انشال راؤ
جس طرح مودی کے بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو حقوق و آزادی کے حصول کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا بالکل اسی طرح پاکستان نیا ہو یا پرانا بالخصوص سندھ میں میرٹ کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، گذشتہ کئی دہائیوں سے میرٹ کی بحالی اور میرٹ کی پامالی کے دعووں کو لیکر حکومتوں و اپوزیشن کے مابین لفظی جنگ چلی آرہی ہے لیکن ہمیشہ سے پاکستان بالخصوص سندھ میں میرٹ کا جنازہ ہی نکلتا آرہا ہے، موجودہ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ حکومت میرٹ اور شفافیت پر یقین رکھتی ہے لیکن حکومت شاید بھول رہی ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی، اسی بات کا فائدہ اٹھا کر سندھ سرکار نے تو جدید بادشاہت کا نفاذ کر رکھا ہے، اٹھارہویں ترمیم کے فوراً بعد بادشاہ سلامت سندھ نے کراچی کے شہری اختیارات کے علاوہ یونیورسٹیز اور سندھ پبلک سروس کمیشن SPSC کو گورنر کی بجائے وزیراعلیٰ کے ماتحت کرلیا جس کے بعد سندھ کی سرزمین پر دھوم دھام سے میرٹ کا جنازہ نکالا گیا کہ اب اسے میرٹ کا قبرستان قرار دیا جاسکتا ہے۔
اگر اس ابتری کا جائزہ لیا جائے تو اس کا لائسینس ایک طرف تو ریاست کے نظام نے دے رکھا ہے جبکہ دوسرا اسے عدلیہ نے جائز قرار دے رکھا ہے کیونکہ یہ جسٹس صاحبان ہی ہیں جو خائن بیوروکریٹس کے ساتھ نرم رویہ رکھتے ہیں جسکے نتیجے میں وہ کھل کر اندھیر نگری چوپٹ راج کو شد و مد کے ساتھ جاری رکھتے ہیں، کاش اگر سپریم کورٹ کے جسٹس صاحب SPSC کے ان افسران و ممبران کو عبرتناک سزا دے دیتی تو آج ایک بار پھر سے اہل افراد عدالت کے دروازے کھٹکھٹانے پہ مجبور نہ ہوتے، ہوتے، 2017 میں سپریم کورٹ نے SPSC میں میرٹ کے برخلاف بھرتی ممبرز کو باعزت واپسی کا راستہ دیا اور کمبائن کمپیٹیٹو ایگزام 2013 کو مختلف غیرقانونی و میرٹ کی دھجیاں اڑانے کی وجوہات کی بنا پر دوبارہ کروانے کا حکم دیا لیکن دلچسپ بات دیکھیں اس پورے کیس میں کسی ممبر یا افسر کو بدعنوانی و خیانت پر سزا نہیں دی گئی حتیٰ کہ کنٹرولر SPSC جمعہ خان چانڈیو کو بھی واپس سبجیکٹ اسپیشلسٹ بنادیا جبکہ وہ شخص لاکھوں خاندانوں کے مستقبل سے کھیل چکا تھا، ہزاروں نااہل افراد کو بھرتی کرنے والے SPSC کے ممبران و افسران کو بخش دیا گیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان ہزاروں نااہل بھرتی افراد نے اگلے تیس سال پاکستان کی ایسی تیسی کرنی ہے لیکن اس کے باوجود کسی کو سزا نہیں دی گئی الٹا ان غریب و اہل افراد کو بھینٹ چڑھادیا گیا جو محنت کرکے پاس ہوگئے تھے، ایسے میں جہاں سزا کا تصور ہی نہ ہو تو بھلا کوئی سوچ سکتا ہے کہ بدعنوانی اور خیانت رک پائے گی۔
ایک بار پھر سندھ پبلک سروس کمیشن میں میرٹ کا قتل عام ہونے پہ اہلیت سراپا احتجاج ہے اور اہل افراد انصاف کے حصول و میرٹ کے لیے عدالت کا سہارا لینے پہ مجبور ہیں لیکن ہوگا وہی جو روایت ہے متعدد پیشیاں ہوں گی۔ نظام بدستور کھڈے لائن ہی لگا رہے گا، ذرا سوچیے کہ اگر عدلیہ دو تین بڑے افسران کو جرم ثابت ہونے پہ کڑی سزا دے دے تو پھر کوئی افسر بدعنوانی و خیانت کرے گا؟ کبھی نہیں۔ ذرا سوچیے جب سابق کنٹرولر جمعہ چانڈیو پہ جرم ثابت ہوا اور اس کی بھرتی بھی میرٹ کے خلاف ثابت ہوگئی اس کے اثاثوں میں بھی بغیر کسی زریعے کے لاکھوں گنا اضافہ ثابت ہوگیا تو پھر عدالت کا اسے بخش دینا کیا دوسروں کو خیانت و بدعنوانی کا لائسنس دینا نہیں؟ اگر اس وقت عدالت کی طرف سے ملوث افراد کو نشان عبرت بنادیا گیا ہوتا تو دوبارہ کسی کو جرات نہ ہوتی کہ وہ میرٹ سے کھیلواڑ کرے، نہ دنیا نیوز کو پروگرام کرنا پڑتا نہ ہی کسی کو عدالت جانا پڑتا، کبھی کبھی تو مجھے ایسا بھی لگنے لگتا ہے کہ ایسا جج صاحبان اس لیے بھی کرتے ہیں کہ اگر یہ حضرات کیسز کو جلدی جلدی نمٹادینگے اور سخت سزائیں دینے لگیں گے تو پھر لوگ غلط کام کرنا چھوڑ دیں گے جب لوگ غلط کام نہیں کرینگے تو پھر ججز کو کون پوچھے گا، ان کا گزارہ کیسے چلے گا، خیر کہا جاتا ہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی میرٹ کے بغیر ممکن نہیں، ہاں بالکل مگر پاکستان کو ترقی نہیں چاہیے کیوں کہ گزارا تو IMF یا ADB یا کسی ملک سے قرض لے کر ہی چلانا ہوتا ہے وہ بھی نہیں تو بے چارے عوام تو ہیں ہی ٹیکسز بڑھادیں گے‘ بجلی مہنگی کردیں گے‘ گیس کا ریٹ بڑھادیں گے۔ سو یوں گاڑی چل جائے گی اس لیے میرٹ کی کیا ضرورت ہے، میرٹ آگیا تو عوام نے اوطاقوں اور ڈیروں پہ آنا جانا چھوڑ دینا ہے کیونکہ پالیسی ساز اہل افراد آجائیں گے تو عوام آزاد ہوجائیں گے‘ اس کے علاوہ آئے دن ہم سنتے ہیں کہ ڈی جی آئی ایس پی آر صاحب پریس کانفرنس کررہے ہوتے ہیں کہ ملکی سلامتی کو خطرہ ہے‘ دشمن ففتھ جنریشن وار مسلط کر رکھی ہے وغیرہ وغیرہ لیکن مجھے حیرت ہے کہ سالوں سے نیشنل سیکیورٹی کے نام پہ قوم کے پیسے کا بیڑہ غرق کیا جارہا ہے لیکن جنگلیوں کی طرح لڑنے کے سوا آج تک ایک کام بھی ایسا نہیں کیا گیا جس سے نوجوان نسل میں مایوسیاں ختم ہوں، نوجوان نسل وڈیروں و سیاست دانوں کی گرفت سے آزاد ہوں، ان کے ذہنوں میں غلط نظام و ناانصافیوں کی وجہ سے ریاست سے نفرت کا عنصر پیدا نہ ہو، مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اس ملک کے تھنک ٹینک و پالیسی ساز چاہتے کیا ہیں، ایک بات تو طے ہے یا تو وہ بدنیت ہیں یا نااہل ہیں جو انہیں یہ تک نہیں معلوم کہ نیشنل سیکیورٹی کے لیے سب سے اہم ترین چیز میرٹ اور قانون کا عملی نفاذ ہے۔ یاد رہے کہ میرٹ کے بغیر نہ تو قانون کا نفاذ ممکن ہے نہ ہی کرپشن و بدعنوانی کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور یہ بات بچے بچے کو معلوم ہے کہ میرٹ کی کتنی اہمیت ہے اگر نہیں پتا تو بس اسٹیبلشمنٹ کو یا پھر وہ بدنیت ہے وہ نہیں چاہتے کہ عوام آزاد ہوں، حالانکہ میرٹ کا نفاذ کوئی راکٹ سائنس نہیں دو دن میں ممکن ہے ایک دن میں ہوسکتا ہے بس تھوڑا ڈنڈا اٹھانا پڑتا ہے یہ بدعنوان بیوروکریٹ مافیا تو ایسی سیدھی ہو کہ دنیا میں مثال دی جانے لگے گی مگر بات وہی ہے کہ نیت ٹھیک نہ ہو تو ایک صدی تک سسٹم ٹھیک نہیں ہوسکتا۔کپتان صاحب کہتے ہیں کہ میرٹ کا نفاذ ان کی اولین ترجیح ہے تو بھائی کب کروگے 16 مہینے گزرنے کے بعد بھی NTSیونیورسٹی میں یہ کہنا پڑے تو پھر کیا الفاظ کہوں بس اللہ ہی حافظ، NTS یا دیگر نجی ٹیسٹنگ سروسز ہزاروں افراد کا تحریری ٹیسٹ لیتی ہیں اور چند گھنٹوں بعد حاصل کردہ نمبرز کے ساتھ نتیجہ جاری کردیتی ہیں لیکن واحد انوکھا ادارہ سندھ پبلک سروس کمیشن ہے جو ایک تو نتیجہ دینے میں مہینے یا سال لگا دیتا ہے اور حاصل کردہ نمبر تو ان کو بھی معلوم نہیں ہوتے جو اپوائنٹ ہوتے ہیں یا اپوائنٹ کرنے والے ہیں، کپتان صاحب اگر آپ کی ترجیح واقعی میرٹ کی بحالی ہے اور آرمی چیف صاحب واقعی آپ ملکی سلامتی کے لیے سنجیدہ ہیں تو خدارا اس طرف دھیان دیجیے سندھ میں لسانیت کارڈ کو ریاست مخالف استعمال کیا جاتا ہے خدا کے لیے میرٹ کے نفاذ کو یقینی بنائیے تاکہ یہ لسانیت کارڈ ہمیشہ کے لیے ختم ہو اور لوگوں کا ریاست پہ اعتماد بحال ہو، سندھ پبلک سروس کمیشن جوکہ میرٹ کا قبرستان ہے اسے صحیح کرنے کی ضرورت ہے ورنہ یہ نااہل افراد کو بھرتی کر کر کے ملکی اداروں اور معاشرے کو بھی قبرستان بنادے گا۔