مہوش کرن
کسی بھی کام کو کرنے سے قبل اس کے پس پشت کئی عوامل کا ہونا ضروری ہے، بغیر کسی خاص مقصد کے بغیر کوئی بھی ایکٹویٹی بے کار تصور کی جاتی ہے۔ حال ہی میں میں ایک مارچ کیا گیا۔ یہ مارچ کچھ طلبہ و طالبات کی جانب سے ہوا۔ مارچ میں کئی طلبہ نے سرخ رنگ کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔ جن پر طرح طرح کے نعرے بھی درج تھے۔ مارچ کا بظاہر مقصد تو طلبہ یونین کی بحالی تھی مگر دوران مارچ کئی دیگر چیزیں بھی سامنے آئیں۔ طلبہ یونین بحالی کے معاملے پر تمام حکومتیں اور پارٹیاں اتفاق رائے رکھتی ہیں۔ اس کے لیے اتنا زیادہ مارچ اور اس میں اس قدر شور شرابے کی قطعی ضرورت نظر نہیں آتی۔ البتہ اس مارچ میں جو کچھ دیگر تھا وہ ضرور فکر انگیز تھا۔ یونیورسٹیوں سے سیکورٹی فورسز کو ہٹا کر سیاسی تنظیموں کو متحرک کیا جائے۔ کمیونزم کے حق میں نعرے لگائے گئے۔
اب کوئی بھی باشعور انسان یہ سوچ سکتا ہے کہ آخر تعلیمی اداروں میں سیاست کا کیا کام؟ کیونکہ جب تعلیم کے درمیان اس قسم کی دخل اندازی ہو تو طالب علم تعلیم سے دور ہوکر وقت کے ضیاع میں لگ جاتا ہے اور آخرکار ہاتھ میں ڈگری آ بھی جائے تو بھی قابلیت کہیں دور ہی رہ جاتی ہے۔ ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایک اسلامک اسٹیٹ کے پیدائشی و رہائشی ہوتے ہوئے بھلا کمیونزم کے حق میں لال رنگ اور خون کے حوالے دے کر نعرے بازی کیوں کی گئی۔
یوں ان لوگوں کی نیت کا کھوٹ نظر آرہا ہے کہ ان لوگوں کا گروہ اور اس طرح کی سوچ رکھنے والے لوگ اس ملک اور یہاں کی نوجوان نسل کے ساتھ کتنے مخلص ہیں۔ جب بنیادیں درست ہوں گی تو یقینا عمارت بھی مضبوط اور پائیدار ہوگی وگرنہ معاملات یکسر مختلف ہوں گے۔ اس لیے نیت کا درست ہونا اور مقصد کا تعین ہونا نوجوانوں کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ کون کیا اور کیوں کررہا ہے۔ بات غلط اور صحیح کی تب ہوتی ہے جب کہنے والے کی بات میں کچھ ہو، جب بات ہی سرے سے غلط کی ہورہی ہو تو پھر یہ تعین کرنا مشکل نہیں ہوتا کہ کیا درست ہے اور کیا غلط اور یہ بات ایک نوجوان اچھے سے سمجھ سکتا ہے خاص طور پر اس وقت جب وہ کسی تعلیمی ادارے میں اپنی فکری سوچ کو پروان چڑھا رہا ہو۔
مارچ میں مطالبات کی سمجھ یا اس گروہ کے شعور و ادراک کی بات کی جائے تو یہ لازم ہوگا کہ معلوم ہومطالبات کس قسم کے ہیں اور کرنے والے دراصل خود کون لوگ ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ لبرلز کا ایک گروہ ہے جو کہ ہمارے ہیروز کے طور پر جن لوگوں کو گن رہے ہیں وہ بارڈر پار بھارت کی ادبی و تاریخی شخصیات ہیں۔ اگر ہم بہت فراخ دلی کا ثبوت دے کر ان کے چند مطالبوں کو درست مان لیں مثال کے طور پر یہ کہ یکساں تعلیمی نظام ملک میں نافذ ہونا چاہیے لیکن اس مطالبے کی آڑ میں تمام اسلامی تعلیمی اداروں کو بند کرنے کی بات کرنا یقینا دال میں کچھ کالا ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔یہ مطالبات معاشرے اور خاص طور پر طالب علموں پر کس طرح اثرانداز ہوں گے۔ دین میں تعلیم کا مقصد انسان کو انسان بنانا ہے نہ کہ جانوربنانا۔ اس طرح کی حرکتیں باقی طالب علموں کو بھی بغاوت پر ہی اکسائیں گی۔
حصول علم کا مقصد انسان کو بااخلاق، باکردار بنانا ہے۔ اس طرح ہر فرد خود ہی اپنے فرائض پورے کرنے لگتا ہے تو بذاتِ خود سب کے حقوق بھی پورے ہوجاتے ہیں لیکن یہاں تو نہ صرف مرد بلکہ عورتیں بھی اپنا وقار کھو کر بے تکی اور بے ہودہ حرکتیں کرتی نظر آرہی ہیں اور کوئی بھی فرائض کی ادائیگی کی بات نہیں کررہا۔ یہی ہر بار، ہر احتجاج میں ہوتا ہے۔ چاہے عورت کا آزادی مارچ ہو یا طالب علموں کا۔
سوال یہ بھی اہمیت کا حامل ہے کہ آخر یہ لوگ ہر وقت کس چیز سے آزادی مانگتے ہیں؟ اصل آزادی تو یہ ہے کہ انسان دوسرے انسانوں کی غلامی سے آزاد ہوکر بس ایک اللہ کی غلامی کرے۔ ان حالات میں خود اپنے دل سے فتویٰ لیں کہ یہ سب کام کرکے یا کسی بھی صورت اس کام کی حمایت کر کے آیا میں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری ہوں۔ کیا اپنی بات منوانے کا واحد طریقہ احتجاج ہی ہے؟ جواب صاف ہے کہ ہرگز نہیں۔ سب اپنے فرائض پورے کرنے لگ جائیں تو دوسروں کے حقوق خود ہی ادا ہوتے جائیں گے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ طلبہ یونین کی بحالی غلط مطالبہ نہیں ہے۔ جو طالب علم ووٹ دینے کا اہل ہے یقینا وہ یونیورسٹی میں قیادت کی بھی اہلیت رکھتا ہے۔ اس لیے طلبہ کی قائدانہ صلاحیتیوں کواجاگر کرنے کے لیے یہ اقدام درست ہے اور ایسا ہونا چاہیے۔ یہاں تک تو بات درست ہے اور اس کی سب حمایت بھی کرتے ہیں۔ البتہ جب بات ہوتی ہے ہنگامہ خیز مارچ جس میں سخت رویے کے ساتھ لب و لہجے کا استعمال کیا گیا۔ جہاں نعروں میں ملکی اداروں کے خلاف اور اسلامی سرحدوں پر قدغن لگانے جیسی بو محسوس ہورہی تھی تو وطن عزیز ایسے کسی بھی مطالبے یا آزادی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
ملک کی نظریاتیں سرحدوں اور مذہبی اقدار پر صورت ڈاکے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اب وہ چاہیے طالبان کی صورت میں ہوں، یاد اعش کی ، یا کسی تخریبی گروہ کی یا پھر کسی یونیورسٹی میں پڑھنے والے طالب علم کی شکل میں ہو۔ دشمن ملک و اسلام کسی بھی صورت میں نہ تو قبول ہے اور نہ برداشت کیا جاسکتا ہے۔ اب چاہیے وہ لال لال کے نعرے مار کر آئے یا پھر کسی لڑکے کے گلے میں پٹا ڈال کر آئے، وہ چاہیے اپنا کھانا خود گرم کرو کے نعرے کو فروغ دے یا پھر کسی فحش پروگرام کا انعقاد کرے وہ کسی حال میں قبول نہیں ہوگا۔ ایسے میں طلبہ یونین تو بحال ہوجائے گی مگر اس نعروں کے ساتھ فساد کی بحالی نہیں ہوسکے گی۔ اس لیے جہاں طلبہ یونین کی بحالی اہم ہے وہیں فسادی گروپوں پر پابندی بھی ضروری ہے۔