احمد عدنان طارق
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ کہیں ایک بہت لالچی اژدھا تھا۔ وہ پنیر، ٹماٹر، چا کلیٹ، ٹا فیاں، جیلی، آڑو، کریم، کیلے، کسٹرڈ کھاتا تھا۔ برے لڑکے اور اچھی بچیاں بھی کھا جاتا تھا۔ ایک دن ایک چھوٹا سا برا لڑکا سیف اس اژدھے کے پاس آیا۔
وہ دونوں ایک دوسرے کو گھورنے لگے۔ اژدھے نے منہ کھول کرایک شعلہ سیف کی طرف پھینکا تو سیف نے زبان نکال کر اسے چڑا یا۔ اژدھا؛ ’’میں تمہیں کھا جاؤں گا‘‘ سیف یہ سن کر ہنسنے لگا اور بولا ’’جاؤ جاؤ اگر ’تم مجھے کھا ؤ گے تو میں تمہارے معدے میں پہنچ کر تمہیں وہ درد کروں گا کہ یاد رکھو گے۔
’’اژدھے کو بہت غصہ آیا، اس نے اپنی لمبی زبان منہ سے باہر نکالی، سیف کی طرف دوڑا اور لالچی طبیعت کی وجہ سے سیف کو نگل لیا۔لیکن جب سیف اس کے منہ سے اس کے پیٹ میں جا رہا تھا تو وہ قہقہے مار کر ہنس رہا تھا۔ اژدھا حیرت سے سوچنے لگا کہ آخر اتنی خطر ناک جگہ پر سیف کو ہنسی کیوں آرہی ہے؟ پھر جلد ہی اسے اِس کی وجہ معلوم ہوگئی۔
سیف کی جیب میں بارود کے پٹاخے اور آگ جلانے والے دو پتھر موجود تھے (اس کی جیب میں ہمیشہ ہی ایسی چیزیں پڑی ہوتی تھیں) سیف نے دونوں پتھروں کو رگڑا تو آگ کے ننھے ننھے شعلے نکلے۔ یہ شعلے بہت چھوٹے تھے مگر اژدھا چیخیں مارنے لگا۔’’میرا پیٹ اف میرا پیٹ‘‘ اور وہ زور سے پیٹ کھجانے لگا۔ ادھر اس آگ کے ننھے شعلوں کی مدد سے سیف نے دیکھا کہ بارودی پٹاخوں کو آگ کہاں لگانی ہے؟ اس نے فوراً ان کو آگ لگا دی۔ ان بارودی پٹاخوں پر ایک منتر بھی پڑھا ہوا تھا۔
ان کو آگ لگنے سے ایک زور دار دھماکہ ہوا اور لالچی اژدھا چلانے لگا۔ مدد … مدد… آگ … پانی… پولیس‘‘ اِس دھما کے کی وجہ سے سیف اچھلا اور اژدھے کے کھلے ہوئے منہ سے باہر نکل گیا اور فوراً محفوظ جگہ پر چلا گیا لیکن جادو کے پٹاخوں کا کام ابھی مکمل نہیں ہوا تھا۔
ان کا دھواں اَژدھے کے سر کے چکر کاٹنے لگا، ساتویں چکر پر منتر کا اثر ہوگیا۔ اتنے بڑے جسم کا اژدھا ایک بے ضررسی مکھی میں تبدیل ہو گیا جسے بڑی مکھی کہتے ہیں اور جس کی شکل اژدھے سے ملتی ہے اور وہ پھر سے آسمان میں اْڑ گئی۔ رہا سیف وہ گھر کی طرف جارہا تھا اور بے تحاشہ ہنس رہا تھا۔