دانیہ آصف
سمندر کنارے مچھیروں کی ایک چھوٹی سی بستی میں ایک مچھیرا احمد اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ مچھلیاں پکڑتا پھر انہیں شہر جا کر فروخت کرتا۔
معمول کے مطابق ہی ایک دن تھا کہ صبح احمد سمندر پر اپنی چھوٹی سی کشتی پر روانہ ہوا اور گہرے سمندر میں جال ڈالے مچھلیوں کے جال میں آنے کا انتظار کر رہا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد اُسے اپنا جال کچھ بھاری محسوس ہوا تو وہ خوشی سے جال کھینچنے لگا کہ شاید کوئی بڑی مچھلی ہاتھ آئی ہے پر جال جیسے ہی باہر آیا تو وہ حیران رہ گیا کہ وہ بھاری سی مچھلی کوئی بہت بڑی تو نہ تھی پر نرالی ضرور تھی ایسا لگتا تھا کہ کانچ سے بنی ہوئی ہے اور خاص یہ کہ اُس کے پیٹ میں رنگ برنگے قیمتی نگینے اپنی جھلک دکھا رہے تھے۔ احمد مچھلی دیکھ کر خوش ہو گیا اور سوچنے لگا کہ میں یہ ہیرے بیچ کر امیر آدمی بن جائوں گا۔ جیسے ہی وہ اپنے خیالوں سے باہر آیا تو اُسے لگا کہ مچھلی کچھ بول رہی ہے اُس نے حیرانی سے غور کیا تو اُسے یقین آگیا۔ مچھلی اُس سے ہی مخاطب تھی وہ بولی: ’’سنو! سنو! مجھے مت مارو۔‘‘ گھبرا کہ احمد و تھوڑا پیچھے ہٹا پھر بولا: تمہارے اندر موجود ہیرے جواہرات بیچ کر میں امیر ہو جائوں گا۔ میں غریب مچھیرا ہوں اور مجھے پیسوں کی ضرورت بھی ہے۔ مچھلی بولی: میری بات غور سے تو سنو مجھے مار کر تمہیں کچھ نہ ملے گا کیونکہ مرتے ہی میں عام مچھلی میں تبدیل ہو جائوں گی۔ لیکن اگر تم میری بات مانو میں تمہیں سمندر کے انوکھے سفر پہ لے چلوں گی جس سے تمہیں بہت سی قیمتی معلومات حاصل ہوگی۔ کچھ دیر تو احمد سوچتا رہا۔ دراصل وہ فطرتاً نیک اور سیدھا سادا آدمی تھا۔ بولا ’’پیاری مچھلی میں تمہارے ساتھ سمندر کی سیر پر جانے کو تیار ہوں۔ میرے خیال میں یہ ایک دلچسپ تجربہ ہوگا۔ پھر وہ مچھلی کو دیکھ کر سوچتے ہوئے بولا لیکن میں پانی کے اندر سانس کیسے لوں گا؟ مچھلی پانی میں گئی اور کچھ دیر بعد نیلی پیلی جڑی بوٹی احمد کی طرف اچھال کر بولی ’’یہ کھا لو اِس کے اثر سے تم سمندر میں دیکھنے اور سانس لینے کے قابل ہو جائو گے احمد نے جیسے ہی وہ جڑی بوٹی کھائی مچھلی بولی ’’اب تم تیار ہو آئو میرے پیچھے چلانگ لگا کر سمندر میں کود جائو‘‘۔ احمد نے اُس کی بات پر عمل کیا اور وہ دنگ رہ گیا کہ نہ صرف وہ پانی میں بہت تیزی سے تیر پا رہا ہے بلکہ اُسے سانس لینے اور دیکھنے میں بھی کسی دشواری کا سامنا نہیں۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ ایک آبی بستی میں داخل ہوئے تو مچھلی نے کہا! میرا نام چاندی ہے اور اب تم مجھے اِسی نام سے پکارنا۔‘‘ احمد اس بستی کو دیکھ کر مزید حیران ہوا کیونکہ وہاں دکانیں، تفریحی مقامات اور مچھلیوں کے خوبصورت سے گھر تھے۔ جہاں اُس نے مچھلیوں کے علاوہ بھی کئی طرح کے انوکھے سمندری جانور دیکھے۔ احمد نے کہا ’’چاندی! یہ تو بتائو مجھے کہاں لے جارہی ہو؟ چاندی نے کہا میں تمہیں اپنے تین بہترین دوستوں سے ملوانے لے جا رہی ہوں۔ یہ بات کرتے ہوئے وہ لوگ ایک خوبصورت سے گھر کے قریب پہنچ گئے۔ احمد بولا، یہ پیارا سا گھر کس کا ہے؟ چاندی نے جواب دیا: یہ سمگو کا گھر ہے وہ ایک سمندری گھوڑا ہے اتنے میں سمگو نے دروازے سے جھانکا تو چاندی سے بولا ’’ارے چاندی اتنے دن بعد آئی ہو!‘‘ جیسے ہی اُس کی نظر احمد پر پڑی تو بولا! ’’واہ بھئی تم تو ایک مہمان بھی ساتھ لائی ہو۔ وہ دونوں سمگو کے ساتھ اُس کے گھر میں داخل ہوئے۔ سمگو بہت مہمان نواز تھا اُس نے فوراً ہی رنگ برنگی ڈش انہیں پیش کی احمد نے جب کھایا تو اُسے اُن کا ذائقہ نمکین محسوس ہوا وہ مسکرا کر بولا سمندری غذا کو نمکین ہی ہونا چاہیے۔‘‘ سمگونے حیرانی سے اُسے دیکھا تو وہ جلدی سے بولا ’’میرا مطلب بہت مزیدار‘‘ پھر وہ سمگو سے اجازت لے کر وہاں سے آگے بڑھے۔ پھر وہ ایک غار میں داخل ہوئے جہاں بہت سے جھینگے تھے ایک جھینگا جو کہ ذرا بڑی جسامت کا حامل تھا چاندی کے پاس آیا تو چاندی نے احمد سے کہا: یہ میرا بہترین دوست سادل ہے۔ سادل بھی احمد سے بے حد خوش مزاجی سے ملا اور انہیں کھانے کے لیے میوے پیش کئے میوے میٹھے اور ذائقہ دار تھے۔ احمد نے کہا سمندر میں میٹھی چیز؟ اس پر سادل نے بتایا میرے زمینی دوست! یہ سچ ہے اللہ نے سمندر کا پانی نمکین بنایا ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ اس میں میٹھے پانی کی رویں بھی چلتی ہیں جو سمندر میں زندگی کا سبب ہیں۔ ہم سب سمندری مخلوق یہاں مل جل کر محبت سے رہتے ہیں حمدو بولا: مجھے تو آج پتا چلا کہ سمندر میں میٹھے پانی کی رویں بھی ہوتی ہیں۔ میں تو سمجھتا تھا کہ سمندر کا سارا پانی نمکین ہی ہے۔ پھر وہ سادل سے رخصت ہو کر چاندی کے آخری دوست سلجو کیکڑے کے پاس پہنچے۔ یہاں کی عجیب فضا دیکھ کر احمد بولا! چاندی تمہارے وہ دوست تو بہت صاف ستھرے تھے یہ کیسا گندہ دوست ہے جو ایسی گندی اور بدبو دار جگہ پر رہتا ہے۔ چاندی تیزی سے بولی! میرے دوست کو گندہ مت کہو۔ یہ گندگی اُس نے نہیں تم لوگوں نے زمین سے سمندر میں شامل کی ہے۔ تم لوگ اپنی زمین کا سارا کچرا سمندروں میں پھینک دیتے ہو جس سے سمندر آلودہ اور زہریلا ہو رہا ہے۔ احمد تھوڑا شرمندہ ہوا اور بولا مگر باقی آبی مخلوق بھی تو صاف جگہ پر رہ رہی ہے۔ یہ کیوں یہاں اکیلا رہتا ہے؟ اِس پر سلجو نے کہا: میں پہلے یہاں اپنے خاندان کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہا تھا پر آہستہ آہستہ یہ جگہ آلودہ ہونے لگی جس کی وجہ سے میری زیادہ تر فیملی مر گئی ہم کیکڑے ذرا تنہائی پسند ہوتے ہیں اور آبادیوں سے الگ رہتی ہیں۔ اب اس عمر میں کہاں جاتا اپنا گھر چھوڑنے کا دل نہیں چاہتا۔ اور وہ صاف سمندر بھی کون سا انسانوں کی آلودگی سے محفوظ رہے گا؟‘‘ یہ کہہ کر سلجو کیکڑا ایک طرف کو چلا گیا اور چاندی نے دکھ بھرے لہجے میں کہا احمد میں تمہیں اسی لیے سمندر کی سیر پر لائی تھی کہ تم دیکھ سکو یہاں ہم سکون سے آباد ہیں پر اب اس آبادی کو انسان سے شدید خطرات لا حق ہیں کیا تم ہماری آبادی کو بچانے میں کچھ مدد کرو گے؟ سر جھکائے احمد نے عزم سے سر اٹھایا اور بولا: چاندی میں وعدہ کرتا ہوں کہ واپس جا کر لوگوں کو ان خطرات سے آگاہ کروں گا۔ اور تمہاری بقا کے لیے ہر ممکن کوشش کروں گا۔ میں یہاں آیا تو صرف سیر کو تھا پر اپنے ساتھ ’’دو قیمتی خزانے‘‘ لے کر جائوں گا۔ ایک تو سمندری مخلوق کی محبت دوسری وہ ’’آگہی‘‘ جو مجھے یہاں آکر حاصل ہوئی۔ اور جب وہ واپسی کے سفر پہ روانہ ہوئے تو چاندی بہت مطمئن تھی۔ اُسے کشتی میں واپس پہنچانے کے بعد چاندی نے کچھ جواہرات احمد کی کشتی میں اگل دیے اور بولی یہ میری طرف سے ہماری دوستی کا تحفہ ہے جو تمہیں اپنا وعدہ یاد دلاتا رہے گا۔ اور احمد اب ایک اہم مشن لیکر واپس روانہ ہوا۔ سمندر کی حفاظت کا مشن!