اعظم علی
جنرل پرویز مشرف کے خلاف سزائے موت کے فیصلے نے پورے ملک میں ہلچل مچا دی یہاں تک کے فوج کے عمومی ڈسپلن کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل آصف غفور نے اپنے ادارے کی طرف سے اس فیصلے پر فوج کے غم و غصے کا عوامی اظہار کیا۔
جنرل آصف غفور نے دوسری مرتبہ سولین اور عدالتی معاملات میں غیر محتاط ٹوئیٹ یا بیان دیا ہے، پہلی مرتبہ جب ڈان لیک پر سرکاری تحقیقاتی رپورٹ کو Rejected کا ٹوئیٹ اور اب یہ دوسری مرتبہ… یقینا دونوں مرتبہ وہ اپنی ذاتی رائے کے بجائے اپنے ادارے کی آفیشل پوزیشن چین آف کمانڈ کی اجازت سے بیان کررہے تھے۔
میجر جنرل آصف غفور‘ جن کی مدت ملازمت میں ابھی خاصا وقت باقی ہے‘ ممکن ہے کہ انہیں تیسرا ستارہ بھی مل جائے کہ یہ فوجی قیادت کا فیصلہ ہوتا ہے، لیکن ان کے ان غیر ضروری بیانات نے شاید ان کے کیرئیر پر وہ دھبہ لگا دیا ہے جس کی قیمت چند برسوں کے بعد جب یہ تین ستاروں کے ساتھ‘ اگر کبھی چوتھے ستارے کی اُمیدوار ہوں گے‘ تب ادا کرنی پڑے گی۔
کوئی سیاسی حکومت کسی ایسے جنرل‘ جس کے ریکارڈ پر سیاسی و عدالتی اتھارٹی کے خلاف اس کھلے بندوں سرکشی کا اظہار ہو‘ کبھی بھی اگلے پروموشن کے لیے غور نہیں کرے گی (فوجی حکومت میں تو چیف خود ہی لامحدود ایکسٹینشن پر ہوتا ہے اور سوائے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین شپ کی نمائشی عہدے کے علاوہ ویسے بھی کسی اور کو موقع نہیں ملتا۔)
اس لحاظ سے لحاظ سے جنرل آصف غفور جو‘ آرٹلری کے کیرئیر افسر ہیں‘ نے اپنے کیرئیر کی شہادت قبول کی ہے (کیا شہادت کی مبارک باد بنتی ہے؟) ویسے تو محاورتاً cats have nine lives اسی طرح جنرلوں کے بارے میں کچھ بھی یقینی نہیں کہا جاسکتا۔
ڈان لیک کے rejected ٹوئیٹ پر اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے جنرل باجوہ سے آصف غفور کو فوج سے فارغ کرنے کے لیے کہا تھا لیکن چونکہ جنرل آصف غفور کے اس ٹوئیٹ کو ادارے کی حمایت ہی نہیں تھی بلکہ چین آف کمانڈ کی مرضی اور اجازت بھی شامل تھی اس لیے کمانڈ اخلاقی طور پر ان کی حمایت پر مجبور تھی اور بے چارہ منتخب وزیر اعظم سولین گریڈ 12 کے مساوی میجر جنرل کے مقابلے میں اپنا منہ لے کر رہ گیا۔
موجودہ معاملے میں ٹوئیٹ والی سرکار کا نزلہ وزیر اعظم پر نہیں بلکہ ججوں پر گرا ہے۔ اگر جج چاہیں تو اس میں تو ہین عدالت تلاش کر سکتے ہیں پر……
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
اس تمام مشق کے ذریعے مسلح افواج کے ترجمان نے ملک میں سیاسی و عدالتی اتھارٹی کو اس طرح کھلے بندوں چیلنج کر کے اس حقیقت کا اظہار بھی کردیا ہے کہ ہمارے ہاں دفاعی ادارے واقعی منہ زور گھوڑے اور مقدس گائے کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں ورنہ حسبِ روایت اس حساس مسئلے کو خاموشی کے ساتھ اپنی سیاسی چین آف کمانڈ کو پہنچا کر اس سلسلے میں قانونی طور اقدامات کیے جاسکتے تھے۔
فوج کی عزت و وقار کسی بھی فرد حتیٰ کہ آرمی چیف سے بھی بلند ہے۔ فوج ایک ادارہ ہے‘ اس میں بہ طور فرد چیفس آتے جاتے رہیں گے ان میں بعض جنرل یحییٰ بھی ہوں گے‘ جن کی قیادت میں ملک ٹوٹا اور راحیل شریف جن کی کمانڈ میں ہم دہشت گردی کے جن کو بوتل میں واپس داخل کرنے میں بڑی حدتک کامیاب ہوئے۔
مشرف کا ذکر اس لیے نہیں کروں گا کہ ابتدائی فیصلے کے باوجود اپیل کے فیصلوں تک‘ چاہے مشرف ہوں یا نواز شریف‘ دونوں کی convictionfinalize نہیں ہوئی ہے اور دونوں کو ملزم سے مجرم ڈیکلیئر کرنا زیادتی۔ آج کل بہت سارے ٹی وی اینکرز توہین آمیز انداز سے نواز شریف کو مسلسل ’’مجرم نواز شریف‘‘ کہہ رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اسی اصول کے تحت وہ ’’مجرم جنرل پرویز مشرف ‘‘ کہنے کی جرأت رکھتے ہیں؟
اب درحقیقت عدلیہ پر دفاعی اداروں کے اس سرکش و منہ زور گھوڑے کو قانون و آئین کے دائرے میں لانے کا سفر شروع ہوا ہے۔ یہ عدالتی فیصلہ بھی نقائص سے پاک نہیں اور بجا طور پر اس پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ آئین سے غداری ایک شخص نہیں بلکہ افراد کے گروہ نے کی تھی اور ذاتی عناد کی بنا پر فرد واحد کو نشانہ بنایا گیا ہے (اس میں حقیقت بھی ہے کہ نواز شریف کی حکومت صرف اور صرف پرویز مشرف کو سزا دلوانے میں دلچسپی رکھتی تھی۔)
یقیناً ان نقائص سے آگے اپیل میں فائدہ ہونا ہے، لیکن اپیل میں کیا ہوتا ہے اس کو چھوڑ کر بھی دیکھا جائے تو ہماری تاریخ کا یہ سنگ میل فیصلہ ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ایک دن ہم ضرور سویلین بالا دستی اور قانون کی حکمرانی کی منزل حاصل کرلیں گے۔
لیکن اس کے لیے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ ہماری سیاسی حکومتیں عوام کی خدمت کر کے بہتر حکمرانی کے ذریعے عوام کو جمہوریت کے فوائد سے مستفید کریں۔ اب تک ہماری اسمبلیاں عوام کی خواہشات کی عکاسی کرنے میں ناکام رہی ہیں بلکہ ان نااہل نمائندوں کے ذریعے ہر روز نئی اشرافیہ عوام کے کاندھوں پر سوار ہو رہی ہے۔
اب تک جس قسم کی سیاسی بادشاہت کا موجودہ و سابقین‘ دونوں نے مظاہرہ کیا ہے‘ اگر یہی رہا تو عوام ان سیاست دانوں اور جمہوریت کے چورن کے خریدار نہیں رہیں گے۔ اور ہر طالع آزما کو اسی طرح مواقع ملتے رہیں گے۔
عوام تبدیلی چاہتے ہیں، عدلیہ بھی اپنا قبلہ درست کرنے کے کوشش کررہی ہے، لیکن کیا اہلِ سیاست بھی اس میں حصہ ڈالنے کو تیار ہیں؟