ہمارے ملک کے سیاست داں اتنے ذہین ہیں کہ شاید ہی دنیا کے کسی ملک میں اتنے ماہرِ سیاست ہوں۔ کس وقت کیا پینترا بدلنا ہے ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ سیاسی قلابازی ہو یا یوٹرن، سیاست کی ایک ایک چال اپنے مفاد میں استعمال کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کمال ہے۔ چٹکی بجاتے ہی اپنے ضمیر کے خلاف سودے بازی کرنا ان کے نزدیک سیاسی ڈیل سے زیادہ کچھ نہیں۔ اچھے حالات میں حُب الوطنی کا درس دیتے یہ قائدین ہر وہ سیاسی گُر جانتے ہیں جس سے ان کی ذاتی خواہشات کی تکمیل ہوسکے۔ ان کو غریب آدمی کی زندگی سے کوئی سروکار نہیں۔ سیاسی کھلاڑی اپنی اپنی باریاں لے کر کسی پرندے کی طرح اڑان بھرتے اور اُس وقت دیارِ غیر میں جا بستے ہیں جب سیاسی درجہ حرارت ان کی ذاتی زندگیوں میں حرارت پیدا کرنے لگے۔ دوسری صورت میں کسی سیاسی بیماری میں مبتلا ہوکر یہ رہنما اسپتال کا رخ کرلیتے ہیں جہاں وی آئی پی بیڈ روم ان کے لیے تیار کردیے جاتے ہیں۔ اسپتال میں ہر اُس سیاسی بیمار پر توجہ دی جاتی ہے جو مرضِ سیاست میں مبتلا ہوکر اسپتال آیا ہو۔ تمام عملہ ہم وقت ان کی خدمت کے لیے حاضر رہتا ہے۔ ان سیاسی بیماروں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ بیماری کی حالت میں ہر قسم کی ادویہ سے مکمل پرہیز کرتے ہیں، جبکہ حالاتِ حاضرہ پر پوری نظر رکھنا ان کی طبیعت میں اتار چڑھائو لاتا ہے۔ سیاسی حالات کی زیادہ خرابی ملک سے باہر علاج کروانے کا اشارہ ہوا کرتی ہے۔ کسی بھی اچھے ڈاکٹر کے مشورے پر عمل کرکے یہ سیاسی بیماری کے علاج کی غرض سے بیرونِ ملک جا پہنچتے ہیں۔ ان کو بیماری میں بھی دنیا کی تمام سہولیات میسر ہوا کرتی ہیں۔ کسی قسم کا پرہیز اس بیماری کے لیے ضروری نہیں۔ گھومنے پھرنے اور موج اڑانے سے سیاسی بیماری میں افاقہ ہونے لگتا ہے۔ اگر کسی غریب کو کوئی بیماری لاحق ہوجائے تو اُس پر اور اُس کے خاندان پر کیا گزرتی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے دنوں ہمارے ایک دوست کے بیٹے کی طبیعت خراب ہوگئی، بچے کو سانس لینے میں خاصی دشواری ہورہی تھی۔ بچہ تو بچہ ہوتا ہے، تکلیف اس قدر زیادہ تھی کہ اسے سنبھالنا مشکل تھا۔ اس کی تکلیف کی شدت کو دیکھتے ہوئے مقامی ڈاکٹر نے میرے دوست کو فوری ایک بڑے سرکاری اسپتال جانے کا مشورہ دیا۔ خالد بڑی تیزی دکھاتے ہوئے سرکاری اسپتال کی ایمرجنسی میں جاپہنچا۔ تکلیف کی وجہ سے بچہ بے حال تھا۔ ایمرجنسی کائونٹر پر موجود اسٹاف کا رویہ دیکھ کر خالد کے لہجے میں سختی آجانا فطری عمل تھا۔ وہ مسلسل ڈاکٹروں کی توجہ اپنے بیٹے کی جانب کروانے کی کوشش کرتا رہا۔ بقول خالد ’’ڈاکٹر جس غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کررہے تھے اسے دیکھ کر میں مسلسل کڑھتا رہا۔ جب میں نے ایک مرتبہ پھر کائونٹر پر بیٹھے شخص کو بچے کی تکلیف کے بارے میں بتایا تو وہ جھنجلا کر بولا ’’تمہیں نظر نہیں آتا کہ میں چائے پی رہا ہوں! ذرا صبر کرو، ابھی پرچی بنادیتا ہوں‘‘۔ خیر اللہ اللہ کرکے اس نے ایمرجنسی کی پرچی بناکر دی۔
میں چونکہ راستے میں تھا اس لیے اپنے دوست سے فون پر مسلسل رابطے میں رہا۔ میرے پاس اُسے تسلی دینے کے سوا کچھ نہ تھا۔ جس کا ڈر تھا وہی ہوا، میں ٹریفک جام میں پھنس گیا۔ میرے پاس اس صورت حال سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ تھا۔ میری گاڑی دیگر گاڑیوں کے ساتھ ٹریفک جام میں بُری طرح پھنسی ہوئی تھی۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اس عذاب سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ بلوچ کالونی پل کے اطراف کھڑی گاڑیاں، جن کی وجہ سے یہ سڑک شارع فیصل تک مکمل جام تھی، کئی گاڑیوں کا پیٹرول ختم ہوچکا تھا، لوگ بند گاڑیوں کے ساتھ سڑک پر کھڑے تھے اور سڑک پر کھڑی گاڑیوں کی ترتیب بگڑی ہوئی تھی، اس صورت میں یہاں سے نکلنا مشکل ترین لگ رہا تھا۔ میری پریشانی بڑھتی جارہی تھی، میں دل میں دعائیں کرتا رہا کہ خدایا، اس مشکل سے نجات دلا، مجھے اپنی منزل تک بخیریت پہنچا۔ مجھے ٹریفک پولیس و انتظامیہ پر کسی قسم کا یقین نہ تھا، اور ہوتا بھی کس طرح! اگر انتظامیہ موجود ہوتی تو اعتبار کرتا۔ یہاں تو دور دور تک کوئی بھی اہل کار نظر نہ آتا تھا۔ میرے ساتھ اگر کچھ تھا تو خدا پر یقین اور ایمان تھا کہ وہی ہے جو ہمیں یہاں سے نکالے گا۔ میں سوچ رہا تھا کہ کراچی کی سڑکوں پر نہ جانے کتنے مریض اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملتے ہیں۔ ٹریفک پولیس کی نااہلی کی وجہ سے یہاں روز درجنوں افراد ائیرپورٹ نہ پہنچنے کی وجہ سے بیرونِ ملک جانے سے رہ جاتے ہیں، نہ جانے کتنے طلبہ روز شروع کے پیریڈ سے محروم ہوجاتے ہیں، مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے والے محنت کش وقتِ مقررہ پر اپنے کام کی جگہ تک نہیں پہنچ پاتے۔
خیر اللہ نے میری دعائیں سنیں اور میں کچھوے کی چال چلتا ہوا جناح اسپتال کراچی جا پہنچا۔ جہاں ایمرجنسی وارڈ میں داخل اپنے دوست کے بیٹے کو دیکھ کر اسپتال میں قائم آرام گاہ یا انتظار گاہ کی جانب چل پڑا جہاں سینکڑوں افراد زمین پر لیٹے ہوئے دکھائی دیے۔ میں ان لوگوں کے درمیان جا بیٹھا جہاں چاروں طرف گندگی کے ڈھیر سے اٹھتی بدبو نے بیٹھنا دوبھر کردیا۔ غریب لوگوں کے درمیان بھاگتے موٹے موٹے چوہے وہاں کے مستقل مکین تھے۔ غلاظت پھیلاتی بلیوں کی صحت دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ اسپتال کی انتظامیہ کو انسانوں سے زیادہ خطرناک جانوروں کی صحت عزیز ہے۔ ہر طرف مکھیاں مچھر اڑتے دیکھے جا سکتے تھے۔ گندگی کے درمیان غریب مریضوں کے اہلِ خانہ کس اذیت کا شکار تھے، اس کا حال بیان کرتے ہوئے ایک شخص نے بتایا کہ: میں گزشتہ ایک ماہ سے اسپتال میں موجود ہوں، غریب ہونے کی وجہ سے یہاں پڑا ہوں اور لوگوں کی دی ہوئی روٹی کھاکر گزارہ کرلیتا ہوں، اسپتال انتظامیہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی ہم غریبوں کے ساتھ تعاون نہیں کرتی، بڑی بڑی پرچیاں بناکر مجھ جیسے غریب آدمی کو میڈیکل اسٹور کے چکر لگوائے جاتے ہیں، ایک ٹیبلٹ تک حکومت غریبوں کو نہیں دیتی، بس نام کا اسپتال ہے۔ میں اندرون سندھ سے اپنے بچے کے علاج کے لیے آیا تھا لیکن یہاں تو پرائیویٹ اسپتالوں جیسی صورت حال ہے۔ حکومت روز دعویٰ کرتی ہے کہ عوام کو سہولیات مل رہی ہیں۔ مجھے تو سوائے پریشانی کے کچھ بھی نہیں ملا۔ علاج کروانا بھی بڑے لوگوں کا کام ہے، یہ غریب آدمی کے بس کی بات نہیں۔ ہم گندگی کے ڈھیر پر بیٹھ کر رات گزارتے ہیں اور حکمران اپنے محلوں میں مزے کی زندگی گزارنے میں مصروف ہیں۔ میرا آبائی علاقہ نواب شاہ ہے۔ سندھ حکومت دعوے تو بہت کرتی ہے، کوئی مجھ سے بات کرے تو میں بتائوں کہ زرداری صاحب کے علاقے کا ہونے کے باوجود آج مجھے کراچی آکر دربدر ہونا پڑرہا ہے۔ اگر سندھ حکومت نے کوئی کام کیا ہوتا تو کم سے کم میں اپنے علاقے میں اپنے بچے کا علاج کرواتا۔ سب کچھ کھا گئے ہیں یہ لوگ، اور عوام کو بے وقوف بناتے ہیں۔ غریب کا کوئی ساتھی نہیں۔ مختلف لوگ یہاں آکر ہمیں کھانا دے جاتے ہیں، حکومت نے ہمیں فقیر بنا کر رکھ دیا ہے۔ میرے پاس پیسے نہیں، کسی کی روٹی کھاتے مجھے بہت دکھ ہوتا ہے، میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا ہے۔ وہ حکومت کیا کرے گی جو غریب کے علاج کے لیے اسپتال تک نہ دے سکے!‘‘
اس شخص کی باتیں سن کر میرا دل بیٹھا جا رہا تھا۔ مجھے یہ باتیں سن کر اُس سے ہمدردی ہورہی تھی۔ وہ سادہ اور سچا انسان تھا۔ اُس کے قریب بیٹھے زیادہ تر لوگ اندرون سندھ سے آئے ہوئے تھے جو مجھے اپنے اوپر گزرنے والی تکالیف بتاتے رہے۔ غریب لوگوں کی داستانیں سن کر مجھے حکومتِ سندھ کی کارکردگی پر بہت افسوس ہورہا تھا۔ اتنے بڑے اسپتال میں لوگوں کے ساتھ ہوتا خراب سلوک، اسپتال انتظامیہ کا غریبوں کے ساتھ عدم تعاون حکمرانوں کی بے حسی نہیں تو اور کیا ہے! میں سوچ رہا تھا کہ جو حکومت غریب لوگوں کو بنیادی سہولیات تک نہ دے سکے وہ بھلا کوئی بڑا کام کس طرح کرسکتی ہے! میں ان غریبوں کی باتیں سن رہا تھا کہ میرے دوست خالد نے آکر بتایا کہ اس کے بیٹے کی طبیعت اب بحال ہوگئی ہے۔ میرے لیے یہ خوش خبری بھی کئی سوالات لے کر آئی۔ اگر بچے کا یہ مسئلہ دس سے پندرہ منٹ کا تھا تو پھر اس غریب کو کئی گھنٹے کس جرم کی سزا دی گئی؟ یہ کام بروقت کیا جا سکتا تھا۔ اتنی سست روی کا مظاہرہ کیوں کیا گیا؟ کیا میرے ساتھ بیٹھے غریبوں کو بھی اسی طرح بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا ہے یا پھر کوئی اور بات ہے؟ میں جب تک وہاں رہا، دیکھتا رہا کہ جس کا کوئی والی وارث نہیں اُس کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ تعلقات ہونے پر ہی فوری علاج ہوسکتا ہے، وگرنہ غریب آدمی کے نصیب میں دربدر کی ٹھوکروں کے سوا کچھ نہیں۔ اسپتال سے باہر کی صورت حال بھی کچھ ایسے ہی حالات بتا رہی تھی۔
سرکاری اسپتال کے سامنے مضر صحت اشیاء کی فروخت جاری تھی۔ ٹوٹی ہوئی سڑک پر دھول مٹی اس قدر تھی کہ سانس لینا دشوار ہورہا تھا۔ اس ماحول میں ٹھیلے پر کھانے پینے کی چیزوں کا کھلے عام فروخت ہونا بیماری بانٹنے کے سوا کچھ نہ تھا۔ گندے برتنوں میں مضر صحت اشیاء کی فروخت پر انتظامیہ کی خاموشی سب کچھ بتا رہی تھی۔ چند قدم آگے ہی اسپتال کے مرکزی دروازے پر سیوریج کا گندا پانی کسی تالاب کا منظر پیش کررہا تھا۔ کراچی کی اس اہم شاہراہ پر جہاں شہر کے بڑے اسپتال قائم ہیں، چپے چپے پر گندگی اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیر دکھائی دے رہے تھے۔
اس صورت ِحال میں عوام سوچتے ہیں کہ ایک طرف سیاست دان حکومتوں کے مزے لوٹنے میں مصروف ہیں، دنیا کی ہر آسائش صرف حکمرانوں کے لیے ہی ہے، اس صورت حال میں کون عوام کو بنیادی سہولیات دے گا؟ علاج کی غرض سے آئے مریض کب تک سسکتے رہیں گے؟ اس ملک کی اشرافیہ کب تک غریبوں پر ظلم کرتی رہے گی؟ کب تک عوام کی دولت پر عیش کرتی رہے گی؟ ذاتی اقتدار کی لڑائیوں میں مصروف سیاسی رہنما کب عوام کے حقوق کی جنگ لڑیں گے؟ خدارا اس ملک اور اس کے غریب عوام پر رحم کیجیے، غریبوں کو کم سے کم بنیادی سہولیات دے دیجیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ مظلوموں کی آہیں آسمان کو چھو لیں اور اللہ ان کی رسّی اس طرح کھینچ لے کہ وہ رہتی دنیا تک عبرت کا نشان بن جائیں!!۔