مائرہ اور کھیرے!۔

596

ہادیہ امین
۔’’یہاں سے گزر رہی تھی بہن، سوچا آپ سے ملتی چلوں، شادی کے کپڑوں سے متعلق ایک آدھ بات پوچھنی تھی۔‘‘ فرحت نے ہونے والی سمدھن مدیحہ سے کہا۔
’’ارے فرحت کوئی ایسی بات نہیں، اچھا لگا آپ کا آنا، اپنا گھر سمجھ کے آیا کریں، سائرہ اب آپ کی بیٹی بننے والی ہے،تکلف کی کیا بات ہے،مائرہ!! آنٹی کے لیے…‘‘جملہ ادھورا چھوڑ کے محض آنکھوں سے اشارہ کیا گیا۔
نو سالہ مائرہ‘ سائرہ کی دس سال چھوٹی اکلوتی بہن اور مدیحہ کی دوسری بیٹی تھی۔ بیچ میں تین بیٹے اور تھے جو اس وقت گھر پر نہیں تھے۔ مائرہ تیزی سے باہر گئی اور خاطر کے لیے کچھ ڈھونڈنے لگی۔
’’ارے مدیحہ! کیوں بچی کو پریشان کر رہی ہیں، میں تو بس چھوٹے سے کام۔‘‘
’’کوئی ایسی بات نہیں، خوش ہوتی ہے مہمانوں کو دیکھ کر،آج کل اسکول کی چھٹیاں ہیں تو ویسے بھی ہر وقت سائرہ کی شادی کی تیاریوں میں لگی رہتی ہے۔‘‘
فرحت سن کر مسکرائیں، ان کو بیٹیاں گڑیا لگتی تھیں۔ دونوں طرف مسکراہٹ کے تبادلے ہوئے، ماحول خوشگوار چل رہا تھا کہ اتنی دیر میں مائرہ پلیٹ میں کٹے ہوئے کھیروں کے اوپر نمک اور پسی ہوئی کالی مرچیں چھڑک کے لے آئی۔
’’آنٹی کھائیں،میں نے بنائے ہیں!‘‘
منگنی ہوئی بیٹی کی ساس، ہونے والا سمدھیانہ، فرحت کی پہلی دفعہ اچانک آمد اور خاطر کے لیے کھیرے کی عجیب و غریب کٹی ہوئی قاشیں،مدیحہ کا خون ابلنے لگا۔
’’مائرہ بیٹا! بہن آپ بیٹھیں میں لاتی ہوں۔‘‘ غصے اور شرمندگی کی ملی جلی کیفیت، مدیحہ خون کا گھونٹ پی کے رہ گئیں۔
’’امی ! سائرہ باجی واش روم میں تھیں، میں خود ہی لے آئی۔‘‘ مائرہ نے صورت حال کو جانچتے ہوئے صفائی پیش کی۔
’’بیٹھیں مدیحہ! میں تو ضرور کھائونگی جو مائرہ لے کر آئی ہے، واقعی میرا بہت دل چاہ رہا تھا، سو سوئیٹ اوف یو مائرہ! تمہیں کیسے پتا چلا کہ کھیرے میرے فیورٹ ہیں؟‘‘
فرحت کھیرے کھاتی جا رہی تھیں اور حوصلہ بڑھاتی جا رہی تھیں۔ مائرہ آسمان پر اور مدیحہ شرمندہ ‘ کیا بولوں،کیا نہ بولوں۔ فرحت فیض جو بات کرنے آئیں تھیں وہ ہو گئی تھی۔ انہوں نے مدیحہ کو خدا حافظ کہا، مائرہ کا گال چوما اور کہنے لگیں ’’تم بہت مزے کی خاطر کرتی ہو، اللہ نے بہت ذائقہ دیا ہے تمہارے ہاتھ میں،خوش رہو گڑیا۔‘‘
یہ کہہ کر محفل برخواست ہوئی۔
…٭…
آج اس بات کو تقریباً دس سال ہو گئے تھے۔ سائرہ اپنے گھر کی تھی اور مائرہ کی شادی ہونے والی تھی۔ مائرہ کے ہاتھ کے کھانے بہت تعریف کے لائق اور خاندان بھر میں مشہور تھے۔ آج مائرہ کسی کام سے سائرہ کے گھر آئی تو فرحت سے ملاقات ہوئی
’’السلام علیکم آنٹی! خیریت سے ہیں ۔‘‘
فرحت‘ اللہ کا خوف رکھنے والی خاتون ثابت ہوئی تھیں‘ یہی وجہ ہے کہ اتنے برسوں میں سائرہ کو کبھی کوئی شکایت نہ ہو ئی۔
’’وعلیکم السلام مائرہ! میں ٹھیک ہوں گڑیا تم کیسی ہو؟ تمہارے ہاتھ کے کھانوں کی تعریف تو میرے پوتا پوتی کرتے نہیں تھکتے ما شاء اللہ۔‘‘
مائرہ مسکرائی۔ وہ کچھ یاد کرکے خوش ہوئی تھی۔
’’آنٹی! یاد ہے آپ نے سب سے پہلے میرے ہاتھ کی کون سی ڈش کھائی تھی؟‘‘
’’مجھے اچھی طرح یاد ہے بیٹا، بہت خلوص بھرا تھا اُن کھیروں میں۔‘‘ فرحت نے جواب دیا۔
’’حالانکہ وہ اتنے میٹھے نہیں تھے۔‘‘ مائرہ کو ذائقہ بھی یاد تھا۔
’’مگر وہ کڑوے بھی نہیں تھے۔‘‘ فرحت مسکرائیں۔
’’آپ کی اس وقت کی گئی باتوں نے ہی مجھے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا تھا، بہت کم لوگ یاد رکھتے ہیں کہ دل میں خدا رہتا ہے، آپ نے میرا دل نہیں توڑا تھا، مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔‘‘
فرحت کچھ سوچتے ہوئے بولیں ’’خدا دل میں نہیں رہتا بیٹا! وہ تو عرش پر مستور ہے، مگر اس کا علم اتنا ہے کہ وہ شہ رگ سے زیادہ قریب ہے، ٹوٹتے دل،کمزور لمحوں میں حوصلہ کرتے دل، دوسروں کا حوصلہ بڑھاتے رویے، وہ سب کو جانتا ہے،یہ بھی نیکیاں ہوتی ہیں بیٹا! انہیں ہلکا مت لینا، کسی کا دل ٹوٹنے سے بچانا،واقعی نیکی ہے۔‘‘
مائرہ بہت متاثر ہوئی تھی۔ کتنا اچھا انداز تھا‘ جو اللہ سے ڈرتے ہیں اللہ دنیا والوں کے دل میں ان کی محبت ڈال دیتا ہے۔
’’جزاک اللہ خیر آنٹی!آپ تو پہلے سے بھی زیادہ اچھی ہیں، آپ نے کبھی بتایا ہی نہیں۔‘‘
فرحت خوش ہوئیں ’’جب آپ کو بتانا پڑے کہ آپ کون ہیں، اس کا مطلب آپ کچھ بھی نہیں ہیں، میں نے کہیں پڑھا تھا۔‘‘
اور پھر باتیں چلتی رہیں۔ واپسی پر مائرہ سوچ رہی تھی کہ واقعی مومن تو ایک دوسرے کو ایسے ہی سہارا دیتے ہیں جیسے دیوار کی ایک اینٹ دوسری کو۔ بغیر کسی غرض اور اخلاص کے ساتھ کی گئی نیکیاں ہی اللہ کے ہاں مقبول ہوں گی‘ اللہ ہمیں نیک اعمال پر استقامت عطا فرمائے آمین۔

حصہ