غزالہ اسلم
۔’’آفس جانے سے پہلے سبزی دیتے جائیں، اور ہاں ٹماٹر صرف ایک کلو لے لیجیے گا، بالکل ختم ہوگئے ہیں۔‘‘ اسمارہ نے سمیر سے کہا۔
’’دال پکا لو، سبزیوں کے دام بہت بڑھ گئے ہیں، اور ٹماٹر تو تین سو روپے کلو سے زیادہ مہنگے مل رہے ہیں۔‘‘
’’کل ہی تو کالی دال پکائی تھی۔‘‘
’’آج مونگ، مسور کی دال ملا کر پکا لو۔ سمجھا کرو، مہینے کا بجٹ خراب ہوجائے گا… اچھا چلتا ہوں، دیر ہورہی ہے۔‘‘ سمیر آفس چلا گیا۔
’’گوشت تو پہلے ہی ہفتے میں ایک بار پکتا ہے، وہ بھی آدھا کلو۔ اب سبزیوں کو بھی ترسا رہا ہے یہ آدمی۔ میرے امی ابو کو بھی یہی پسند آیا تھا میرے لیے! کتنے رشتے آئے، مگر کیا کریں بھئی، ماں باپ کی جو مرضی وہی کرتے ہیں، لڑکیاں تو بے زبان گائے ہوتی ہیں، جس کھونٹے سے چاہے باندھ دو۔‘‘ اسمارہ بڑبڑاتی رہی اور شیطان دل میں ناشکری کے بیج بوتا رہا۔
دو بچے کالج اور چار بچے اسکول گئے ہوئے تھے، ان کے آنے سے پہلے اسمارہ نے دال پکائی، ساتھ چاول پکا لیے۔ گھر کی صفائی، برتن، باورچی خانے کی صفائی کرکے منہ ہاتھ دھو رہی تھی تو اسکول سے بچے آگئے۔ تھوڑی دیر بعد کالج سے بھی بچے آگئے تو دستر خوان بچھایا۔ دال دیکھ کر بچوں نے باتیں بنانا شروع کردیں۔ اسمارہ نے سب کو سمجھا بجھا کر کھانا کھلایا۔
اسمارہ اور بچے اچھا کھانے پینے کے شوقین تھے مگر سمیر اپنے بجٹ کے حساب سے چلتا تھا تاکہ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ وہ قرض مانگنے سے چڑتا تھا۔
اسمارہ کے بھائی کی بیٹی کی شادی کا کارڈ آیا تو سب بچے کہنے لگے چار دن کا بلاوا ہے، ہمارے دو، دو سوٹ تو نئے بنادیں، دو ہم پرانے پہن لیں گے۔
رات کو اسمارہ نے سمیر کو کارڈ دکھایا اور تحفے کے بارے میں بات کی۔ ’’بچوں کے کپڑوں کے لیے بھی کچھ پیسے چاہئیں‘‘ اسمارہ نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
سمیر نے الماری سے پانچ ہزار کا نوٹ نکال کر اسمارہ کو دیا ’’میرے پاس یہی ہیں، جو کرنا ہے اسی میں کرلو۔‘‘ بے بسی سے اسمارہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے، مگر خاموش ہورہی۔
وہ ساری رات سوچتی رہی۔ بھائی کے گھر پہلی اولاد کی شادی تھی، تین ہزار تو دینے چاہئیں، باقی دو ہزار میں چھ بچوں کے دو تو درکنار، ایک سوٹ بھی نہیں بنے گا۔ کوئی بات نہیں اگر پرانے کپڑے پہن لیے جائیں، کوئی بے عزتی کی بات نہیں۔ آخرکار یہ سوچ کر مطمئن ہوگئی۔
سمیر اور اسمارہ اپنی چادر میں پائوں چھپانے کی کوششیں کرتے رہے اور وقت گزرتا چلا گیا۔
اسمارہ کے بڑے بیٹے فہد کا انجینئرنگ کالج میں داخلہ ہوگیا۔ فیس کے پیسوں میں کچھ کم پڑ رہے تھے۔ اسمارہ نے خاموشی سے کانوں کی بالیاں بیچ کر سمیر کے ہاتھ میں پیسے رکھ دیے۔ اسمارہ کی بیٹی سوہا کو ڈاکٹر بننے کا بہت شوق تھا، دن رات محنت سے پڑھ رہی تھی، اللہ نے دعائیں سن لیں اور اس کا میڈیکل کالج میں داخلہ ہوگیا۔ سرکاری کالج میں بھی اچھی خاصی فیس تھی، اس کے لیے اسمارہ نے سونے کا سیٹ بیچ دیا۔ فہد شام کو کوچنگ سینٹر میں پڑھاکر اپنی تعلیم کا خرچا نکال رہا تھا۔ غرض سمیر کے ساتھ ساتھ اسمارہ نے بھی بہت قربانیاں دیں اور بچوں نے بھی بہت محنت کی۔ آخرکار فہد کی پڑھائی مکمل ہوگئی اور اس کو اچھی جاب مل گئی۔ اگلے سال سوہا ڈاکٹر بن گئی اور اس نے دو اسپتالوں میں نوکری شروع کردی۔
’’امی آج گھر میں کچھ نہ پکایئے گا، رات کو کھانے کے لیے میں بازار سے لے کر آئوں گا۔‘‘ فہد صبح جاتے ہوئے اسمارہ سے کہہ گیا تھا۔
رات کو آٹھ بجے فہد اور سوہا کچھ تھیلے اٹھاکر ہنستے ہوئے گھر میں داخل ہوئے۔ سوہا نے چھوٹی ماہا سے دستر خوان بچھانے کا کہا۔ فہد نے تھیلیوں سے گفٹ پیپر میں لپٹے ہوئے پیکٹ نکال کر ایک اسمارہ اور دوسرا سمیر کی طرف بڑھایا۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ دونوں نے بیک وقت پوچھا۔
’’ہم دونوں کی طرف سے آپ لوگوں کے لیے تحفہ ہے۔‘‘ فہد اور سوہا نے ایک ساتھ کہا۔
اسمارہ نے پیکٹ کھولا تو سونے کا سیٹ تھا۔ ’’اتنا پیارا سیٹ، یہ تو بہت مہنگا ہوگا؟‘‘
سمیر نے پیکٹ کھولا تو اس میں قیمتی موبائل تھا۔ ’’بیٹا اتنے پیسے کیوں خرچ کردیے؟‘‘ سمیر نے کہا۔
’’امی! جب بھی ہم لوگوں کو کسی چیز کی ضرورت پڑی تو آپ نے ہمیشہ ہماری ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اپنا زیور بیچ دیا، اور ابو نے بھی ہمیشہ ہمارے لیے اتنی محنت کی، اوورٹائم کیا تاکہ ہم لوگ پڑھ سکیں۔ اس لیے ہم دونوں نے بہت پہلے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جب ہماری جاب لگ جائے گی تو ہم آپ کو ضرور یہ تحفے دیں گے۔ پسند آئے آپ دونوں کو؟‘‘ فہد نے کہا۔
’’بہت اچھے ہیں، مگر بیٹا! میرے پاس سادہ موبائل ہے، کام چل رہا تھا، یہ پیسے کسی اور کام آجاتے۔‘‘ سمیر نے کہا۔
’’ابو آپ کا موبائل بہت پرانا ہوچکا، بٹن بھی اس کے خراب ہیں، مشکل وقت گزر گیا۔ ابو اب آپ اکیلے نہیں، ہم لوگ آپ کے ساتھ ہیں، اور چھوٹے بہن بھائیوں کی پڑھائی کا خرچا بھی اٹھائیں گے۔ چلیں اب کھانا کھالیں ٹھنڈا ہوجائے گا۔‘‘فہد نے مسکراتے ہوئے کہا۔
سب ہنسی خوشی کھانا کھانے لگے۔ اسمارہ اور سمیر کا رواں رواں اللہ کا شکر ادا کررہا تھا۔