فرخندہ شہاب
(بنت ِ پروفیسر عبدالغفور احمد)
اکتوبر 2008ء میں والدہ کے انتقال کے بعد ہمارے والد محترم نے ہم سب بہن بھائی کا ماں کی طرح خیال رکھنا شروع کردیا تھا۔ ابا جی کا ہم سب بہن بھائی کے ساتھ گھل مل کے بیٹھنا اور ہر موضوع پر آپس میں گفتگو کرنا روز کا معمول ہوگیا تھا۔ کوشش ہوتی تھی کہ ہم سب بہن بھائی رات کا کھانا ابا جی کے پاس ہی کھائیں۔ کھانے کی میز پر ابا جی کے ساتھ سیاسی اور غیر سیاسی سب ہی باتیں ہوتی تھیں۔ ایک دن ابا جی نے اچانک مجھ سے پوچھا ’’فرخندہ تم نے حج کیا ہے؟‘‘
میں نے کہا ’’نہیں… ابا جی آپ اللہ سے ہمارے لیے دعا کریں، اللہ ہمیں بھی حج کی سعادت نصیب کرے، ہمیں بھی بیت اللہ دیکھنے کا شرف حاصل ہو۔‘‘
ابا جی نے سر ہلایا اور کہا ’’میں اللہ سے ضرور دُعا کروں گا۔‘‘
ابا جی سے دُعا کا کہہ کر میں بے فکر ہوگئی کہ ان شاء اللہ اب اللہ ضرور اپنے گھر بلائے گا اور ہم بھی حج کرنے والے خوش نصیبوں میں شامل ہوجائیں گے۔ امی کہا کرتی تھیں کوئی خاص دُعا کروانی ہو تو باپ سے کہا کرو، کیوں کہ ماں تو ویسے بھی ہر وقت ہر بچے کے لیے نرم دل رکھتی ہے، اللہ باپ کی دعا ضرور سنتا ہے۔ اور باپ بھی وہ جسے دنیا پروفیسر عبدالغفور احمد کے نام سے جانتی ہے، جن کی سادگی، شرافت، شائستگی، وضع داری اور منکسر المزاجی کا زمانہ قائل ہے، جن کے نزدیک سیاست منافع بخش کاروبار کے بجائے مسلسل خدمت، ریاضت اور مشقت کا نام تھا۔ ابا جی فطرتاً فقیر منش اور سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا، ابا جی کو نفلی روزے اور پانچوں وقت باجماعت نماز ادا کرتے دیکھا۔ سردی، گرمی یا کوئی موسم ہو، یا کراچی کے حالات خراب ہوں، ابا جی کو پیدل مسجد جاتے دیکھا۔
ابا جی 16 سال کی عمر میں جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ ہوئے اور 85 سال کی عمر تک ثابت قدمی سے جماعت اسلامی کا ساتھ نبھاتے رہے۔ ابا جی کی جماعت اسلامی کے ساتھ وابستگی پر عبدالحکیم ناصف صاحب نے کیا خوب کہا ہے:۔
جماعت کو ہمیشہ متحد رکھنا تھا عزم اُن کا
جماعت کی جماعت تھے پروفیسر غفور احمد
ابا جی دسمبر 2012ء میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اللہ ہمارے والدین اور تمام مرحومین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے،آمین ثم آمین۔ میری دُعا ہے جماعت اسلامی میں پھر سے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد اور پروفیسر عبدالغفور احمد جیسے رہنما پیدا ہوں، آمین۔
ابا جی کی سیاسی بصیرت، تحمل مزاجی اور خوش اخلاقی پر عبدالحکیم ناصف نے کہا تھا کہ:۔
سدا فہم و فراست سے چمکتا تھا وجود اُن کا
بزرگ ایک خوب صورت تھے پروفیسر غفور احمد
الحمد للہ اس سال اللہ نے ہمیں حج پر بلایا۔ جب شہاب نے مجھے بتایا کہ حج پر جانے والوں کی فہرست میں ہمارا نام آگیا ہے، حج پر جانے کی تیاری کرو تو بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ سب سے پہلے شکرانے کے نفل ادا کیے، نفل کی ادائیگی کے بعد ایسا لگا کہ امی اور ابا جی دیکھ کے مسکرا رہے ہیں۔ سچ ہے ماں باپ ساتھ ہوں یا نہ ہوں، اُن کی دعائیں ہر وقت اپنے بچوں کے ساتھ ہوتی ہیں۔ اللہ کے کرم اور والدین کی دعائوں کے طفیل ماشاء اللہ سفر پر، ہر ہر قدم پر راستے آسان ہوتے چلے گئے اور فریضہ حج ادا ہوا۔ دُعا ہے اللہ سب کا حج قبول و مقبول کرے، آمین۔ اور ہماری ہر نیکی کا ثواب ہمارے والدین اور تمام مرحومین کو پہنچتا رہے، آمین۔