ابھی تو میں جوان ہوں

971

مریم شہزاد
۔’’تمام جوان لوگ آگے آجائیں۔‘‘ سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا تو انہوں نے اپنا جملہ تبدیل کرکے کہا ’’جن کے دل جوان ہیں وہ آگے آجائیں، بھئی میں تو اپنے آپ کو جوان سمجھتی ہوں، انسان کا دل جوان ہونا چاہیے، عمر سے کیا ہوتا ہے!‘‘
میں نے اُن کو غور سے دیکھا تو وہ یقینا 60 سال سے زائد ہی تھیں، مگر دین کو پھیلانے میں اتنی سرگرم، اتنی چاق وچوبند کہ جوان بھی اُن کے آگے پانی بھرتے دکھائی دیں۔ ان کی دل کے اندر اترنے والی باتیں اور گرویدہ بنانے والا لہجہ ہی ان کی پہچان ہے۔ انہیں دیکھ کر ہی یہ خیال آتا ہے کہ واقعی عمر کو ہم کبھی کبھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ جب ہم میں آگے بڑھنے کی، بہت کچھ کرنے کی لگن ہوتی ہے تو پھر شاید بڑھاپا نہیں آتا۔
زندگی کتنی خوب صورت ہے… بچپن، لڑکپن، جوانی اور پھر بڑھاپا۔ آہستہ آہستہ زندگی کا بڑھتا ہوا سفر جب اختتام کی طرف رواں دواں ہوتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے اب وقت ٹھیر سا گیا ہو۔ ایک انجانا سا خوف کسی کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے تو کوئی مطمئن اور شاد ہوتا ہے کہ جس اللہ نے زندگی میں سکون اور شکر ادا کرنے کا موقع دیا وہ آخرت میں بھی مایوس نہیں ہونے دے گا۔
اس سلسلے میں ہم نے کچھ بزرگوں سے بات چیت کی اور کچھ سوالات کیے تاکہ ان کی زندگی کے رنگوں سے استفادہ کرسکیں۔
ہم نے ان کا نام، عمر، شوق، کیا سیکھا، کیسا پایا، کوئی ناقابلِ فراموش واقعہ اور پیغام پوچھے۔ یہ تمام لوگ آج بھی بھرپور زندگی گزار رہے ہیں، عمر کو انہوں نے روگ نہیں بنایا۔ کہتے ہیں ’’دل جوان ہونا چاہیے، عمر سے کیا ہوتا ہے۔‘‘
نام: متین الحق، عمر: 77 سال
زندگی کو کیسا پایا: بہت اچھا، الحمدللہ، بہت سکون والی زندگی ملی، ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کیا، کبھی حسد نہیںکیا، ہاں رشک ضرور کیا۔
شوق: شکار۔ ہر قسم کا شکار۔ مچھلی کا تو بہت کیا، اس کے علاوہ ہرن وغیرہ کا بھی کیا۔
ناقابلِ فراموش واقعہ: زندگی بھری پڑی ہے ایسے واقعات سے۔ ایک بتاتا ہوں، 1975ء کا ذکر ہے کراچی سے تھوڑا آگے گھارو کا علاقہ ہے، وہاں سمندر ہے، کھاری پہ پل پر کھڑے ہوکر مچھلی پکڑتے تھے۔ ایک دن بہت گرمی تھی، مچھلی پکڑ کر سوچا کہ یہاں جھاڑیوں کے قریب بیٹھ کر پکا لیتے ہیں۔ مچھلی پک کر تیار ہوگئی تو ہم نے جھاڑیوں میں ہی جگہ بناکر دسترخوان بچھا دیا، سب آس پاس آکر بیٹھ گئے کہ مٹی نہ جائے۔ ایک دوست پتیلی اٹھا کر لایا۔ ابھی پتیلی کا ڈھکن کھولا ہی تھا کہ تیز سیٹی کی آواز آئی، ہم سب نے نگاہ اٹھا کے دیکھا تو ایک مٹی کا بگولہ گھومتا ہوا آیا اور سیدھا پتیلی کے اندر۔ اب ظاہر ہے سالن کسی کام کا نہ رہا۔ سب روٹی کھا کر واپس آ گئے۔ پندرہ دن بعد پھر سے ہم وہیں گئے تو ایک مقامی بھی ساتھ تھا، اُس نے جب ہم کو وہاں آگ جلاتے دیکھا تو بولا کیا: کر رہے ہو؟ ہم نے بتایا کہ ہم نے پہلے بھی یہاں کھانا بنایا تھا اور اس طرح مٹی کا بگولہ پتیلی میں آکر کھانا خراب کر گیا تھا، تو وہ بولا: صاحب یہاں سے اٹھو اور شکر کرو تمہارا صرف کھانا خراب کیا، خانہ خراب نہیں کیا، یہاں دوسری مخلوق کا بسیرا ہے۔ بس جناب پھر اُدھر کا رُخ نہیںکیا۔
پیغام: کسی کو بھی ترقی کرتا دیکھو تو ہمیشہ دعا دو۔
…٭…
شیریں متین… عمر: 70 سال۔ (خاتون خانہ)
زندگی کو کیسا پایا: بہت اچھا، ماشاء اللہ۔ بیٹی بہت عرصہ بیمار رہی، کبھی کبھی حوصلہ جواب دے جاتا تھا، مگر یہ تو نیچر ہے، پھر فوراً ہی شکر ادا کرتے۔
شوق: بچپن میں لکھنے کا شوق تھا، اسکول کالج تک لکھا، پھر شادی ہوگئی۔ اس کی ذمے داریاں سنبھال لیں تو لکھنا بھول گئی۔
ناقابلِ فراموش واقعہ: بیٹی کی وفات ذہن سے نہیں نکل سکتی۔ 28 سال بیمار رہی، حوصلے سے زندگی گزاری، ڈائیلاسز کرانے جاتی تھی، اُس دن بھی گئی، مگر وہیں طبیعت خراب ہوگئی اور پھر اللہ نے اس کو اپنے پاس بلالیا۔ اللہ نے دی تھی، اسی کی امانت تھی، واپس لے لی (آنسو پونچھتے ہوئے)۔
پیغام : خوش رہیں، شکر کرتے رہیں۔ آگے جانا ہے، تیاری کرتے رہیں۔
مصروفیت: گھر اور گھرداری۔ کوکنگ اب تک خود ہی کرتی ہوں، ہاتھ پیر چلتے رہنے چاہئیں۔
…٭…
نام : رخسانہ فضل… عمر: 65 سال
ہومیو پیتھک ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ گھریلو معاملات بھی خود ہی دیکھتی ہیں۔کھانا بنانے سے لے کر صفائی ستھرائی سب کرلیتی ہیں۔
زندگی کو کیسا پایا: مشکل ترین، سارے رشتے ایک آزمائش لگے۔
کیا سیکھا: بہت دیر سے سیکھنے کا خیال آیا، مگر اللہ کا شکر ہے کہ اس نے دین کی طرف بلا لیا۔
شوق: ہومیو پیتھ ڈاکٹر ہوں،کلینک سب سے بڑا شوق ہے۔
افسوس: عمر ضائع کرنے کا۔ دنیا میں جس مقصد کے لیے بھیجا گیا تھا وہ مقصد اب جاکر معلوم ہوا۔
مصروفیت : گھر کے کام۔ میری کوشش ہوتی ہے خود کام کروں، ساتھ کلینک بھی کرتی ہوں، زندگی مصروف رہتی ہے تو تجربوں سے سیکھتے رہتے ہیں۔
پیغام : خواتین ماں، بہن، بیوی، بیٹی ہیں، مگر ماں کو بہترین ہونا چاہیے تاکہ وہ آگے اولاد کی دین اور دنیا سنوار سکے۔
نام: سلیم … عمر 63 سال (ایک بڑے ادارے سے منسلک ہیں)
زندگی کو کیسا پایا: زندگی سے بھرپور پایا۔ ہم کیوں کہ جنت میں نہیں رہتے، دنیا میں رہتے ہیں اس لیے تکلیفیں بھی آئیں، مگر اللہ نے کرم کیا۔
کیا سیکھا: زندگی کے دو مقاصد سمجھ آئے، ایک یہ کہ اپنے رب کو یاد رکھیں اور اس کی مخلوق کی خدمت کریں، ان کے کام آئیں۔ یہ دنیا ایک ٹارگٹ ہے اللہ کی طرف سے۔ علامہ اقبال کا شعر ہے:
خدا کے عاشق توہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیںمارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
شوق: عمر کے حساب سے بدلتے رہتے ہیں،اب اس عمر میں آکر گھومنا پھرنا اور اپنی فیملی لائف کو انجوائے کرنا اچھا لگتا ہے۔ ویسے مجھے بچوں کے لیے کام کرنا اچھا لگتا ہے اور لگتا ہے کہ جو بچوں کو فوکس کرتے ہیں وہی ترقی کرتے ہیں۔
افسوس کس بات پر ہوتا ہے: انسان گناہوں پر پچھتاتا ہے، لیکن غلطیوں پر افسوس ہوتا ہے۔
ناقابلِ فراموش واقعہ: واقعات تو بہت ہیں، ایک مزے کا واقعہ سناتا ہوں۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب میں آٹھویں جماعت میں تھا، ہم کچھ دوستوں نے مل کر خط لکھا کہ ہم ڈاکو ہیں اور فلاں دن آئیں گے، اور اس پر پاؤں کے انگوٹھے سے مہر لگا دی۔ اب ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ معاملہ اتنا سیریس ہوجائے گا۔ اس دن میرے ابا اور چاچا سمیت سب ہتھیار لے کر بیٹھ گئے، پولیس کو بھی بلا لیا۔ اب یہ یاد نہیں کہ کیسے معاملہ نبٹا، مگر ہم بہت ڈر گئے اور آئندہ کے لیے توبہ کی۔
مصروفیت: ایک ادارے میں ڈائریکٹر ہوں، مختلف میگزین کو ہیڈ کرتا ہوں۔
پیغام: اللہ تعالیٰ نے جو وقت، وسائل اور صلاحیتیں دی ہیں ان میں دوسروں کا بھی حصہ ہے۔ سب کی مدد کریں، جس طرح بھی ممکن ہو۔
…٭…
نام: ذوالفقار احمد۔ عمر 77 سال (اپنے سب کام خود کرتے ہیں)
کیسا پایا زندگی کو: الحمدللہ، نشیب وفراز سے بھرپور۔
کیا سیکھا : صبر اور استقامت سے سب کام آسان ہوجاتے ہیں۔
مصروفیات : اپنے آپ کو حتی الامکان مصروف رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ زیادہ ترآفس یا مسجد میں وقت گزرتا ہے ۔
افسوس: کوئی افسوس نہیں، جو وقت گزرا بہت اچھا گزرا۔
پیغام: ہر حال میں صبر اور شکر کی عادت اپنائیں اور خالی نہ بیٹھیں، ٹینشن نہ لیں، خوش رہیں۔
…٭…
ڈاکٹر پروین۔ عمر 73 سال۔ ایلوپیتھک اور ہومیوپیتھی ڈاکٹر ہیں اور ساتھ ہی ایک فلاحی ادارہ بھی چلا رہی ہیں۔
زندگی کو کیسا پایا: بہت اچھا، بہترین۔
کیا سیکھا زندگی سے: ابھی تک سیکھ ہی رہے ہیں، انسان مرتے دم تک سیکھتا ہی رہتا ہے۔
شوق: سب کاموں کا شوق ہے، خدمتِ خلق کا بہت زیادہ۔ اور اللہ کا شکر ہے کہ اُس نے توفیق دی ہوئی ہے۔ زندگی کا مقصد ہے یہ تو۔ اس کے علاوہ گھومنے پھرنے کا بھی شوق ہے۔
افسوس کس بات پر ہوا: بہت سی غلطیوں پر افسوس ہوتا ہے، اور کوئی جھوٹ بولے اس پر بہت زیادہ، جھوٹ بولنے والوں پر بھی اور جھوٹ پر بھی۔
مصروفیت: کلینک اور پھر ادارے کے ذریعے مخلوق کی خدمت، اس کے علاوہ گھر کے سب کام بھی کرلیتی ہوں، سلائی بھی اب تک کرلیتی ہوں۔
پیغام: کام کام اور بس کام کرتے رہیں، جو نعمتیں اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہیں اُن کو استعمال کریں اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی۔
…٭…
اور اب شہناز باجی، جن کی بات سے میں نے اس فیچر کا آغاز کیا تھا، اور جن کو دیکھ کر ہی دوسرے ایکٹو لوگوں سے بات چیت کا خیال آیا۔ کہتی ہیں کہ جو لوگ جوانی میں ایکٹو ہوتے ہیں وہ بڑھاپے میں بھی ایکٹو رہتے ہیں۔
آپ نے زندگی کو کیسا پایا : جب مقصدِ زندگی پایا تو بہت قیمتی پایا۔ پہلے تو عمومی زندگی تھی، اصل مقصد تو بعد میں پتا چلا۔
کیا سیکھا: زندگی فالتو گزارنے کی چیز نہیں، اللہ نے جس مقصد کے لیے بھیجا ہے کوشش کریں کہ اس کو سمجھیں، اجتماعیت سے جڑیں۔
شوق: پڑھنے کا شوق بہت زیادہ ہے، کاغذ کا کوئی ٹکڑا بھی مل جائے تو پڑھتی ہوں، اب یہ شوق مولانا مودودیؒ کی کتابوں اور تفسیر سے پورا ہوتا ہے۔
افسوس کس بات پر ہوا: پچھلی زندگی پر، جو شعور کے بغیر گزاری۔ پہلے ہی اللہ سے سودا کرلیتے تو اچھا ہوتا۔
مصروفیات: دادی، نانی ہوں۔گھر کے ساتھ ساتھ اللہ کے دین کو پھیلانے میں پیش پیش ہوں۔
پیغام: سب سے اچھا پیغام تو اللہ کا سورۃ العصر کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے، اور میں بس یہی کہوں گی کہ زندگی کو رب کی رضا کے لیے گزاریں تاکہ آخرت کی جواب دہی سے بچ جائیں۔
اس پیغام کے ساتھ ہی یہ دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو بڑھاپے میں جوانوں کی طرح اللہ کے راستے پر چلنے کی توفیق دے۔

نظم و ضبط کا مسئلہ حل کریں

والدین اور اساتذہ میں وہ کون سی چیز ہوتی ہے جو بچوں میں نفوذ کرجاتی ہے اور انہیں ان کے احکامات بجا لانے اور قواعد و ضوابط کی پابندی کرنے پر مجبور کرتی ہے؟ دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ کچھ لوگ کس طرح نظم و ضبط برقرار رکھتے ہیں اور کچھ لوگ ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ میں نے اکثر ایسے اساتذہ کو دیکھا ہے جنہیں ایک ہی دن میں طلبہ کی ایک جماعت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک استاد جب جماعت میں جاتا ہے تو بچے خاموش اور باادب ہو جاتے ہیں، اسباق کو منہمک ہوکر پڑھتے ہیں، کمرۂ جماعت سے باہر نہیں جاتے۔ لیکن جب دوسرا استاد اسی جماعت میں جاتا ہے تو بچے سرگوشیاں کرتے ہیں، سبق میں دلچسپی نہیں لیتے اور بہانے بہانے سے کمرۂ جماعت سے باہر جاتے اور آتے رہتے ہیں۔ ایک استاد کی موجودگی میں جماعت کا نظم و ضبط مثالی ہوتا ہے جب کہ دوسرے استاد کی موجودگی میں اس کے تاروپود بکھر جاتے ہیں۔
اچھا نظم و ضبط والدین اور اساتذہ کے لیے ایک نایاب جنس بن چکا ہے۔ اس جنس کو کس طرح حاصل کیا جائے؟ مجھے پختہ یقین ہے کہ اگر آپ بطور والدین یا بطور استاد کے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے مندرجہ ذیل اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہیں تو بچوں میں نظم و ضبط کا فروغ مشکل نہ ہوگا:
-1 خود بھی یقین کریں اور بچوں کو بھی یقین دلائیں کہ آپ ان کے دوست ہیں، اور جو اقدامات کررہے ہیں وہ ان کے مفاد میں ہیں اور آپ کے لیے ناگزیر۔
-2 ہمیشہ استقلال اور استقامت سے ان کے اچھے رویوں کی تعریف کریں اور انہیں تھپکی دیں، لیکن جب وہ ناقابلِ قبول رویّے اختیار کریں تو ان کو سزا بھی دیں اور ان کے رویّے پر ناپسندیدگی کا اظہار کریں۔
-3 آپ انہیں جو بھی کہیں یا جس قسم کی دھمکی بھی دیں اُس پر قولاً فعلاً عمل کریں۔
-4 آپ جو اقدامات کررہے ہیں ان پر آپ کو پورا اعتماد اور ان کا پورا جواز موجود ہونا چاہیے۔ آپ ہر قدم پورے وثوق، اعتماد اور ہوش و خرد سے اٹھائیں۔
-5 ہمیشہ بچے سے پوچھیں کہ اس کا مؤقف کیا ہے؟ وہ اپنے دفاع میں کیا کہنا چاہتا ہے، اس کی بات پوری توجہ سے سنیں۔ کوئی فیصلہ فوری نہ کریں، عین ممکن ہے کہ کبھی آپ غلط فیصلہ بھی کر گزریں تو آپ اپنی غلطی کھلے دل سے تسلیم کریں اور معذرت کریں۔ اس سے آپ کا وقار بڑھے گا۔ بچوں سے گفت و شنید کا سلسلہ قائم رکھیں۔

حصہ