فرحی نعیم
سہیل صاحب قلم اور ڈائری لیے حساب کتاب میں مشغول تھے کہ عفت بیگم چائے لے کر کمرے میں داخل ہوئیں اور ان کے آگے چائے رکھ کر خود بھی بیٹھ گئیں۔ ’’یہ آپ اتنی دیر سے کیا منشی گیری کررہے ہیں؟‘‘ انہوں نے اپنا کپ لبوں سے لگاتے ہوئے پوچھا۔
’’حساب لگا رہا ہوں، خیر سے شہوار کی بات تو طے ہوگئی، اب جہاں تک میرا خیال ہے اس کے سسرال والے شادی بھی اگلے سال کرنے کے لیے کہیں گے، تو میں اب وہی دیکھ رہا تھا کہ اندازاً کتنا خرچ آئے گا، پھر اسی حساب سے تیاری بھی کی جائے گی۔‘‘
’’بڑی دور اندیشی کا مظاہرہ کررہے ہیں، ویسے کیا خرچا آرہا ہے؟‘‘ وہ مسکرائیں۔
’’بارہ، تیرہ لاکھ تو کہیں نہیں گئے۔‘‘ سہیل صاحب پُرسوچ انداز میں بولے۔
’’بارہ، تیرہ لاکھ؟ کیا پوری شادی کا کہہ رہے ہیں؟‘‘ عفت بیگم کچھ تعجب سے پوچھ رہی تھیں۔‘‘
’’ہاں تو اور کیا، اس سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔‘‘
’’آپ کیا کہہ رہے ہیں! ارے آٹھ، نو لاکھ تو صرف بارات والے دن ہی اٹھ جائیں گے، یہ آپ کیا پوری شادی کی بات کر رہے ہیں!‘‘ وہ حیران تھیں۔
’’بیگم کیا کہہ رہی ہو! آٹھ، نو لاکھ صرف ایک دن کے! تم ہوش میں تو ہوناں؟‘‘ وہ چشمہ اتارتے ہوئے بیوی کو دیکھتے ہوئے بولے۔
’’اچھا مجھے بتائیں آپ نے کس طرح اخراجات لگائے ہیں؟‘‘
’’لو تم خود ہی دیکھ لو۔‘‘ وہ ڈائری ان کی طرف بڑھاتے ہوئے بولے۔
’’نہیں آپ ہی بتادیں۔ جہیز کی تیاری، زیورات، فرنیچر، بجلی کا سامان، بارات کا کھانا، ہال کا خرچا، اس کے علاوہ دیگر درجنوں انتظامات ہیں۔ ابٹن، مہندی کی تقریبات، پارلر وغیرہ۔ ویسے بھی وہ منگنی ہی میں مجھے اشارہ دے چکیں کہ بہت جلد دوبارہ آئیں گی۔‘‘
’’یہ دیکھو پہلے بڑے کام جو ہیں، یہ زیورات کا خرچ تقریباً ڈھائی سے تین لاکھ…‘‘
’’ڈھائی… تین…! ارے تین لاکھ میں تو صرف ایک سیٹ بنے گا اور وہ بھی ہلکا والا، اور میں نے شہوار کو ہلکے بھاری چار سیٹ دینے ہیں۔ اب آپ خود ہی سوچیں، پھر سونے کا بھائو بھی آپ کو معلوم ہی ہوگا۔‘‘ عفت بیگم میاں کی بات کاٹتے ہوئے بولیں۔
’’لیکن تم یہ دیکھو کہ آج کل سونا پہنتا ہی کون ہے! دلہن تک کو تو مصنوعی زیورات پہنائے جاتے ہیں۔‘‘
’’نہ پہنے، مجھے تو دینا ہے، آخر سسرال میں عزت رکھنی ہے یا نہیں…!‘‘
’’فرنیچر اور دوسرے سامان کے لیے تقریباً ڈھائی لاکھ، بارات کے لیے جو ہال لیا جائے گا اس پر اسّی‘ نوّے ہزار… پھر کھانا ڈیڑھ پونے دو لاکھ، ابٹن اور مہندی دونوں کی ایک ہی تقریب ہوگی جس پر کُل ملا کر لاکھ روپے کا حساب لگایا ہے، پھر شہوار کے کپڑے لتے اور دوسری اشیا کے لیے ڈیڑھ لاکھ رکھا ہے… اس کے علاوہ دوسرے سینکڑوں خرچے ہیں۔‘‘
’’آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ کیسی باتیں کررہے ہیں؟ ہم پہلی بیٹی کی شادی کررہے ہیں، آپ کا کیا خیال ہے میں وہ ہال لوں گی جو صرف اسّی، نوّے ہزار میں ملے گا! میں نے تو وہ ہال ذہن میں رکھا ہے جہاں ہماری برداری والے شادی کرتے ہیں، اور جب ہال اچھا ہوگا تو کھانا بھی اسی ٹکر کا ہونا چاہیے۔ کیا خالی قورمہ، بریانی پر ٹرخانا ہے مجھے سمدھیانے کو! غضب خدا کا، کیا سوچیں گے آنے والے! کیا ہمارے حالات اتنے دگرگوں ہوگئے؟ اور آپ کو معلوم ہے اس وقت ایک جوڑا کتنی مالیت میں بنتا ہے؟ آٹھ، دس ہزار سے کم کا کوئی سوٹ نہیں بیٹھتا، لہٰذا آپ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ ہلکے بھاری کم از کم پچاس جوڑے تو ہونے ہی ہیں۔‘‘ وہ چائے کی پیالی رکھتے ہوئے بولیں۔
’’تو کیا ہر جوڑا دس ہزار میں ہی بیٹھے گا؟‘‘
’’نہیں یہ تو نہیں کہہ رہی، لیکن دس بارہ جوڑے تو اتنے بھاری بنیں گے، آخر بچیوں کو شادی بیاہ میں بھی جانا ہوتا ہے، پھر بیڈ شیٹ بھی اس وقت عام سی تین چار ہزار سے کم کی نہیں ہوتی۔‘‘ وہ تفصیل سے بتا رہی تھیں۔
’’اور آپ نے مہندی کی تقریب کا جو حساب لگایا ہے اس کو بھی درست کرلیں۔ یہ تقریب بھی اچھی ہوگی، تقریباً ڈھائی تین سو مہمان ہوں گے، اور فرنیچر بھی مجھے اپنی بیٹی کو وہ دینا ہے جو آج کل چل رہا ہے۔ قالین، پردے، سارے الیکٹرانک آئٹم… سبھی کچھ ہوگا۔‘‘ وہ اپنی بات پر زور دیتے ہوئے بولیں۔
’’بیگم! کچھ تو خدا کا خوف کرو، یہ آخر اتنا کچھ، تمہیں انداز ہے یہ سب کچھ کہاں جاکر پہنچے گا؟‘‘
’’میں کچھ نہیں جانتی، آخر آپ کا کاروبار اچھا خاصا ہے، پھر ماشاء اللہ دونوں بیٹے آپ کے ساتھ ہیں۔ نہ جانے یہ آپ کو بچت کی کیا سوجھتی ہے! آخر ہماری دو بیٹیاں اور بھی ہیں، آج اس کی اچھی طرح شادی کریں گے تبھی تو ان دونوں کے لیے بھی اچھے گھروں سے رشتے آئیں گے۔‘‘
’’میں بچت نہیں کررہا، لیکن یہ اتنا اسراف ہے۔ سادگی میں…‘‘
’’بس…بس… یہ سادگی وادگی کی بات تو رہنے دیں، بیٹی کی شادی پر آپ کو خوب سادگی یاد آرہی ہے، جتنا زیادہ جہیز لے کر جائے گی اتنی ہی عزت ہوگی سسرال میں، یہ بھی تو سوچیں۔‘‘
’’سامان سے کیا عزت…! اور پھر دوسری بیٹیوں کی کرنی ہے اسی لیے تو میں یہ سوچ رہا ہوں۔ پہلی کی جیسے کریں، پھر ویسی ہی باقیوں کی بھی کرنی ہوگی۔‘‘
’’بس اب جیسا میں نے کہا ہے اسی طرح حساب کتاب کریں، اور آپ کو اسی طرح ہی کرنا ہے۔ اپنے طریقے سے نہیں بلکہ میرے طریقے سے چلنا ہے۔ ناک نہیں کٹوانی مجھے اپنے میکے، سسرال میں۔ اور یہ تو صرف موٹا موٹا خرچا ہے، اس کے علاوہ چھوٹے بڑے سینکڑوں اخراجات الگ ہیں، ان کو بھی ذہن میں رکھیے گا۔ ابھی کل ہی شہوار اپنی سہیلی کا بتا رہی تھی کہ کس پارلر سے وہ تیار ہوئی تھی، اُس نے بھی وہیں سے تیار ہونے کی خواہش ظاہر کی ہے۔‘‘
’’وہاں کے کیا چارجز ہیں؟‘‘ سہیل صاحب ڈھیلے لہجے میں بولے۔
’’میرے خیال سے تیس، پینتیس ہزار کہہ رہی تھی۔‘‘ وہ لاپروائی سے کہہ رہی تھیں۔
’’کمال ہے، صرف دو تین گھنٹوں کے لیے تیس، پینتیس ہزار۔ یہ پارلر والے بھی خوب کما رہے ہیں۔‘‘
’’یہ دو، تین گھنٹے زندگی میں صرف ایک دفعہ ہی آتے ہیں، آپ کیا اپنی بیٹی پر اتنا بھی خرچ نہیں کریں گے! دنیا تو نہ جانے کیا کیا کرتی ہے۔ یاد ہے محمود بھائی کی بیٹی کی شادی… ساری تقریبات ہوٹلوں میں ہوئی تھیں۔ ابھی میں نے آپ کو یہ سب تو نہیں کہا۔‘‘ وہ کمالِ بے اعتنائی سے گویا ہوئیں۔
’’یعنی اب بھی کچھ کسر رہ گئی ہے! اور تمہاری طرح مجھے بھی شہوار سے اتنی ہی محبت ہے، لیکن یہ محبت کیا صرف پیسے کے بے جا استعمال سے ہی ظاہر ہوتی ہے؟ اور جہاں تک محمود بھائی کی تم بات کررہی ہو تو وہ رہنے ہی دو۔ اوّل تو اُن کا کاروبار کئی ممالک میں پھیلا ہوا ہے، پھر وہ سب صرف نمائش کے لیے تھا۔ تم نے وہ حدیث نہیں پڑھی کہ وہ شادی زیادہ خیروبرکت والی ہوتی ہے جس میں کم سے کم مصارف کیے جائیں۔‘‘
’’بہرحال اخراجات کی تفصیل میں نے آپ کو بتادی ہے، اب آپ ایک نیا پرچہ لیں اور دوبارہ سے اخراجات لکھیں، میں شام کے لیے ہنڈیا دیکھ لوں۔‘‘ وہ حدیث سن کر کچھ کہہ تو نہیں سکیں لیکن اپنے مصارف پر بھی نظرثانی کے لیے تیار نہ تھیں، اور نہ ہی اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنا ان کو گوارا تھا۔ لہٰذا رات کے لیے کھانے کی تیاری کا کہہ کر اٹھ کھڑی ہوئیں اور سہیل صاحب سر پکڑے ان اخراجات کے بارے میں سوچ رہے تھے جو صرف لوگوں کی واہ واہ کے لیے کیے جائیں گے چاہے اس کے لیے قرضہ اور خدا کی ناراضی ہی کیوں نہ مول لینی پڑے۔