سیدہ عنبرین عالم
رخسانہ جبیں ایک کالج میں لیکچرار تھیں، یوں تو ان کا مضمون ریاضی تھا، مگر وہ مسلم امہ کے بچوں کو موجودہ دنیا کے چیلنجز سے آگاہ رکھنا ضروری سمجھتی تھیں اور گاہے بگاہے دنیا میں ہونے والے اہم واقعات، قرآن و حدیث کی پیشن گوئیوں اور دیگر ذرائع سے ہونے والی معلومات کا تذکرہ کرتی رہتی تھیں۔ طالب علم بھی ان سے مانوس تھے اور ان سے ہر حوالے سے سوالات کرتے رہتے تھے۔
ایک روز بارش کا موسم تھا، بہت کم تعداد میں طالب علم حاضر تھے تو محترمہ رخسانہ جبیں نے معمول کی منسوخ کردی اور چند حاضر طالب علموں سے مختلف موضوعات پر گفتگو کا آغاز کردیا۔
رخسانہ جبیں: آج کل غزوۂ ہند کے بارے میں بڑی باتیں ہورہی ہیں، آپ لوگ اس بارے میں کیا جانتے ہیں؟
سلطان: جی میڈم! کہتے ہیں کہ غزوۂ ہند کا آغاز ہونے والا ہے، پاکستان اور بھارت کی جو جنگ ہوگی وہ غزوۂ ہند کہلائے گی، اور یہ وہ موقع ہوگا کہ پاکستان ہندوستان پر اپنی حکومت قائم کرلے گا، اور جنگ اس قدر طوالت اختیار کرجائے گی کہ ان شاء اللہ پوری دنیا پر اسلام نافذ ہوجائے گا۔
رخسانہ جبیں: مریم بیٹا! آپ کا اس ضمن میں کیا خیال ہے؟
مریم: میڈم! میرا خیال ذرا مختلف ہے، میں سمجھتی ہوں کہ غزوہ اُس جنگ کو کہا جاتا ہے جس میں اللہ کا کوئی رسول اپنی کمانڈ میں مسلم افواج کو کفار سے لڑائے۔ میرا خیال ہے کہ حضرت مہدیؑ یا حضرت عیسیٰؑ کے نزول کے بعد ہی غزوۂ ہند ممکن ہے، ابھی تو مسلمان ایمان کے لحاظ سے اتنے کمزور ہیں کہ اللہ کی کوئی مدد بھی آتی ہوئی نظر نہیں آتی، نہ کوئی اللہ کا نمائندہ ہی مسلمانوں میں عشقِ الٰہی پیدا کررہا ہے۔
احمد: آج کل بات تو ہورہی ہے کہ مدینے کی ریاست تشکیل دی جائے گی، مگر معاملہ الٹ ہی نظر آرہا ہے۔
رخسانہ جبیں نے سب کے خیالات سن کر سر ہلایا، انہیں اندازہ ہوگیا کہ بچے کچھ نہ کچھ معلومات رکھتے ہیں۔
رخسانہ جبیں: بیٹا! سب سے پہلے ہمیں پاکستان کی اہمیت سے آگاہ ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ دنیا کی دوسری ریاست ہے جو میرے رب کے نام پر، میرے رب کا دین نافذ کرنے کے لیے بنائی گئی۔ اس کی حیثیت مدینہ ثانی کی ہے، یہ باتیں یقینا آپ لوگوں نے سنی ہوئی ہوں گی۔ جو بات میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں وہ یہ ہے کہ جیسے مدینۂ اوّل نے عرب کو ایک مسلم ریاست میں تبدیل کیا تھا، اسی طرح ان شاء اللہ پاکستان تمام دنیا کو اسلام کے زیر نگیں لائے گا۔ یہ ممکن ہے، یہ ہوگا، اس تبدیلی کا آغاز غزوۂ ہند سے ہوگا، جو تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا، قیامت سے پہلے یہ واقعہ عمل میں آنا لازم ہے۔
سلطان: مگر یہ کیسے ممکن ہے؟ مدینہ اوّل اور پاکستان میں بے انتہا فرق ہے۔ مدینہ میں مومنین بھلے 313 سہی، مگر انتہائی عمدہ قیادت رہنمائی کے لیے موجود تھی، وہ لوگ ایمان کے اعلیٰ ترین درجوں پر تھے، لہٰذا اللہ کی مدد بھی ساتھ تھی اور فتح نے بھی قدم چومے۔ ہمارا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ جب سے پاکستان بنا ہے، قیادت کے شدید بحران کا شکار ہے۔ ہماری کوئی ایمانی تربیت نہیں ہے۔ اب یا تو واقعی حضرت مہدیؑ یا حضرت عیسیٰؑ کا پاکستان میں ظہور ہو، جو ہمیں اس تبدیلی کے لیے تیار کریں، ورنہ تو یہ واقعہ ممکن نہیں۔
رخسانہ جبیں: آپ نے درست فرمایا، پاکستان محض ایک سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آیا، دینی قیادت جس کی ذمے داری تھی کہ نئی ریاست کے وجود میں آنے سے پیشتر عوام الناس کی ایمانی تربیت کرتی، زیادہ تر وہ پاکستان کے قیام کی مخالف اور اپنی ذمہ داریوں سے غافل رہی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قائداعظم کو پاکستان بنتے ہی یہ کہنا پڑا کہ ’’میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔‘‘ ابتدا میں ہی نفاق اور سازشوں کا بازار گرم ہوگیا اور پاکستان کبھی بھی مستحکم حیثیت اختیار نہ کرسکا۔ یہاں تک کہ آج پھر مدینہ کا نام لے کر عوام کو بے وقوف بنایا جارہا ہے، لیکن وہ تربیت مفقود ہے جو مدینہ کی کامیاب ریاست کا باعث بنی، لوگ قرآن کے ترجمے تک سے واقف نہیں۔
مریم: تو پھر پاکستان کی تمام دنیا پر اسلامی نظام کی تشکیل کا جو خواب دیکھا جارہا ہے وہ جھوٹ ہے؟
رخسانہ جبیں: بیٹا! پہلے ہمارے پاکستان پر تو اسلام نافذ ہو، پھر دنیا پر ہوگا ناں۔ ہم تو اپنی ذات پر اللہ کے احکام نافذ کرنے کے لیے راضی نہیں ہیں، ہمیں تو آپس کی نفرتوں سے فرصت نہیں ہے، ہم میں سے کوئی اللہ سے رابطہ کرنے کے لیے راضی نہیں ہے، اللہ سے رابطہ ہوگا تو اللہ کی مدد آئے گی ناں۔ بیٹا! ابھی تو ان حالات میں کوئی امید نظر نہیں آرہی، ہاں اگر میرا رب کوئی رہبر بھیج دے جو امت کو درست راہ پر لگا دے، تو ہی کچھ ممکن ہے۔
احمد: سورۃ الممتحنہ کی آیت 4 میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی روش پر چلنا ہے، جب انہوں نے اپنے باپ اور قوم سے کہا تھا کہ جب تک آپ لوگ ایک اللہ پر ایمان لاکر اس کے تابع دار نہیں ہوجاتے، ہم میں اور آپ میں کھلم کھلا عداوت ہے، اور جو مومنوں کو تنگ نہ کریں ایسے کافروں سے کوئی جنگ نہیں۔ میڈم! ہمارا رویہ قطعی مختلف ہے، ہم ممتاز قادری جیسوں کو پھانسی چڑھاتے ہیں، کلبھوشن جیسوں کو پالتے پوستے ہیں، اور ابھی نندن جیسے کو چائے پلاتے ہیں۔ جب کہ اللہ فرماتا ہے کہ مومن وہ ہے جو ایمان والوں سے حلاوت کا سلوک کرے اور دشمن کافروں کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے۔
رخسانہ جبیں: بیٹا! یہاں یہ تو واضح ہوگیا کہ ہم پاک بھارت جنگ کو اُس وقت تک غزوۂ ہند قرار نہیں دے سکتے جب تک ہماری تربیت کا معقول انتظام نہ ہوجائے اور پاکستانی قوم مکمل طور پر مومن نہ بن جائے۔ ہم مدینہ کی ریاست بنیں گے تو پیارے نبیؐ کی طرح پلٹ کر مکہ فتح کرسکتے ہیں۔ آج جو شخص مدینہ کی ریاست کا نعرہ لگا رہا ہے وہ خود سب سے پہلے اسلامی قانون کا شکار ہوگا۔ میرے نبیؐ نے پیشن گوئی کی تھی کہ آخری لمحات کی نشانی یہ ہے کہ تم میں سے بدترین اور نالائق لوگ تم پر حاکم بنادیے جائیں گے۔ روایت ہے کہ جب حضرت عمرؓ کا انتقال ہوا تو دور دراز علاقے سے ایک چرواہا ان کے جنازے میں شرکت کرنے آیا، لوگوں نے پوچھا کہ بھلا تمہیں کیسے خبر ہوئی؟ تو اس نے کہا کہ کل ایک بھیڑیا میری بکری کھا گیا، میں سمجھ گیا کہ عمرؓ نہیں رہے اور فساد فی الارض کا دور شروع ہوگیا۔ یہ ہوتے ہیں عظیم لوگ جو قومیں بناتے ہیں۔ جہاں کے جج بھی ثاقب نثار جیسے ہوں جو ڈیم کے نام پر پیسہ اکٹھا کرکے بھاگ گیا، سپہ سالار پرویزمشرف جیسے ہوں جو عورتوں کے مدرسے جامعہ حفصہ پر ٹینک چڑھا دے، اور سیاست دانوں سے تو آپ واقف ہی ہیں، کُل ملا کر سو، ڈیڑھ سو اشخاص ہیں جو 70 سال سے پارٹیاں بدل بدل کر ہر حکومت میں ہم پر مسلط ہوجاتے ہیں، تو پھر ایسی قومیں جنگ نہیں جیت سکتیں، جنگ سے دور رہنا بہتر ہے۔
احمد: سورۃ یوسف میں حضرت یوسف علیہ السلام جب خزانے پر مقرر کیے جانے کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہ اپنی دو خوبیاں بتاتے ہیں کہ وہ حفاظت کرنے والے بھی ہیں اور خزانے کے انتظام کے علم سے واقف بھی ہیں۔ ہم نہ ایسے تدریسی ادارے کھول رہے ہیں کہ معیشت کے ماہر تیار ہوں، نہ ہم دینی تربیت دے رہے ہیں کہ لوگ صادق و امین ہوں۔ بگڑتی معیشت کا صرف ایک حل ہمارے پاس ہے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے یہودیوں کے غلام بلاکر معیشت اُن کے حوالے کردی جائے۔
سلطان: یہ آرماگیڈون کا بھی بڑا چرچا ہے، کہتے ہیں تیسری جنگ ِعظیم ہونے والی ہے اور وہی آرماگیڈون ہے۔
رخسانہ جبیں: بیٹا! آرماگیڈون کا ذکر یہودیوں اور عیسائیوں کی الہامی کتابوں میں بھی ہے اور ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ یہ دنیا کے اختتام کے وقت ہونے والی سب سے آخری جنگ ہے، اس جنگ میں دنیا دو حصوں میں تقسیم ہوجائے گی۔ ایک اچھائی کی طاقت اور ایک برائی کی طاقت، ان دونوں طاقتوں کے درمیان جنگ ہوگی۔ چونکہ یہ آخری جنگ ہے، جو فاتح ہوگا وہی اس زمین کے بچھائے جانے والے امتحان کا فاتح ہوگا، یعنی اللہ، یہ جنگ اللہ ہی جیتے گا، شیطان نہیں۔ پھر قیامت قائم ہوجائے گی اور شیطان اپنے دعوے میں جھوٹا ثابت ہوجائے گا کہ انسان اللہ کا نائب بننے کے لائق نہیں… اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا واقعی آج کا انسان یا اللہ کی محبت کے دعویدار انسانوں کا گروہ اللہ کا نائب بننے کے لائق ہے؟ نہیں! ہم شر، بدعات اور کفر میں مبتلا ہیں، پھر ہم اللہ کو آرماگیڈون جیت کر کیسے دے سکتے ہیں! اس لیے غالب گمان یہی ہے کہ حضرت مہدیؑ یا حضرت عیسیٰؑ پہلے آئیں گے، روحانی تربیت کریں گے، پھر آرماگیڈون ہوگی۔ تیسری عالمی جنگ آرماگیڈون نہیں ہے۔ ہاں اگر تیسری عالمی جنگ اللہ کے کسی نمائندے کے آنے کے بعد ہوتی ہے تو شاید وہ آرماگیڈون کہلائے گی۔ اس جنگ کی قیادت کوئی عام انسان نہیں بلکہ حضرت مہدیؑ یا حضرت عیسیٰؑ کریں گے، میرا رب ہمیں اصلاح شدہ لوگوں میں کرے۔
مریم: ابھی بھی کم جنگیں تو نہیں ہورہیں، تقریباً تمام دنیا جنگوں کی لپیٹ میں ہے، تیسری عالمی جنگ اور کسے کہتے ہیں! ایک تو Son of Soil ایک بڑی پیچیدہ اصطلاح ہے، اسی اصطلاح کو استعمال کرکے اسرائیل نے فلسطین پر حملہ کیا، اسی کو استعمال کرکے سعودی عرب نے ترکی کی خلافت تسلیم کرنے سے انکار کیا، ترکوں کو اکھاڑ کر عرب سے باہر پھینک دیا، آج کراچی کے مہاجر اسی اصطلاح کے نتیجے میں سرکاری نوکریوں سے محروم کردیے گئے، چار نسلیں کراچی میں پیدا ہوگئیں مگر وہ Son of Soil کا درجہ نہیں پاسکے، بھارت میں آج تک مسلمانوں کو باہر سے آیا ہوا حملہ آور مانا جاتا ہے، جب کہ 1200 سال سے زائد ہوگئے۔
رخسانہ جبیں: بیٹا! اسلام میں Son of Soil کا کوئی نظام نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نیک لوگ ہی زمین کے وارث ہوں گے۔ آپ نے اللہ کے ناموں میں ’’وارث‘‘ نام بھی پڑھا ہوگا، جب کوئی نہیں تھا اُس وقت بھی تمام زمین اللہ کی ملکیت تھی، اور جب کوئی نہیں رہے گا، اس وقت بھی زمین اللہ کی ملکیت ہوگی، اور اللہ اپنی اس زمین کا وارث اُن لوگوں کو قرار دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا حکم اس زمین پر نافذ کریں، ورنہ تو حضرت آدم علیہ السلام کی ہی اولاد تمام دنیا میں آہستہ آہستہ پھیلی، یعنی سب نے اُس مقام سے ہجرت کی جہاں حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے اتارا گیا۔ ہر ایک مہاجر ہے، کوئی بھی Son of the Soil قرار نہیں دیا جاسکتا۔
احمد: بس یہ بھی ایک ہتھکنڈہ ہے زیادہ سے زیادہ زمین ہتھیانے کا۔ حالانکہ دو گز زمین جس میں ہم دفن کیے جائیںگے، اس کے سوا کوئی زمین ہماری ملکیت نہیں۔ بس لوگوں کی ہوس بڑھتی جارہی ہے اور عمریں مختصر ہوتی جارہی ہیں۔
رخسانہ جبیں (ٹھنڈی آہ بھر کر): بیٹا! جب ہم بچے تھے، ایوب خان کا دور تھا، اُس زمانے میں 22 خاندان مشہور تھے جو پاکستان کے زیادہ تر وسائل کے حامل تھے۔ ایک ابوالحسن اصفہانی ہوتے تھے، کراچی اور ڈھاکا میں ان کی سینکڑوں زمینیں تھیں، ملیں، فیکٹریاں، فارم ہائوسز… سفارت اور وزارت سے بھی وابستہ رہے۔ آج ان کے کسی ایک بچے یا کسی ایک کاروبار کے بارے میں بھی کوئی نہیں جانتا۔ ہمارے بڑے ’’سہگل خاندان‘‘ کے بارے میں باتیں کیا کرتے تھے، وہ اتنے امیر تھے کہ ان کے خاندان کی عورتیں کوئی کپڑا یا جوتا دوبارہ نہیں پہنتی تھیں، کہتے ہیں کہ جہازوں کے کاروبار ان کے تھے، چمڑے کا سارا کاروبار پاکستان بھر میں ان کا تھا۔ کیا آج کوئی ان میں سے کسی کو جانتا ہے؟ بیٹا میں آپ کو قارون اور نمرود کی دولت اور زوال کی مثالیں نہیں دے رہی، میں آنکھوں دیکھی موجودہ زمانے کی باتیں کررہی ہوں۔ بیٹا! جس نے اللہ کو راضی کرلیا وہی کامیاب ہے، باقی بڑی سے بڑی دولت، جائداد، حکومت کسی کام کی نہیں۔ ’’سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ۔‘‘
احمد: قرآن پاک میں اللہ فرماتا ہے کہ اگر تمام لوگوں کے کفر پر ہوجانے کا خطرہ نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ کافروں کے گھروں کی سیڑھیاں اور چھتیں تک سونے چاندی کی بنا دیتا… اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کے عیش و آرام محض کھلونا ہیں جن سے کافروں کو بہلایا جاتا ہے، اور اسی کھیل تماشے کو سب کچھ سمجھ کر وہ آخرت سے لاپروا ہوجاتے ہیں۔ جب کہ مومنین کو ان بے کار چیزوں میں نہیں الجھایا جاتا، ان کے تمام نیک اعمال کی جزا اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ دنیا میں جتنا بھی عیش و آرام دے دیا جائے، وہ جزا پوری نہیں ہوتی، اس لیے بیش بہا انعامات آخرت کے لیے سنبھال کر رکھے گئے ہیں اور چھوٹے موٹے گناہوں کی سزا یہاں دے کر حساب پورا کردیا جاتا ہے۔ اس لیے مومنین دنیا میں سختی میں رہتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ اُن کی عزت کی یہاں بھی حفاظت کرتا ہے اور آخرت میں بھی، اور اُن کو اتنا نہیں ٹوٹنے دیتا کہ وہ کفر کی طرف پھسل جائیں۔
رخسانہ جبیں: احمد! آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں، بے شک مومن آج بہت قلیل اور کمزور ہیں، شدید مصائب کا شکار ہیں، اور بعض دفعہ اپنے اللہ سے شکوہ کناں بھی ہوجاتے ہیں۔ مگر ہمیں اپنے آقا پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مصائب کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ کیا ہم محمد عربیؐ سے بڑھ کر نیک ہیں کہ اللہ ہم پر کوئی آزمائش نہ ڈالے؟ بے شک وہ رب رحمن و رحیم ہے، اور اپنے بندوں کو ان کی طاقت سے زیادہ نہیں آزماتا۔ ہم کو اللہ سے ناراض ہونے کے بجائے اسے راضی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
سلطان: میڈم جس شدت کے ساتھ چند لوگ غزوۂ ہند اور آرماگیڈون کے ابھی وارد ہونے کا پروپیگنڈا کررہے ہیں اس سے محسوس ہوتا ہے کہ خدانخواستہ کوئی جعلی مہدی یا جعلی حضرت عیسیٰ نہ کھڑا کردیا جائے، اور ہمارے تو لوگ بھی اتنے کچے ایمان کے ہیں کہ دو، چار نقلی معجزے دیکھ کر یا لفاظی سے متاثر ہوکرمعتقد بھی ہوجائیں گے۔ ایسی صورت حال میں امتِ مسلمہ مزید کمزور اور سازشوں کا شکار ہو جائے گی۔ اللہ خیر کرے، نہ جانے کیا ہونے والا ہے!
رخسانہ جبیں: جس تندہی سے شیطانی قوتیں اسلام کو مٹانے میں سرگرداں ہیں، کچھ پتا نہیں کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ میرے ملک پاکستان میں ہندو حملہ کریں تو انہیں چائے پلائی جاتی ہے، عیسائی میرے نبیؐ کی شان میں گستاخی کرے تو ہر ایک اُس کا ہمدرد بن جاتا ہے، سکھوں کے لیے تو سارا ملک کھلا پڑا ہے۔ بس مسلمان کا پرسانِ حال کوئی نہیں پاکستان میں۔ بس بیٹا! ہر انسان صرف اپنا ذمے دار ہے، آپ اللہ کی فرماں برداری میں کھڑے رہو، آس پاس لوگوں کے دلوں میں اپنے اللہ کی محبت پیدا کرو، یہ آپ کا کام ہے۔ آگے جو میرا رب مناسب سمجھے گا، کرے گا۔ وہی مالک و آقا ہے۔
مریم: جی میڈم! اللہ ہمیں عملی طور پر مومن بنائے، صرف سوشل میڈیا کا مجاہد ہی نہ بنائے۔