سادگی اپنائیں، شادی بیاہ کو آسان بنائیں

1029

راشد قریشی
اسلام ہمیں سادگی اور میانہ روی کا درس دیتا ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی کے ہر پہلو میں اسلام کے بتائے گئے اصولوں پر عمل کریں تو نہ صرف ہماری زندگی آسان ہو جائے گی بلکہ ہم معاشرے میں پھیلی بے شمار برائیوں اور بے راہ روی سے بھی بچ سکتے ہیں۔ہم سادگی کو ترک اور نمود و نمائش کو فروغ دے کر نہ صرف اللہ کے احکامات سے روگردانی کرر ہے ہیں بلکہ وہ تمام سفید پوش افراد جو شادی بیاہ کے بے جا اخراجات کے متحمل نہیں ہوسکتے ان کے ساتھ بھی زیادتی کر رہے ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ اپنی شادی بیاہ کو آسان بنائیں اور فضول رسومات سے گریز کریں۔ مہنگائی کی حالیہ لہر نے لوگوں کی زندگی انتہائی دشوار بنا دی ہے۔ معاشرے کا ہر طبقہ مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہے۔ مہنگائی کا مقابلہ ہم سادگی سے کر سکتے ہیں۔ اگر ہم اپنی ضروریات سے بے جا چیزوں کا خاتمہ کردیں تو کسی حد تک ہم مہنگائی کے عفریت سے نبرد آزما ہو سکتے ہیں۔ آج کے دور میں ہم نے شادی بیاہ کو انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔ شادی بیاہ میں سادگی، پردے کی پابندی، بھاری بھر کم اخراجات سے اجتناب جیسی خوبیاں سنتِ حسنہ (اچھا طریقہ) ہے۔ جو شخص اپنے خاندان میں اس اچھے طریقے سے شادی کرنے میں پہل کرے گا، بعد میں اس خاندان کے جتنے لوگ اس کی پیروی کرتے ہوئے تمام خرافات و رسومات سے بچ کر شادیاں کریں گے، پہل کرنے والے کو بھی ان سب کی ان نیکیوں کا اجران کے اجروں میں کٹوتی کے بغیرملے گا۔
ہمیں چاہیے کہ ہم نبی کریم کی سنت پر چلتے ہوئے نکاح کو آسان بنائیں‘ شادی بیاہ میں سادگی کو اپنائیں اور مہندی‘ مایوں جیسی فضول رسومات سے گریز کریں۔ اس حوالے سے چند تجاویز درج ذیل ہیں:
-1نکاح کی تقریب مسجد میں ہو۔ لڑکے اور لڑکی دونوں کے رشتے دار و احباب وغیرہ شریک ہوں۔
-2رخصتی کا عمل سادگی کے ساتھ گھر سے ہی کیا جائے۔ رخصتی کے لیے کسی بھی بڑی دعوت کا اہتمام نہ کیا جائے۔
-3ولیمے کی تقریب بھی سادگی کے ساتھ ہو۔ صرف ’’ایک ڈش) کا ہی اہتمام کیا جائے (یا پھر جس طرح محترم سید منور حسن صاحب نے اپنے صاحبزادے کے ولیمے پر چائے‘ بسکٹ سے تواضع کی تھی۔)
-4تقریب میں بہت زیادہ یعنی عام دعوت سے اجتناب کیا جائے۔
(گزشتہ دنوں ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی صاحب نے ایک نکاح کی تقریب میں بتایا کہ حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کے نکاح میں صرف 8 یا 12 افراد شریک تھے۔)
-5 اگر تقریب کرنا ضروری ہو تو یہ بھی ممکن ہے کہ لڑکی اور لڑکے والے مل کر صرف ایک ہی تقریب کرلیں۔
-6اسی طرح جہیز بھی ایک سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے۔ جس کا بار لڑکی والوں کے کاندھے پر ہوتا ہے۔ جہیز کا بندوبست کرنا متوسط طبقے کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔ ہمیں جہیز لینے اور دینے‘ دونوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ اگر لڑکے والے جہیز لینے سے انکار کر دیں تو ہمارے معاشرے میں شادی نہایت آسان ہو جائے گی۔
آج کل لوگ شادی ‘ولیمے بڑی بڑی تقریبات کرتے ہیں‘ بہت بڑے اجتماع کا منظر لگتا ہے‘ کھانے میں درجنوں ڈشز موجود ہوتی ہیں جس کی وجہ سے معاشرے کا عام افرادcomplexity کا شکار ہوتے ہیں۔
موجودہ معاشی حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سادگی کا عملی نمونہ پیش کریں۔ ہماری تقریبات سے سادگی کی جھلک نظر آئے جو کہ اسلام کی تعلیمات بھی ہیں۔

حصہ