مریم صدیقی
۔’’ماں !مجھے معاف کرنا۔ میں تمہیں چھوڑکر جارہا ہوں لیکن کیا کروں زندگی بہت مشکل ہوگئی ہے ‘‘۔ یہ لبنان میں زیر تعلیم میڈیکل اسٹوڈنٹ عبداللہ کاشوراکے آخری الفاظ تھے۔ جو اس نے اپنی ماں کے نام پیغام میں لکھے۔ ایک میڈیکل سیکنڈ ائیر کے طالب علم عثمان جاوید نے کالج انتظامیہ کے رویے سے دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کر لی تھی۔ اسی طرح 2014 میں یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے ہاسٹل میں خودکشی کر لی تھی۔ پاکستان میں 6 جولائی کوایک طالب علم صبور نے صرف اس لیے خود کشی کرلی کیوں کہ وہ سی اے کے امتحانات میں خواہش کے مطابق نمبرحاصل نہیں کرسکا تھا۔ خودکشی کے ذریعے اپنی زندگی کو ختم کرنے کا رجحان15سے 24 سال کی عمر یعنی نوجوان نسل کے افراد میں زیادہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ ہمارے ارد گرد کے ہی لوگ ہیں جو کسی نہ کسی ذہنی دباو، سماجی پریشر یا ڈپریشن کے سبب خود کشی جیسے قبیح فعل کو اپناتے ہیں۔ ایسی کئی خبریں روز ہماری نظروں سے گزرتی ہیں جنہیں ہم ان دیکھا کردیتے ہیں اور شاید کرتے رہیں گے جب تک ان خود کشی کرنے والوں کی فہرست میں ہمارے کسی اپنے عزیز، دوست یا رشتے دار کا نام نہیں آئے گا ۔
کسی شخص کا خود کو قصداً ہلاک کرنے کا عمل خود کشی کہلاتا ہے۔ اس کے پیچھے کئی محرکات کار فرما ہوتے ہیں لیکن ہم میں سے اکثر لوگ اسے بزدلی، نفسیاتی بیماری، پاگل پن کا نام دے کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور اپنا دامن بچالیتے ہیں۔ یاد رکھیے حادثہ ایک دم نہیں ہوتا، ہر خود کشی کے پیچھے کوئی قاتل ضرور ہوتا ہے۔ وہ قاتل ہم میں سے ہی کوئی ہوتا ہے کبھی استاد کی شکل میں تو کبھی سماج کے روپ میں۔ کبھی رشتے دار بن کرتو کبھی ماں باپ یا دوست بن کر۔ ہم اپنے رویے اپنے عمل سے کسی نہ کسی کو اس حد تک لے جاتے ہیں اورخود کشی پر اکساتے ہیں۔ بعد ازاں اسی شخص کو بزدلی کے طعنے دے کر خود کو مطمئن کرلیتے ہیں اور حسب ضرورت فتوے دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
ہر سال دنیا بھر میں لگ بھگ 8 سے 10 لاکھ افراد خودکشی کرکے اپنی زندگی دائو پر لگا دیتے ہیں، ہر چالیس سیکنڈ میں ایک زندگی خودکشی کی نذر ہوجاتی ہے۔ طبی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں ہر تیسرا فرد پرمژدگی یا ذہنی دبائو میں مبتلا ہے اور پاکستان میں بھی صورتِ حال مختلف نہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پرمژدگی یا ڈپریشن عالمی سطح پر ایک نفسیاتی عارضہ بن کر اْبھر چکا ہے۔ طبی ماہرین نے بتایا کہ پاکستان میں خواتین مردوں سے زیادہ خودکشی کررہی ہیں۔ (روزنامہ ڈان کراچی۔ 10 اکتوبر 2019ء)۔
خود کشی کے اسباب و محرکات و علامات
ہر سال 10 ستمبر کو خودکشی سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس میں خودکشی کے اسباب اور محرکات پر غور و فکر کی ترغیب دینے کے لیے سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ خود کشی سے بچاو کے لیے اس کے محرکات کا علم ہونا بے حد ضروری ہے کہ آخر وہ کونسی شے ہے جو انسان کو اس قدر مایوسی کی جانب دھکیل دیتی ہے کہ انسان خود ہی اپنی زندگی ختم کرنے کے درپے ہوجاتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق خودکشی کے کئی اسباب ہیں۔ ان میں غربت، بیروزگاری، مایوسی، افسردگی، غصہ، افراتفری، پولیس تشدد، اعتماد کی کمی اور امتحان میں کم نمبر آنا شامل ہیں تاہم خودکشی کے بنیادی اسباب دو ہیں، مالی مسائل اور خاندانی مسائل۔ آئے روز اخبار میں اس قسم کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ فلاں شخص نے بے روز گاری سے تنگ آکر خود کشی کرلی یا فلاں لڑکی نے اپنی نس کاٹ کر خود کشی کرلی۔
یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ کوئی بھی شخص ایک دم ہی اتنا بڑا قدم نہیں اٹھاتا کہ وہ ایک ہی جست میں خود کو ختم کرلے بلکہ وہ آہستہ آہستہ اس جانب بڑھتا ہے باقاعدہ سوچ کر پلان کرکے اس فعل کو انجام دیتا ہے۔ ماہرین نفسیات اس بات کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں کہ ہر نفسیاتی بیماری کی طرح خود کشی کی جانب مائل ہونے والے شخص میں چند علامتیں ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں جن میں ابتدائی علامات زندگی کے بارے میں اس کے رویے میں تبدیلی کی صورت میں نظر آتی ہیں۔ ایسا شخص یا تو ضرورت سے زیادہ پْرجوش نظر آنے لگتا ہے یا پھر خطرناک حد تک مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق اگر کسی شخص میں خودکشی کی انتباہی علامات موجود ہیں اور وہ کہہ رہا ہے کہ وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہے یا اسے اپنی زندگی کا فائدہ نظر نہیں آتا تو اِن باتوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایسے شخص سے گفتگو کرکے اس کے اندر موجود بھڑاس، غم و غصے کو نکلنے کا موقع دینا چاہیے۔ ایسے وقت میں اس شخص کو کسی سامع کی ضرورت ہے جو فقط اسے سنے اور تب تک سنتا رہے جب تک وہ اپنے اندر کی ساری بھڑاس نکال نہ لے۔
سد باب
ہم بحیثیت قوم افراتفری کا شکار ہوچکے ہیں اپنی ذات میں ہر ایک اس قدر مگن ہے کے اسے یہ تک علم نہیں کہ میرے ساتھ بیٹھے شخص کی زندگی میں کیا چل رہا ہے، وہ کن حالات سے گزر رہا ہے۔ اگر ہمارے پاس وقت ہے تووہ دوسروں پر نکتہ چینی کرنے میں صرف ہوتا ہے۔ اگر ہمیںخود کوئی اپنے مسائل سے آگاہ کرے اور مشورہ طلب کرے تو ہماری نصیحتوں اور فتووں کی پٹاری کھل جاتی ہے۔ ہم ہر مشورے کے ساتھ اس شخص کو اس بات کا احساس دلانا نہیں بھولتے کہ تم ایک ناکارہ شخص ہو، تم نے اپنی زندگی میں کچھ نہیں کیا اور کوشش کروگے بھی تو کام یاب نہیں ہوگے کیوں کہ تمہارے پاس نہ مجھ جیسی دانشوری ہے نہ ہی تجربہ۔ ان حالات میں وہ شخص مشورے کے بجائے مرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ ہم ناصح توبن گئے لیکن ہمدرد نہ بن سکے۔ غور کیجیے کہیں آپ، میں یا ہم میں سے کوئی تو نہیں جو ان خود کشی کرنے والوں کو اس نہج تک لانے کا سبب بنا ہو۔
ہمیں چاہیے کہ اگر ہم اپنے ارد گرد کسی ایسے شخص کو دیکھیں جو کسی بھی سبب زندگی سے مایوس اور ناامید نظر آتا ہو تو اس سے گفتگو کریں، اسے سنیںاس کے مسائل کا ممکنہ حل پیش کریں ۔ اگر مالی تعاون ممکن ہو تو وہ بھی کریں نہیں تو کم از کم ایک سامع کا کردار ادا کرکے اسے اس راہ کا مسافر نہ بننے دیں جس میں فقط اس کے لیے خسارہ ہے۔ اگر آپ میں سے بھی کوئی ایسے مسائل سے گزر رہا ہے جس کا حل آپ کو سمجھ نہیں آتا۔ پریشانی ہے، ڈپریشن ہے تو کسی سے بات کریں ۔ کوئی نہیں ہے تو بھی گھبرائیں نہیں وہ خالق کائنات ہمیشہ ہمارے ساتھ ہے اس سے گفتگو کریں، اسے اپنے تمام مسائل کہہ دیں اور پھر تمام معاملات اس پر چھوڑ دیں وہ مسبب الاسباب ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صبر کو ذہنی تناؤ کے حل کے طور پر پیش کیا ہے۔ارشاد ربانی ہے ’’اور ہم ضرور تمھیں خوف وخطر،فاقہ کشی، جان ومال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے آزمائیں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیںاور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے۔انہیں خوشخبری دے دو۔ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایا ت ہوں گی‘‘۔(البقرہ) ۔
اگر آپ پریشان ہیں یا ذہنی تناو کا شکار ہیں تو ان چند چیزوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیں:
1۔ تلاوت قرآن
2۔ صوم صلوٰۃ کی پابندی
3۔ چہل قدمی یا ورزش
4۔ کچھ وقت گھروالوں کے ساتھ لازمی گزاریں
5۔ مثبت سوچ
ان چیزوں پر عمل کرکے کسی بھی قسم کے ڈپریشن سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ یاد رکھیے خود کشی کرنا شاید آسان حل لگتا ہو لیکن یہ کسی بھی مسئلے کا حل ہرگز نہیں ہے۔ یہ کئی دیگر مسائل کی ابتدا ہے لہذا اپنی زندگی کی قدر کیجیے، اپنے سے جڑے رشتوں کی قدر کیجیے۔ اپنے ذہن کو منفی سوچوں کی آماجگاہ نہیں بننے دیجیے کسی بھی پریشانی کا آغاز منفی سوچ سے ہی ہوتا ہے اور اگر آپ والدین ہیں تو اپنی اولاد کی ضروریات کو سمجھیے، ان سے گفتگو کیجیے ، ان کے مسائل سنیے، انہیں وقت دیجیے ۔ انہیں اپنے فیصلوں میں ایک حد تک آزادی دیجیے تاکہ وہ گھٹن محسوس نہ کریں۔