عظمیٰ ظفر
ایک زور دار دھموکا امی نے میری پیٹھ پر جڑا تھا۔ میں اس ڈرون حملے سے بالکل نا واقف تھا لہٰذا اس کی زد میں آگیا۔
’’آ ئی ای… امی…!کیا ہوا؟‘‘ میں نے تلملا کر پوچھا۔
’’یہ تم نے کریلے قیمے بنائے ہیں کیا کریلے کا حلوہ؟ سارے کریلے تو گھل گئے جیسے… تھوڑے کھڑے کھڑے رہتے ہیں کریلے ، خوب چلایا ہوگا چمچ گھما گھما کہ ہنڈیا میں۔‘‘امی نے چشمے کے پیچھے سے اپنی آنکھیں گول گول گھما کر کہا۔
’’لو بھلا مجھے کیا معلوم کریلوں کو کھڑا رکھنا تھا… میں نے چمچ مار مار کر لٹا دیا آپ بتا کر جاتیں نا میں نے منہ بسورا۔‘‘
’’ہائے میری تقدیر، کب عقل آئے گی اس کو؟‘‘امی نے عقل کو کوسا۔
’’اب آپ عقل کو کوسیں گی پھر سارے خاندان کو کہ کیسا پھوہڑ لڑکا ہے ناک کٹوا دی وغیرہ وغیرہ۔‘‘
’’بس ٹر ٹر بولے جاؤ بچے،، شاباش ہے تم پر ایسی پرورش کی ہے میں نے تمہاری۔‘‘امی کی ڈرامائی ایموشنل بلیک میلنگ شروع ہوچکی تھی۔
گھر کے سارے کام منہ کھولے پڑے تھے کچھ پہ تو مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ پورے دو گھنٹے لگا کر دل سے امی کے حکم پر سالن تیار کیا تھا مگر نہیں‘ انھیں پسند آجائے نا ممکن۔ ’’خود تو گھومنے چلی جاتی ہیں سارا گھر مجھ پر چھوڑ کے جوان جہان لڑکے کو اکیلا چھوڑ کر جاتے ہوئے دل نہیں دکھتا آپ کا، تب دکھ نہیں ہوتا آپ کو امی… کریلے کا غم لگ گیا اب۔‘‘ میں بڑبڑاتے ہوئے کمرے کی جانب جیسے ہی بڑھا۔ امی نے اپنی دو پٹی والی چپل پیر سے نکال کر سے ایسا نشانہ لیا کہ کیا ، بولر گیند پھینکتے ہوں گے، زن… کرکے میری کمر پر لگی جیسے وکٹ اُڑا دی چپل نے‘ شکر ہے جینز کی پینٹ ٹکی ہوئی تھی۔
’’نا تو مجھ سے پوچھ کر مریں گے لوگ اب ! فوتگی میں گئی تھی میرے بچے، ولیمے میں نہیں۔‘‘ امی نے خوب چبا چبا کر کہا۔
میرا اتنا دل خراب ہوا کہ کمرے میں دروازہ بند کر کے بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر میں گرم روٹیوں کی خوشبو پھیلنے لگی۔ ’’چل اب آکر کھانا کھالے روٹیاں بن گئی ہیں۔‘‘ امی نے ہلکی سی آواز دی۔
’’مجھے نہیں کھانا آپ کھائیں…‘‘ میں ابھی تک روٹھا ہوا تھا۔
’’اچھا تو ٹھیک ہے برتن دھوکر رکھ دینا۔‘‘ (امی کو فرق نہیں پڑنے والا تھا ) ’’میں شمیم کے گھر سے ہو آؤں اس کی بہن کا انتقال ہوا ہے اداس ہے بے چاری۔‘‘
’’شمیم خالہ بہت رو رہی ہوں گیں نا امی؟‘‘ میں نرم دل کا تھا غم زدہ ہوکر نکل آیا کمرے سے اور پوچھنے لگا۔
’’نہیں !! خوش ہو رہی تھیں… اچھل‘ اچھل کر کہہ رہی تھی میری بہن مر گئی…میری بہن مر گئی، کب عقل کی بات کرے گا سرور تو…؟ کوئی مرتا ہے تو دکھ ہی ہوتا ہے ناں‘ یہ کوئی پوچھنے والی بات ہے بھلا؟ یہ پھیلاوا سمیٹ لینا میرے آنے تک کہیں اس موئے ایف ایم کے کان مروڑنے مت بیٹھ جانا اور نہ ہی میرے جاتے فردوس کی دیوار سے لٹک کر فرید سے باتیں کرنے لگ جانا… بڑا دل لگتا ہے کن سوئیاں لینے میں خالہ خیرن ہو تم دونوں۔‘‘
امی نے اپنے چودہ نکات ایسے رکھنا شروع کردیے میرے سامنے کہ بھوک کے مارے پیٹ میں چوہے دوڑنے لگے۔ ابھی میں نے دہائی دینے کے لینے اپنے پنکھڑی جیسے لب وا ہی کیے تھے کہ امی جا چکی تھیں۔
چشم تصور میں شمیم خالہ کو روتا دیکھ کر رونے سے زیادہ ہنسی آگئی۔ میری کہانی سن کر آپ کو بھی ہنسی آرہی ہوگی نا… دراصل میں چار بہنوں کا اکلوتا سب سے چھوٹا بھائی ہوں۔ دادی تو پوتے کی حسرت دل میں لیے دنیا سے گزر گئیں اور غم میں بہنوں کی پیدائش کی خوشی میں ریوڑیاں بھی کبھی نہ بانٹیں۔ رہ گئے قبلہ والد حضور تو وہ میری پیدائش کی خوشی برداشت نا کرسکے اور تھوڑے عرصے میں ہی امی کو داغ مفارقت دے گئے یوں امی کو اکلوتے بیٹے کی آمد پر یکے بعد دیگرے (رکشے والے ایسے جھٹکے لگے) کہ وہ میری ذات سے خوامخواہ نالاں ہوگئیں اور میری پرورش لڑکپنے تک چاروں باجیوں کے ہاتھوں میں ہونے لگی میں ایک فٹ بال تھا جسے سب اچھالتی رہتیں۔ کوئی میری پونی بنا دیتا تو کوئی پیار سے سرخی پائوڈر مل دیتا رفتہ رفتہ میرے اندر بھی ساری زنانہ عادتیں جڑ پکڑنے لگیں۔
گڑیا گڈے کی شادی ہو یا گھر گھر کھیلنا ہو ، کریانے سے چورن چٹنی لانی ہو یا امی سے چھپ کر چوری چوری ڈائجسٹ پڑھنا ہو، آپا کے لیے گول گپے لانا ہوں یا منجھلی آپا کے لیے ریشم کے دھاگے‘ کسی کا بیلنس ڈلوانا ہو یا چھٹکی آپا کے بالوں میں چٹیا ڈالنی ہو سب کام آتے تھے۔
آپا کی شادی کے بعد امی کو احساس ہوا کہ ان کا سرور بھی اسی گھر کا بچہ ہے انھوں مجھے اب بہنوں سے دور رکھنا شروع کیا تب تک بہت دیر ہوچکی تھی مگر امی نے اتنی سختی کی کہ وہ مجھے الگ کمرے میں سلانے میں کامیاب ہوگئیں جس کمرے میں دادا کی بندوق بھی ٹنگی رہتی تھی اس کے ڈر سے مجھے جلدی نیند آجاتی۔
ایک ایک کرکے تینوں آپاؤں کی شادیاں ہوگئیں تو میری دوستی چھٹکی آپی سے زیادہ ہوگئی ان کے ساتھ ساتھ میں باورچی خانے کے کاموں میں بھی طاق ہوگیا۔ وہ میری سہیلی تھیں اور میں ان کا سہیلا مگر یہ ساتھ بھی کچھ عرصے رہا چھٹکی کی رخصتی جب ہوئی تو میں ایسا رویا کہ سب ہی رو پڑے۔
دولہا بنے تیمور بھائی زہر لگ رہے تھے جو چھٹکی آپی کو لے کر جا رہے تھے‘ غصے میں ان کے سہرے کی لڑیاں بھی کھینچ دی تھیں۔ پھر میں تھا اور امی کی صلواتیں تھیں۔
میرے سگھڑاپے کو دیکھ کر امی نے گھر کے کاموں سے ہاتھ اٹھا لیا اور محلے والوں کی خدمت خلق شروع کردی۔ فردوس خالہ کا فرید پڑوسی بھی ہے اور اسکول کا دوست بھی۔ باقی وقت اس کے ساتھ گزارتا ہوں۔ گھریلو لڑکوں کے بھی اپنے دکھ سکھ ہوتے ہیں۔ مگر یہ درد ہر کوئی نہیں جان سکتا۔
اچار میں مسالہ ڈالنا ہو یا نہاری کی ترکیب ، آڑا پاجامہ کٹوانا ہو، سیب کا مربع بنوانا ہو یا نلکے ٹھیک کروانا سرور حاضر ہے آپ جب چاہیں آواز دے سکتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ امی آجائیں میں گھر کے کام سمیٹ لوں،باقی باتیں پھر کبھی۔