بی جے پی کا ایجنڈہ نسل پرستی

461

انشال راؤ
نوآبادیاتی عہد میں تقریباً دنیا کسی نہ کسی طاقت کے زیر تسلّط رہیں اس لحاظ سے دنیا میں دو طرح کی قومیں آباد ہیں ایک وہ ہیں جنہوں نے آزادی کے بعد اس عہد کو یکسر نظر انداز اور فراموش کردیا جیسے ہسپانیہ صدیوں عربوں کے ماتحت رہے، تقریباً اہالیان یورپ سلطنت عثمانیہ یعنی ترکوں کے زیر اثر رہے اس کے علاوہ افریقہ، امریکہ، لاطینی امریکا پر مختلف یورپی اقوام نے سینکڑوں سال حکومت کی لیکن ان سب نے اسے تاریخ کا حصہ سمجھ کر یکسر نظر انداز کردیا اور اس کا جائزہ لے کر اپنی کمزوریوں، غلطیوں کو سدھارا اور نوآبادیاتی نظام و نسل پرستی کو انسانیت کے لیے لعنت سمجھا جب کہ دوسری قوم ہندوتوا پرستوں پر مشتمل ہے جو ہر لمحہ اسی سوچ کو لے کر مریضوں کی زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں کہ ان کے اجداد ہزار سال مسلمانوں کے غلام رہے اور پھر سو سال تک انگریزوں نے ان کو چھڑی کے ساتھ ہانکا۔ ہندوتوا ماضی سے سبق سیکھنے یا ماضی کے سیاہ باب کو بند کرکے نسل پرستانہ دور کے دروازے بند کرنے کے بجائے احساس ندامت اور شرم سار ہی ہیں اور اس زہریلے مرض کا شکار ہوکر اب ہندوتوا دہشت گرد معاشرے کے لیے ناسور بنتے جارہے ہیں۔
ہندوتوا مریض انسانی معاشرے کو تیزی سے نوآبادیاتی عہد میں دھکیل رہے ہیں جیسا کہ ماضی میں جب کوئی قوم کسی قوم پر غالب آجاتی تو شروع میں وہ مہذب و ہمدرد ہوتے لیکن جوں ہی ان کی گرفت و طاقت بڑھتی تو وہ وحشی و ظالم بن جاتے تھے بالکل اسی طرح ہندوتوا نسل پرست بی جے پی کی شکل میں بھارت پہ قابض ہوئے تو شروع میں ان کی طاقت کم تھی‘ سب کے ہمدرد تھے۔ لیکن جوں ہی ان کی طاقت و اختیار بڑھا تو انہوں نے نوآبادیاتی سوچ و فکر کا عملی اظہار شروع کردیا جس کے تحت یہ خود کو اعلیٰ و برتر اور مہذب سمجھتے ہیں جب کہ دلت و دیگر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو کم تر و غیرمہذب سمجھتے ہیں لیکن اس میں خوف ناک ترین پہلو یہ ہے کہ ہندوتوا سوچ و فکر معاشرے کو جاہلیت کے اندھیروں کی طرف ہی لے کر جائے گی جیسے کسی بچے کو جب کہا جاتا ہے کہ وہ رہا چاند تو بچہ فوراً انگلی کی طرف دیکھتا ہے جوکہ چاند نہیں ہوتی بلکہ چاند کی طرف ایک ڈائریکشن یا ذریعہ ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح اگر ہندوتوا سوچ و فکر کا جائزہ لیا جائے تو آج کے جدید دور میں بھی ہندوتوا وزیر و سرغنہ لوگوں کو گائے کے گوبر و گائے موتر کی تعلیم ہی دیتے پھرتے ہیں اور معاشرے کو ایک بار پھر دو ہزار سال پیچھے لے جانے کے منصوبے پہ عمل پیرا ہیں کہ جس میں برہمن و اونچی ذات کے ہندووں کے لیے ہی جینے کی آزادی تھی جبکہ دلت و دیگر طبقات کی زندگی جانوروں سے بھی بدتر تھی۔
تاریخ گواہ ہے کہ ہندوستان کے عوام کو اس سیاہ دور سے نکال کر مہذب راستوں پر ڈالنے میں مسلمانوں کا کردار سب سے زیادہ روشن رہا ہے اور ہندوتوا نسل پرست جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے ہوتے ہوے ان کا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہوسکتا یہی وجہ ہے کہ آر ایس ایس نے بی جے پی کی صورت اقتدار پہ قبضہ کرکے بھارت کو نسل پرستی کے دور میں دھکیل دیا ہے جس میں ان کا سب سے اہم منصوبہ مسلمانوں کو ختم یا بے اثر کرنا ہے اور اس ایجنڈے پہ عمل پیرا رہ کر بی جے پی نے سب سے پہلے کشمیر کے اسٹیٹس کو تبدیل کرکے وہاں کی آبادی کو ہندو اکثریت میں بدلنا شروع کردیا، اس کے بعد تاریخی ورثے بابری مسجد کو مندر میں تبدیل کیا اور پھر آر ایس ایس کے دیرینہ مطالبے CAB (سٹیزن امینڈمنٹ بل) کو عملی شکل دے کر مسلمانوں کو ان کی اپنی ہی زمین پر بے گھر کردیا، جس کے خلاف نہ صرف مسلمان بلکہ سیکیولر و امن پسند ہندو بھی سراپا احتجاج ہیں۔
صورت حال کو دیکھتے ہوئے مکار امیت و شاہ و نریندر مودی نے جھوٹ و مکاری سے کام لیتے ہوئے بیان دیا کہ یہ مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان میں ظلم کا شکار بننے والے ہندوئوں و دیگر اقلیتوں کے ساتھ انسانی ہمدردی کے طور پر شناخت دینا ہے۔ لیکن یہ بیانیہ بھی آر ایس ایس و دیگر سنگھ پریوار تنظیموں کا ہی ہے اور یہ دیرینہ مطالبہ آر ایس ایس کا ہی ہے جس پر آر ایس ایس کے سرکریواہ (sarkaryawah) شری بھیا جی جوشی کے ویڈیو بیان سے پھوٹ گیا ہے جس میں جوشی صاحب نے بی جے پی بالخصوص نریندر مودی اور امیت شاہ کا آرایس ایس کی طرف سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم مودی و امیت شاہ کا ہمارے دیرینہ مطالبے کو عملی شکل دینے پہ تہہ دل سے شکر ادا کرتے ہیں۔ اس بل کو مذہبی تفریق قرار دینے والوں کو بتادیں کہ 1947 میں ہندوستان کی تقسیم مذہب کی بنیاد پر ہوئی تھی۔ جس میں واضح طور پر اشارہ ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی بھارت کو ہندو راشٹر بنانے پر بضد ہیں، اس کے علاوہ اگر آر ایس ایس کی قرار دادوں پر نگاہ ڈالی جائے تو سی اے ای یعنی سٹیزن امینڈمنٹ ایکٹ کی حقیقت اور امیت شاہ و نریندر مودی کے بیانات کی مکمل عکاسی ہوجاتی ہے کہ حرف بہ حرف آر ایس ایس کا بیانیہ و ایجنڈہ ہے، سب سے پہلے 1964 میں آر ایس ایس کی ونگ اکھل بھارتیہ پرادنیدی نے یہ قرارداد پیش کی، پھر 1978 اور 1993 میں اکھل بھارتیہ کریاکری منڈل اور 2002 اور 2013 میں یہ مطالبہ اکھل بھارتیہ پرادنیدی سنھا نے دہرایا جسے وقتی طور پر مودی عددی اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے پورا نہ کرپائے لیکن جوں ہی بی جے پیء کو R&AW بھاری اکثریت سے اقتدار میں لائی تو ہندو راشٹر کی طرف ہندوتوا نسل پرستوں کے قدم تیزی سے بڑھ رہے ہیں، بھارتی فوج کے موجودہ آرمی چیف کے سیاسی بیان جس میں بھارتی آرمی چیف نے بی جے پی کی ترجمانی کی ہے سے واضح ہے کہ بھارتی فوج کی اعلیٰ قیادت ہندوتوا نظریہ پہ قائم ہے، اس کے علاوہ مسلمانوں کی جائیداد ضبطی کا حکم نامہ جاری کرکے ادیتیاناتھ یوگی نے ثابت در ثابت کردیا ہے کہ بھارت ایک نسل پرست ریاست ہے اور یو پی کے ایک وزیر کپل اگروال نے بجنور کے دورے پر ایک زخمی ہندو شخص کے گھر کا دورہ کرکے اور ساتھ ہی بھارتی پولیس کے ہاتھوں شہید ہونے والے دو مسلمانوں سلمان اور انس کے گھر نہ جاکر یہ اشارہ دے دیا ہے کہ ان کے نزدیک مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں اور اب اس کے بعد آر ایس ایس کی سیاسی ونگ بی جے پی جلد ہی پاپولیشن کنٹرول بل کو لانا چاہتی ہے جس کا مطلب مسلمانوں کو شدید متاثر کرنا ہے۔ ماضی میں نریندر مودی کے اس بیان سے اس بل کے مقصد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، 2002 کے گجرات مسلم کش فسادات کے بعد مودی نے بیان دیا تھا کہ ’’یہ سبق ہے ان کے لیے جو آبادی کو ڈبل کرتے ہیں۔‘‘
اب پاپولیشن کنٹرول بل کا کیا مطلب ہوگا یقیناً مسلمانوں کو جائیداد اور ان کے مذہبی حقوق سے محروم کرکے ختم کرنا جبکہ دوسری طرف خوف پھیلانے کے لیے نسل پرست ہندوتوا دہشت گردوں نے تلنگانہ میں جرمن نازیوں کی طرز پر لاٹھی بردار ریلی نکال کر لوگوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی ہے، پوری دنیا میں ہندوتوا دہشت گردوں کے انسانیت دشمن اقدامات پر تشویش کا اظہار کر رہی ہے لیکن عالمی بااثر ریاستیں اس ضمن میں کوئی ٹھوس قدم اٹھانے میں مصلحت کا شکار ہیں جوکہ عالمی امن کے لیے بہت خطرناک ثابت ہوگا، بی جے پی جرمن طرز پر ایک دفاعی سویلین چیف طعینات کرنے کا ایجنڈہ رکھتی ہے جس طرح ہٹلر نے دفاع کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا پھر کیا ہوا وہ دینا کے سامنے ہے اور اب جس دن بی جے پی نے بھارتی دفاعی معاملات آر ایس ایس کے سپرد کردیے تو یقینی طور پر دنیا کی تباہی کا عملی آغاز ہو جائے گا۔ اب یہ عالمی بااثر ریاستوں پر ہے کہ وہ ایسا واقعی چاہتی ہیں یا دنیا کو ایک بار پھر 1945 سے پہلے کے عہد میں دھکیلنا چاہتی ہیں۔

حصہ