سیدہ عنبرین عالم
صائم 7 سال کا تھا جب اُس کے والد ایک ایکسیڈنٹ میں گزر گئے۔ اس کی والدہ جمیلہ بیگم اس صدمے سے ہل کر رہ گئیں، صرف 28 سال کی عمر میں بیوگی کا جھٹکا! غنیمت تھا کہ گھر اپنا تھا، تین کمرے نیچے، تین کمرے اوپر۔ برابر میں ہی صائم کے تایا، تائی کا گھر تھا۔ جمیلہ نے یہی سوچا کہ اوپر کی منزل کرائے پر چڑھاکر گزارہ ہوتا رہے گا، سو صائم کے تایا اکبر صاحب نے ان کو کرایہ دار دلوا دیے۔ حیرت کا پہلا جھٹکا جمیلہ کو اُس وقت لگا جب کرایہ دار سے 40 ہزار روپے کرایہ اکبر صاحب نے وصول کرلیا اور جمیلہ کو صرف 10 ہزار تھما دیے۔ کرایہ دار بھی ایسا ڈھیٹ تھا کہ کہنے لگا ’’ہم نے اکبر صاحب سے کرائے پر گھر لیا ہے، انہی کو کرایہ دیں گے‘‘۔ پتا نہیں بالا ہی بالا کیا معاہدے ہوگئے تھے! ابھی اس واقعے کو ہفتہ بھر نہیں گزرا تھا کہ اکبر صاحب جمیلہ کے لیے ایک صاحب کا رشتہ لے کر آگئے۔
’’جمیلہ! تم میری بیٹی جیسی ہو، اتنی کم عمری میں بیوہ ہوگئیں، میں تو تمہاری شادی کروا کر رہوں گا، یہی اللہ اور اس کے رسولؐ کا حکم ہے، صائم کو تو ہم پال لیں گے، تم فکر نہ کرو، جہاں میرے تین بیٹے اور دو بیٹیاں پل رہے ہیں، یہ بھی پل جائے گا۔‘‘ اکبر صاحب نے فرمایا۔
جمیلہ دہل کر رہ گئی۔ ’’آج آپ رشتہ لے آئے ہیں، آئندہ کوشش ہرگز نہ کیجیے گا، میں زندہ ہوں تو میرے بیٹے کو آپ کیوں پالیں گے! میں اپنے بچے پر سوتیلے باپ کا سایہ بھی نہیں پڑنے دوں گی، اللہ میرا وارث ہے۔‘‘ جمیلہ نے کہا تو اکبر صاحب تلملا کر رہ گئے اور دھمکیاں دیتے ہوئے چلے گئے۔ اصل میں اُن کا ارادہ صائم کے گھر پر قبضہ کرنے کا تھا۔
صائم چھوٹا ضرور تھا مگر سب کچھ سمجھتا تھا۔ اب آج کل کے بچے پہلے کے بچوں جیسے بے عقل تو ہوتے نہیں۔ دیکھتا تھا کہ تایا کے گھر میں قدم رکھتے ہی اس کی ماں سہم جاتی ہے۔ وہ گھر میں تنگی بھی محسوس کررہا تھا۔ تین ٹائم چائے سے تندور کی روٹی کھا کر ماں بیٹے گزارہ کررہے تھے۔ دس ہزار میں جمیلہ بجلی، گیس کے بل دیتی، صائم کی اسکول فیس دیتی یا گھر چلاتی؟ کبھی گھر سے باہر قدم نہیں رکھا۔ جمیلہ کو کالج میں بھی ابو چھوڑتے اور لاتے تھے، پھر شوہر نے گھر کی رانی بنا کر رکھا۔ دنیا میں نکل کر کیسے دو وقت کی روٹی کمانی ہے، اندازہ ہی نہیں تھا۔ صائم دو سال کا تھا تو اس کے نانا کا انتقال ہوگیا۔ دو بھائی تھے جمیلہ کے، تو وہ تو اپنی ماں کے خرچے اٹھانے کو تیار نہیں تھے۔ جمیلہ اور اس کے بیٹے کی زندگی اس گھر میں غلاموں جیسی ہوتی۔ یعنی جمیلہ کو کوئی راستہ سُجھائی نہیں دیتا تھا۔ صرف انٹر سائنس کیا تھا اور شادی ہوگئی تھی، اب وہ کسی لائق نہیں تھی۔
’’امی! میں بڑا ہوجائوں گا تو تایا ابو کی خوب پٹائی کروں گا، ان سے اپنے سارے پیسے واپس چھین لوں گا اور ان کو اتنا غریب کردوں گا کہ وہ روز چائے اور نان کھائیں، وہ بہت برے ہیں۔‘‘ صائم نے کہا۔
جمیلہ مسکرا اٹھی۔ ’’آپ تو پتا نہیں کب بڑے ہوگے، لیکن اللہ میاں سب سے بڑا ہے۔ آپ ایسا کرو کہ اپنے اللہ میاں سے تایا ابو کی شکایت کردو، پھر اللہ خود ہی آپ کو آپ کے پیسے دلوا دے گا۔‘‘ اس نے کہا۔
’’اچھا…!‘‘ صائم کو حیرت ہوئی کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ ’’ٹھیک ہے، ابھی بتاتا ہوں اللہ میاں کو‘‘۔ وہ جائے نماز بچھا کر بیٹھ گیا اور بآوازِ بلند اپنے اللہ سے باتیں کرنے لگا ’’اللہ میاں! تایا ابو ہم کو بہت تنگ کررہے ہیں، آپ نے تو دیکھا ہوگا، وہ ہر مہینے ہمارے پیسے بھی لے جاتے ہیں، امی سے لڑتے ہیں، اور تائی امی کو بھی مارتے ہیں، امی بھی روتی ہیں اور تائی امی بھی روتی ہیں۔ آپ تایا ابو کو سزا دیں۔ ہمارے پاس کھانا بھی نہیں ہے، ہمیں اچھا اچھا کھانا دے دیں اور بہت سارے پیسے دے دیں، ٹھیک ہے ناں اللہ میاں؟‘‘ وہ بولا۔ اب وہ انتظار کرنے لگا کہ اللہ تعالیٰ کا جواب آئے گا۔ خاصی دیر بعد جمیلہ سے شکوہ کیا کہ اللہ میاں نے جواب نہیں دیا۔
جمیلہ نے قہقہہ لگایا ’’ارے اللہ نے آپ کی دُعا سن لی ہے۔‘‘
’’اچھا! ٹھیک۔‘‘ صائم نے کہا۔
’’اللہ تعالیٰ بچوں سے بہت پیار کرتا ہے، وہ آپ کی دعا ضرور سنے گا۔‘‘ جمیلہ نے سمجھایا۔ صائم مطمئن ہوگیا اور دعا پوری ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
تین دن گزرے تھے کہ دوپہر کے وقت تائی امی اُس کے گھر آئیں۔ تایا نے اپنے بیوی بچوں کو جمیلہ سے ملنے سے منع کررکھا تھا، تایا گھر پر نہیں تھے تو تائی امی موقع دیکھ کر آگئیں۔ دونوں گلے مل کر خوب روئیں۔ وہ ایک ہی شخص کے ظلم کا شکار تھیں۔
’’جمیلہ! میں اپنے شوہر کے گناہوں میں شریک نہیں ہوں، میرے نبیؐ یتیم تھے، میں بھلا کیسے کسی یتیم پر ظلم کرسکتی ہوں! تم مجھے اور میرے بچوں کو بددعا مت دینا، ہم حرام نہیں کھانا چاہتے، اللہ ہمیں معاف کرے، تم بھی ہمیں معاف کردو‘‘۔ وہ گڑگڑا کر بولیں۔
’’ارے نہیں بھابھی! آپ سے ہمیں کوئی شکایت نہیں، جو بھی سختی ہے اللہ رب العزت کی طرف سے آزمائش ہے، اُس کی مرضی کے بغیر تو پتّا بھی نہیں ہلتا، بھلا کس کی مجال تھی کہ ہمیں تنگ کرے! ‘‘ جمیلہ نے کہا۔
’’اچھا اب بات سنو۔ کل میری بہن تمہارے پاس آئے گی، وہ نرسنگ کورس میں داخلہ لے رہی ہے، تم اپنے کاغذات تیار رکھو، اُس کے ساتھ نرسنگ میں داخلہ لو، کورس کے سارے اخراجات میرے ذمے۔ صبح صائم کے ساتھ تم بھی نکل جایا کرنا، جب اس کے اسکول کی چھٹی ہوگی، تمہارے بھی کالج کی چھٹی ہوگی، دونوں ساتھ آجانا، اور میں پیچھے کی دیوار میں سوراخ کروا دوں گی، آج مزدور بلا لیا ہے، چھوٹی سی کھڑکی بن جائے گی، وہاں سے تمہیں تین ٹائم کھانا دے دوں گی، تم صرف پڑھائی پر دھیان دینا۔ کل تمہارے جیٹھ نے مجھے تندور کی روٹیاں بھیجتے دیکھ لیا، اس لیے اب وہ ممکن نہیں۔ اسٹور میں سے کھڑکی تمہارے گھر میں کھولوں گی‘‘۔ تائی امی نے کہا۔
جمیلہ حیرت سے یہ سب سن رہی تھی۔ پھر جیٹھانی نے 12 پرانے سوٹ جمیلہ کو دیے جو ایک آدھ بار کے ہی پہنے ہوئے تھے، ساتھ ہی 50 ہزار روپے نقد دیے کہ ایڈمیشن فیس، کتابیں، یونیفارم، آنے جانے کا روز کا کرایہ اور گھر میں مرمت کا خاصا کام تھا، یہ سب ہوجائیں۔ خوب معافیاں مانگیں اور چلی گئیں۔ جمیلہ نے فوراً دو رکعت نفل شکرانے کے پڑھے کہ کوئی سبیل پیدا ہوگئی۔
’’صائم! بیٹا جائو اپنے اللہ کو بتادو کہ جو کچھ انہوں نے ہمارے لیے بھیجا تھا وہ تائی امی دے گئی ہیں، اور شکریہ بھی ادا کردینا۔ اور یہ بیس روپے ہیں، فوراً صدقہ کردینا‘‘۔ جمیلہ نے کہا۔
صائم حیران سا تھا، اُسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اُس کی دعا قبول ہوگئی ہے۔ وہ باہر گیا، مسجد کے ڈبے میں بیس روپے ڈالے اور وہیں پر دعا کرنے بیٹھ گیا ’’میرے پیارے اللہ میاں! آپ کا بہت شکر ہے، آپ بہت اچھے ہیں۔‘‘
اگلے ہی دن تایا ابو نے تین بکریاں لاکر ان کے لائونج میں باندھ دیں، کہنے لگے ’’تم دو تو لوگ ہو اور اتنا بڑا گھر، یہاں گنجائش ہے بکریاں رکھنے کی۔ ہمارا تمہارے جتنا ہی گھر اور 7 بندے رہنے والے، گنجائش نہیں ہے، اپنے ہی اپنوں کے کام آتے ہیں، ہماری چھت اور تمہاری چھت تو ہمارے اور تمہارے کرایہ داروں کے پاس ہی ہے، تم بھی دودھ لینا، اس بہانے خالص دودھ پیوگی۔‘‘
دودھ تو جمیلہ کو کیا لینا تھا، بدبو اور گندگی نے جینا حرام کردیا، اوپر سے صبح شام اکبر صاحب دودھ دوہنے کے بہانے گھر میں گھس آتے۔ کوئی ٹائم نہیں تھا، کبھی بھی آجاتے۔ ہر چیز پر ٹوکتے، یہ ایسا کیوں؟ وہ ویسا کیوں؟ تائی امی جو کھانا دیتیں وہ بھی چھپا کر رکھنا پڑتا۔ پانی پینے کے بہانے باورچی خانے میں گھس جاتے۔
جمیلہ کا نرسنگ کا جب ایک سال پورا ہوگیا تو ڈیوٹیاں لگنے لگیں اور تھوڑی بہت تنخواہ بھی ملنے لگی۔ مگر اب جمیلہ کے اختیار میں نہیں تھا، کبھی بھی ڈیوٹی لگ جاتی اور صائم گھر میں اکیلا ہوجاتا۔ جمیلہ کو اکبر صاحب سے خوف آتا کہ جائداد کے چکر میں کہیں وہ صائم کو نقصان نہ پہنچا دیں۔ اکبر صاحب کو جمیلہ نے یہی کہہ رکھا تھا کہ اس کے بھائی مدد کرتے ہیں۔ ورنہ وہ بہت پریشان تھے کہ جمیلہ کا گھر کیسے چل رہا ہے؟ اُن کا تو یہی خیال تھا کہ ہاتھ میں پیسہ نہیں ہوگا تو جمیلہ تنگ آکر گھر چھوڑ کر چلی جائے گی۔ مگر تائی امی نے جمیلہ کو اپنی قسم دے کر کہا کہ جو چاہے ہوجائے، گھر ہرگز چھوڑ کر نہ جانا، یہ تمہارا اور تمہارے بچے کا حق ہے۔
ایک روز جمیلہ ڈیوٹی پر گئی ہوئی تھی، تائی امی گھر آئیں، صائم اکیلا تھا، اُسے کھلا پلا کر سلا دیا اور خود صفائی کرنے لگ گئیں۔ صفائی کرکے جا ہی رہی تھیں کہ بجلی چلی گئی۔ گھر بند قسم کا تھا، دن میں بھی اندھیرا ہوگیا۔ ان کے بچے تو بڑے تھے، سوچا صائم اندھیرے میں ڈر نہ جائے، اس کے پاس ہی سوگئیں۔ اچانک کھٹر پٹر کی آواز سے اُن کی آنکھ کھلی۔ باہر جاکر دیکھا تو کنڈی کھڑکائی جارہی تھی۔
’’صائم دروازہ کھولو، میں تمہارا تایا ابو ہوں‘‘۔ آواز آئی۔
تائی امی گھبرا گئیں، آئو دیکھا نہ تائو، بھاگ کر صائم کو گود میں اٹھایا اور باورچی خانے کی طرف بھاگیں، الماری ہٹا کر اپنے بیٹے کو آواز دی اور اس چھوٹی سی کھڑکی سے صائم کو اپنے گھر اپنے بیٹے کی طرف منتقل کرنے لگیں صائم نیند سے پوری طرح جاگا بھی نہ تھا اور کھڑکی بہت چھوٹی تھی، اسے کئی خراشیں آئیں۔ مگر تائی امی کے بیٹے نے اسے دوسری طرف کھینچ لیا۔ تائی امی نے فوراً الماری ٹھیک کی اور دروازے کی طرف گئیں۔ اسی وقت اکبر صاحب دروازہ توڑ کر تین ڈھاٹا پوش غنڈوں کے ساتھ اندر داخل ہوئے۔ گھر میں بدستور اندھیرا تھا، وہ تائی امی کو مار پیٹ کر صائم کا پوچھنے لگے۔ پورے گھر میں صائم کو ڈھونڈا، وہ نہ ملا تو تائی امی پر اس قدر تشدد کیا کہ وہ بے ہوش ہوگئیں۔ اکبر صاحب کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ جمیلہ نہیں بلکہ ان کی اپنی بیوی ہے۔ آخرکار وہ لوگ فرار ہوگئے۔
اکبر صاحب گھر نہ گئے، یوں صائم محفوظ رہا۔ جمیلہ جب گھر پہنچی تو دروازہ ٹوٹا ہوا۔ اندر گئی تو تائی امی خون میں لت پت پڑی ہوئی تھیں۔ فوراً اسپتال منتقل کیا گیا، مگر زیادہ خون بہہ جانے سے جانبر نہ ہوسکیں۔
اکبر صاحب کو سکتہ ہوگیا، انہیں یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ جمیلہ کے دھوکے میں اپنے گھر کی جنت اجاڑ بیٹھے۔ ان کے بڑے بیٹے نے تو جنازہ کے اوپر ہی باپ کو کھری کھری سنائی، بس اسے یہ اندازہ تھا کہ باپ کا کچھ نہ کچھ ہاتھ ضرور ہے، یہ تو اس کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ باپ ہی اس کی فرشتوں جیسی ماں کا قاتل ہے۔
تین دن بعد اکبر صاحب جمیلہ کے گھر آئے ’’میں نے تو ناہید کو تمہارے ہاں آنے سے منع کررکھا تھا، پھر وہ بھلا تمہارے گھر میں کیا کررہی تھی! اگر وہ یہاں نہ ہوتی تو نہ ماری جاتی‘‘۔ وہ ڈبڈبائی آنکھوں سے بولے۔
’’وہ اس لیے یہاں تھیں کیوں کہ بعض عورتیں شوہر کے حکم سے زیادہ اللہ کا حکم مانتی ہیں‘‘۔ جمیلہ نے جواب دیا۔
اکبر صاحب نے زخمی نظروں سے جمیلہ کو دیکھا۔ ’’یہ رہے تمہارے گھر کے کاغذات، مجھے معاف کردینا‘‘۔ انہوں نے جمیلہ کے گھر کے کاغذات واپس کیے۔ صائم کے سر پر ہاتھ رکھا اور اپنی بکریاں لے کر چلے گئے۔
’’امی! اس سے پہلے کہ تایا ابو کا غم ٹوٹے، اور وہ اپنی اصلیت پر لوٹ جائیں، یہ گھر بیچو اور بھاگو یہاں سے، ایسی جگہ جس کی تایا ابو کو بالکل خبر نہ ہو‘‘۔ صائم نے کہا۔ جمیلہ حیران رہ گئی۔
’’تمہیں یہ خیال کیسے آیا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’مجھے میرے دوست اللہ نے بتایا ہے۔‘‘
کچھ ہے عرصے میں گھر بیچ کر جمیلہ اور صائم ایک محفوظ فلیٹ میں منتقل ہوگئے۔ جمیلہ کی بڑے اچھے اسپتال میں نوکری لگ گئی تھی، مناسب آمدنی تھی، جاتے جاتے بھی تائی امی جمیلہ کو اپنے پیروں پر کھڑا کر گئی تھیں۔ جمیلہ نے اپنے بھائی بھابھیوں سے تعلقات نہ رکھے مگر تائی امی کے بچوں سے ہمیشہ رابطہ رکھا۔ اکبر صاحب نے کچھ ہی عرصے میں دوسری شادی کرلی، مگر اس بیوی نے ان کی کوئی بھی زیادتی برداشت کرنے سے انکار کردیا اور ناکوں چنے چبوا دیے۔ بچے بھی باپ کو جانتے تھے اس لیے سوتیلی ماں کا ہی ساتھ دیتے۔ اکبر صاحب بیمار رہنے لگے اور پھر بستر کے ہی ہوکر رہ گئے۔ ان کی حیثیت گھر کے متروک سامان سے زیادہ نہ تھی۔ اللہ نے صائم کی دعا سن لی تھی اور اکبر صاحب کو سزا دے دی تھی۔