شہلا خضر
اکبراورسبحان پکّے دوست تھے،پہلی جماعت سے اب تک یعنی ساتویں جماعت تک وہ ایک ہی اسکول میں پڑھ رہے تھے ، دونوں کے گھر میں صرف ایک دیوار کا فاصلہ تھا۔ اکبر کے دادا ریٹائرڑ فوجی تھے۔ وہ اپنے فارغ اوقات میں سے روزانہ کچھ وقت ضرور گلی کے سب بچوں کے ساتھ گزارتے تھے۔ شام کو سب بچے کھیلنے کے لیے جب جمع ہوتے تو انہیں دادا جی کا انتظار رہتا ، کیونکہ اکبر کے دادا سب بچوں سے بہت پیار کرتے تھے ،ان کو مزیدار سبق آموز کہانیاں بھی سناتے اور چاکلیٹس بھی دیتے تھے۔ دادا جی کی کہانیاں ہر ایک کو پسند تھیں ، وہ ہمیشہ آسان الفاظ میں بچوں کو مقصد زندگی سمجھاتے وہ کہتے ‘‘،کہ ہمیں دوسرے انسانوں کا احساس کرنے اور ان کی مدد کرنے کے لیے دنیا میں بھیجا ہے اوراللہ کے پسندیدہ بننے کے لیے اس کی مخلوق کی خدمت کرنی چاہیے ‘‘ روزانہ نصیحت آموز قصّے کہانیاں سن کر بچوں میں بہت مثبت تبدیلی آئی۔ وہ سب کی مدد کے لیے ہردم تیار رہتے ، والدین بھی دادا جی کے بہت شکرگزار تھے ، کیونکہ جو بات وہ لاکھ کوششوں سے بچوں کوسمجھا نہ پاتے وہی باتیں دادا جی منٹوں میں بہت آسانی کے ساتھ سمجھا دیتے۔
آج سب بچے بہت خوش تھے کیونکہ سردیوں کی چھٹیاں شروع ہوگئی تھیں۔ اور چھٹیوں کا آغاز ون ڈے کرکٹ میچ کے ذریعے کیا گیا۔
ایک ٹیم اکبر کی اور دوسری سبحان کی دونوں ٹیمیں مقررہ وقت پر جمع ہو گئیں۔ ہارنے والی ٹیم کو جرمانے کے طور پر جیتنے والی ٹیم کو نئی گیند خریدکر دینی تھی۔ میچ شروع ہوا اور ٹاس جیت کر اکبر کی ٹیم کو بیٹنگ کا موقعہ ملا۔
انْکی بیٹنگ بہت اچھی رہی اور انہوں نے ۵۶ رنز بنائے۔
جب سبحان کی ٹیم کی باری آئی تو وہ بڑے اسکور کے ٹارگیٹ کی وجہ سے کچھ گھبرا گئے اور ایک کے بعد ایک کھلا ڑی آئوٹ ہونے لگے، اور جب زوردار شاٹس لگا کر زیادہ رنزبنانے کی کوشش کی تو گیند نہ جانے کہاں کسی کے گھر جا کر کھو گئی۔
اب کیا تھا اکبر کی ٹیم نے جیت گئی ، جیت گئی کے نعروں سے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ سبحان کی ٹیم نے خوشد لی سے ہار قبول کر لی کیونکہ یہ میچ کا اصول تھا کہ جو ٹیم گیند کو گما دے گی وہ ہاری ہوئی مانی جائے گی۔ سبحان نے اپنی ٹیم سے گیند کے لیے رقم جمع کر کے جیتنے والی ٹیم کے حوالے کر دی۔
شام ہو چکی تھی اور دادا جی بھی آ چکے تھے۔
دادا جی نے سبحان کی ٹیم کو خوشی سے ہار قبول کرنے پر شاباش دی۔ سورج کے ڈھلتے ہی سرد ہوائیں بھی چلنے لگیں۔
دادا جی نے سب بچوں کو آج نظم وضبط کے ساتھ میچ کھیلنے کی وجہ سے چاکلیٹ کے بجائے اپنی طرف سے چکن کارن سوپ پلانے کا اعلان کیا۔ بچے خوشی سے اچھلنے لگے، اور دادا جی کے ساتھ سوپ پینے چل پڑے۔ ابھی سب سوپ والے انکل کے ٹھیلے تک پہنچے ہی تھے کہ اتنے میں ایک نہایت بوڑھے اور کمزور سے بزرگ چھوٹی سی چھابڑی میں مونگ پھلی سجائی ان کے پاس آگئے اور گرم گرم موم پھلی خریدنے کے لیے صدا لگائی۔
وہ تقریبا’’ ۸۰ سا ل کے تو ہوں گے ہی، ان کے کپڑے بھی بہت بوسیدہ تھے اور دسمبر کی ٹھٹھرتی سرد ہوائوں کے مقابلے کے لیے بالکل بھی کافی نہ تھے۔ ٹوٹی پھوٹی چپل اور غمزدہ آنکھیں ان کی حالت زار صاف ظاہر کر رہی تھی۔
سب بچے انہیں دیکھ کربہت دکھی ہوئے کیونکہ تمام بچوں نے سردی سے بچائو کے لیے بہترین موٹی موٹی جیکٹیں ، موزے ، اور جاگرز پہن رکھے تھے۔ اور سردی بھگانے کے لیے گرما گرم سوپ بھی پینے والے تھے ،۔ جبکہ بابا جی کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ انہوں نے کئی دن سے شاید ٹھیک سے کھانا بھی نہ کھایا ہوگا۔
اکبر بہت زیادہ نرم دل تھا اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ، اس نے اپنی ٹیم سے مشورہ کر کے جیتی ہوئی گیند کی رقم ان بابا جی کو دینے کا فیصلہ کیا۔ پر وہ یہ دیکھ کر حیران ہو گئے کہ بابا جی نے مفت میں وہ رقمْ لینے سیانکار کر دیا اور کہا کہ ‘‘ بیٹا اللہ تعالیٰ نے جب مجھے ہاتھ پائوں دیئے ہیں کام کرنے کو تو میں محنت کر کے اپنی روزی کمانا چاہتا ہوں، آپ اس رقم سے مونگ پھلی خرید لیں تو مجھے اچھا لگے گا’’اور اللہ تعالیٰ بھی راضی ہوںگے ‘‘
بابا جی کے الفاظ سے سب بہت متاثر ہوئے کہ بڑھاپے میں اتنے مشکل حالات کے باوجود وہ اللہ کے شکر گزار تھے اور مفت کے پیسے لینے پر راضی نہ تھے، اکبر نے بابا جی سے ان پیسوں کی مونگ پھلی خریدی ، دادا جی نے بھی ان با ہمت بزرگ کی حوصلہ افزائی کے لیے بہت سی موم پھلی خریدی۔ سب لڑکوں نے دادا جی سے سوپ کے بجائے موم پھلی دلوانے کی فرمائش کر دی۔ اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے ان کی تمام مونگ پھلی بک گئی۔
بابا جی کے چہرے پر خوشی کی چمک آگئی اور وہ بچوں کو ڈھیروں دعائیں دیتے ہوئے چلے گئے۔
جب داداجی اور بچے واپس اپنے گھروں کی طرف جا رہے تھے توسچی خوشی اور مسرت سے ان کے دل جھوم رہے تھے۔