلے جائو۔‘‘ انہوں نے فرمایا۔
جنید مسکرا دیا۔ ’’میں جہاں بھی جائوں گا، اسلام کی سربلندی کے لیے ہی کام کروں گا، سعودی عرب کا بتایئے۔‘‘ وہ بولا۔
’’کیوں نہیں بیٹا۔‘‘ شہانہ نے کہا۔ ’’سعودی عرب بھی ترکی سے متردد ہے اور نہیں چاہتا کہ خلافت ترکی کے ہاتھ میں جائے۔ اور وہ ترکی کی تباہی میں یہودیوں کا ہمنوا بن چکا ہے۔ سعودی عرب واحد ملک ہے کہ جو کسی بادشاہ کے نام سے جڑا ہوا ہے۔ اس سے پہلے اسے مملکتِ حجاز و نجد کہا جاتا تھا۔ سعود بن محمد نے عثمانی حکمرانوں کو برطانیہ کی مدد سے شکست دینے کے بعد یہاں اپنی حکومت قائم کی اور خود کو خادم حرمین شریفین کا لقب دیا، جب کہ اس سے پہلے مکہ و مدینہ اور حاجیوں کا انتظام شریفِ مکہ کے سپرد ہوتا تھا۔ حسین ابن علی آخری شریفِ مکہ تھے، اس کے بعد آلِ سعود نے آہستہ آہستہ پورے عرب پر قبضہ کرلیا، مختلف قبائل خصوصاً راشدی قبیلے کو زیر نگیں کیا۔ یہ سب یہودیوں کے پیسے اور ہتھیار کے سبب وقوع پذیر ہوا۔‘‘ انہوں نے بتایا۔
جنید گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ ’’اس کا مطلب ہے کہ آلِ سعود کو تو برطانوی ایجنڈے پر عمل پذیر ہونا چاہیے تھا، مگر آلِ سعود کی حکومت انتہائی سختی سے گزشتہ صدی میں اسلام پر عمل پیرا رہی، یہاں اسلامی سزائیں بھی نافذ ہوتی رہیں، یہ تو ابھی شاہ محمد بن سلمان کے دور میں اسلام سے اخراج ہوا ہے۔‘‘ اس نے پوچھا۔
شہانہ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ ’’اس اسلامی ماحول کی وجہ آلِ سعود نہیں بلکہ محمد بن عبدالوہاب ہیں۔ جس وقت آلِ سعود حکومت حاصل کرنے میں مصروف تھے اُن دنوں محترم عبدالوہاب صاحب تیزی سے سعودی عرب کے پست و بالا میں تبلیغ میں مصروف تھے۔ عبدالوہاب صاحب سے باقاعدہ معاہدہ ہوا کہ حکومت سعودیوں کے ہاتھ میں رہے گی اور مذہبی احکامات عبدالوہاب صاحب اور اُن کی نسل کے لوگ صادر کریں گے۔‘‘ انہوں نے بتایا۔
’’اچھا…!‘‘ جنید نے سمجھتے ہوئے سر ہلایا۔ ’’یہ وہی عبدالوہاب صاحب ہیں جنہوں نے جنت البقیع پر بلڈوزر چلوا دیا تھا۔ حضرت عثمان غنیؓ، حضرت عائشہؓ، بی بی فاطمہؓ کی قبروں پر بھی سجدے کی روایت پڑ گئی تھی، جس کے باعث ان کے گنبد مسمار کرکے مزارات کو زمین کے برابر کردیا گیا۔ نشے پر سر قلم کی سزا، پردے کا سختی سے نفاذ، خواتین کو باہر نہ نکلنے دینا، کار یا بائیک نہ چلانے دینا، اور ایسے کئی احکام انہوں نے دیے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’بالکل…!‘‘ شہانہ ملک نے اتفاق کیا ’’بیٹا! کس کے دل میں کیا ہے، نیت کیا ہے، یہ تو میرا اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔‘‘
’’ایران سے سعودی عرب کا آخر کیا تنازع ہے؟ یہ مذہبی معاملہ ہے یا سیاسی نااتفاقی؟‘‘ جنید نے پوچھا۔
شہانہ ملک نے ٹھنڈی آہ بھری۔ ’’بیٹا! ایران بھی یہودیوں کا مہرہ ہے اور اسلام کا غلط چہرہ ہے۔ جب طالبان نے افغانستان میں اسلامی حکومت قائم کردی تو یہ ایران ہی تھا جس نے شمالی اتحاد کے ذریعے امریکا کا ساتھ دیا۔ شام اور عراق میں خونریزی کا بازار ایران کی وجہ سے ہی گرم ہے۔ عزیر بلوچ، کلبھوشن یادیو وغیرہ بھی ایرانی پاسپورٹ پر پاکستان میں دہشت گردی کا بازار گرم کرتے رہے۔ دوسری طرف سعودی حکومت بھی یہود نواز ہے، یہ ڈونلڈ ٹرمپ کو تو جہاز بھر بھر کر سونا تحفتاً دے دیتے ہیں مگر فلسطین کے مظلوموں کو ایک کلو گندم بھی خیرات میں دینے کو تیار نہیں۔ دونوں ایک جیسے ہیں، ان کی آپس کی جنگ ایسے ہی ہے جیسے نوازشریف اور زرداری برسوں ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے رہے اور نقصان پہنچاتے رہے۔‘‘ انہوں نے تفصیل بتائی۔
’’شاہ کی حکومت بہتر تھی یا اسلامی انقلاب والا ایران زیادہ بہتر ہے؟‘‘ جنید نے سوال کیا۔ شہانہ ملک مسکرا دیں، جیسے بہت کچھ کہنا چاہتی ہوں، مگر مصلحتاً لب بند ہوں۔ ’’بیٹا! شاہ کے زمانے میں نائٹ کلب چلتے تھے، معلوم نہیں کیا بہتر ہے۔‘‘ وہ بولیں۔
جنید ہنس پڑا، وہ بھی ایسے موضوع پر ماں سے زیادہ بات نہیں کرسکتا تھا۔ بہرحال چونکہ ماں اور نانا،نانی نے اسلامی ماحول میں پرورش کی تھی، سو اس نے اسلامی انقلاب والے ایران جانے کا فیصلہ کیا۔ جنید کو ایران کے پاکستانی سفارت خانے میں تعینات ہوئے دو مہینے گزر چکے تھے، چونکہ وہ فارسی جانتا تھا اس لیے ایرانیوں سے رابطہ کرنے کا کام زیادہ تر اسی کے سپرد تھا، اس نے ایرانیوں کو خاصا صلح جُو اور گھلنے ملنے والا پایا۔ عام طور پر ایرانی ایمان دار اور محنتی ہوتے تھے، پاکستان کی طرح وسیع پیمانے پر کرپشن کے مسائل بھی نہیں تھے۔ اس کے ذہن میں کئی ایسی چیزیں آنے لگیں جن سے ایران میں اس کا واسطہ پڑا اور وہ کسی طور اسلام سے وابستہ نہیں تھیں۔ اس نے ایران سے واپسی کا فیصلہ کرلیا۔
اس کی اگلی منزل سعودی عرب تھا، اچھی کارکردگی کی وجہ سے اس کا تبادلہ اس کی منشا کے مطابق سعودی عرب کردیا گیا تھا۔ عربی بول چال میں مہارت کے باعث اس کا یہاں بھی دوست بنانے میں کوئی جواب نہ تھا، حتیٰ کہ صرف چھ ماہ کے عرصے میں وہ شاہی خاندان میں بھی دوست بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ ایک روز ایک عرب نے اس کی دعوت کی۔ سالم بکرے، قہوہ، خشک میوے اور دنیا بھر کی نعمتیں۔ اس قدر شاندار فرنیچر، فانوس اور قالین کہ جنید کو لگ رہا تھا وہ کسی دوسری دنیا میں آگیا ہے۔ ہیبت کے مارے اس کے منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔ آخر اس نے پوچھا ’’میرے نبیؐ تو پورے عرب کے بادشاہ تھے، وہؐ اور ان کے صحابہؓ تو چٹائیوں پر سوتے اور جَو کا دلیہ کھاتے، آپ کس کے دین پر ہیں؟‘‘
عرب میزبان نے بلند قہقہہ لگایا۔ ’’نماز پڑھتے ہیں ہم بھی اور روزے بھی رکھتے ہیں۔ باقی یہ ہے کہ ہم تمہارے حکمرانوں سے زیادہ کرپشن کرتے ہیں، بس تمہارے حکمرانوں کو کرپشن کا سلیقہ نہیں آتا۔ ہم کھاتے ہیں تو عوام کو بھی شاندار سہولیات دیتے ہیں، عوام اتنا خوش ہیں کہ ہم پر اُن کی نگاہ نہیں جاتی، کوئی شکایت نہیں ہوتی۔‘‘ وہ بولا۔
جنید نے افسوس سے سر ہلایا۔ ’’اگر عرب حکمران مغرب کے بینکوں سے اپنا پیسہ نکال لیں، عرب میں اُنہیں اختیارات دینا بند کردیں اور تمام مسلم حکمران آپس میں متحد ہوجائیں تو آج بھی مغرب کو شکست ہوسکتی ہے۔‘‘ وہ بولا۔
عرب میزبان ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگیا۔ ’’ارے بھائی چند دن کی زندگی ہے، ہمیں بھی عیش کرنے دو، تم بھی عیش کرو، کہو تو تمہارا نکاح کروا دوں؟ سنا ہے تم سعودی عرب میں تنہا ہی مقیم ہو، حکم تو کرو۔‘‘ اس نے کہا۔
’’جی نہیں، میں اپنی والدہ کی مرضی کے بغیر زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ نہیں کرسکتا، پوری زندگی کی بات ہے۔‘‘ جنید بولا۔
’’تم ابھی شادی کرلو، جاتے ہوئے طلاق دے کر چلے جانا، زندگی بھر کیا کسی ایک عورت کی غلامی کرو گے؟‘‘ وہ بولا۔
’’اور میرے جانے کے بعد میرے بیوی بچوں کی پرورش کون کرے گا؟ وہ قیامت کے روز میرا گریبان پکڑیں گے۔‘‘ جنید نے جواب دیا۔
’’وہ اور شادی کرلے گی، یا اس کا بھائی پال لے گا، کیوں کہ ہمارے ہاں عورتوں کو نوکری کی اجازت نہیں۔‘‘ عرب حکمران نے کہا۔
جنید کے لیے بیٹھنا مشکل ہوگیا، خوشبوئوں میں بسا عالی شان محل اسے آسیب زدہ لگ رہا تھا جہاں ہزاروں ٹھکرائی ہوئی عورتوں اور بچوں کی آہیں اور سسکیاں گونج رہی تھیں، چند ہی روز میں وہ ترکی منتقل ہوگیا۔
ترکی مشرق اور مغرب کی سرحد پر واقع ایک ملک ہے۔ یہاں کے لوگوں کو صدیوں کے جبر سے زبردستی لامذہب کردیا گیا ہے۔ ان کا اسلام یہ ہے کہ روزہ رکھتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں اور شراب پیتے ہیں، سحر تک ڈانس اور دیگر خرافات میں مصروف رہ کر فجر پڑھتے ہیں، اور پھر روزہ رکھ لیتے ہیں۔ لڑکیاں بغیر آستین کے لباس پہنتی ہیں جو صرف گھٹنوں تک محدود ہوتے ہیں، لیکن سر پر اسکارف لینا نہیں بھولتیں۔ بس کھچڑی پکی ہوئی ہے۔ طیب اردوان کے آنے سے اسلام کو کچھ تحفظ ضرور حاصل ہوا، لیکن معاشرتی اصلاح کی بے انتہا ضرورت تھی۔ جنید کو حیرت سے دیکھا جاتا، کیوں کہ اس کی کوئی گرل فرینڈ نہیں تھی، خواتین سے بات کرتے ہوئے نظریں جھکا لینا اس کی فطرت تھی، وہ دن رات غیر مناسب لباس والی خواتین کے ملک میں نہیں رہ سکتا تھا، اس لیے پاکستان لوٹ آیا۔
وہ اپنی والدہ کے ساتھ اُن کے بیڈ روم میں بیٹھا ہوا تھا۔ ’’امی! خواتین کی جو عزت اور تحفظ پاکستان میں ہے، وہ کہیں نہیں ہے۔ ایران میں خواتین کو متع کے نام پر بے وقعت کیا جارہا ہے، اسکول کالج کی لڑکیاں تک محفوظ نہیں، سعودی عرب میں شادی اور طلاق کو کھیل بنا لیا گیا ہے، اور ترکی میں تو شادی بس دکھاوا ہے، سب کے گرل فرینڈ، بوائے فرینڈ ہوتے ہیں۔ یہ کیا ہے، کیوں ہورہا ہے؟‘‘ وہ انتہائی دلسوزی سے بولا۔
’’بیٹا! یہ اسلام سے دوری کا نتیجہ ہے، اللہ تعالیٰ سے بغاوت ہے، جب ہی تو امت پر زوال آیا ہے۔ جب تک بنیادی خاندانی ڈھانچہ محفوظ نہیں ہوگا، ایک مضبوط قوم کیسے وجود میں آسکتی ہے! اللہ نے ہم پر رمضان کے روزے فرض کیے تاکہ ہم تقویٰ اختیار کریں، پھر بھی ہماری خواہشات اس قدر بے لگام ہیں۔‘‘ شہانہ صاحبہ نے کہا۔
جنید خاصی دیر تک خاموش رہا۔ ’’پاکستان میں بھی مسئلے ہیں امی! جیسے میرے ابو نے کبھی ہماری خبر نہ لی، انہوں نے دوسری شادی کرلی اور اپنی دوسری بیگم کے ساتھ ساری زندگی گزار دی، ہم کو چھوڑ دیا۔‘‘ آخرکار وہ بولا۔
شہانہ آہ بھر کر رہ گئیں۔ ’’بیٹا! پاکستان میں بھی خواتین کی حالت کچھ زیادہ اچھی نہیں۔ لاکھوں روپے بیٹی کی پڑھائی پر خرچ کرو، لاکھوں کا جہیز اور شادی کا خرچا، پھر لڑکے والے چاہتے ہیں کہ بہو کما کر بھی کھلائے اور کمانے کا احسان بھی نہ جتائے، کمانے کے باوجود گھر کی ملازمہ بن کر سارے کام کرے، پورے سسرال کی خدمت کرے اور ایک لفظ منہ سے نکالنے کی اجازت بھی نہیں۔ یہ سب بھی اسلام نہیں ہے بیٹا۔ کمانا مرد کے ذمے ہے۔ جب بے غیرتی اس حد تک پہنچ جائے کہ معاشی ذمے داری اٹھانے کے باوجود عورت کو عزت نہ ملے تو پھر گھر نہیں بستے۔ جب مجھے ہی کمانا ہے تو میں کما کر خود کھائوں، اپنے ماں باپ کو کھلائوں جنہوں نے مجھے کمانے کے لائق بنایا، میں ان کم ظرف لوگوں کے لیے اپنی زندگی کیوں برباد کروں؟‘‘ انہوں نے کہا اور آنکھوں میں نمی لیے چپ ہوگئیں۔
جنید سر جھکائے سنتا رہا۔ اسے اپنی ماں سے کوئی شکایت نہیں تھی، وہ جانتا تھا کہ وہ خود اپنی ماں کی تربیت میں ایسے تیار ہوا ہے کہ وہ ایک خوش حال گھر کا ذمہ دار اور محبت والا رکھوالا بن سکے۔ جنید نے وزارتِ خارجہ کی نوکری چھوڑ دی اور ایک لینگویج سینٹر کھول لیا، جہاں وہ مختلف زبانوں کی تربیت دیا کرتا ہے۔ وہ اپنے ملک پاکستان میں بہت خوش ہے، اور کہیں نہیں جانا چاہتا۔

حصہ