’’وقار بھائی! آپ کی آنکھیں سرخ ہورہی ہیں، کیا ہوا؟ اپنی آنکھیں چیک کروائیں، کہیں انفیکشن تو نہیں ہوگیا؟‘‘
’’نہیں نہیں ایسی بات نہیں، رات سو نہیں سکا اس لیے محسوس ہورہا ہے۔‘‘
’’کیوں، خیریت تو تھی؟‘‘
’’ہاں ہاں سب خیریت ہے۔ دراصل رات ہمارے محلے میں کتوں کے درمیان بھونکنے کا عظیم الشان مقابلہ ہورہا تھا، ایک کے بعد دوسرا، پھر تیسرا کتا اپنی بے سُری آواز کا جادو جگانے میں مصروف تھا۔ کتوں کی جانب سے پیش کیے جانے والے مظاہرے نے سونے نہ دیا، اسی لیے آنکھوں میں سرخی دکھائی دے رہی ہے۔‘‘
’’واقعی کتے تو بہت ہوگئے ہیں، ہر محلے کی یہی صورت حال ہے۔ شکور بھائی بتارہے تھے کہ پچھلے دنوں اُن کے پوتے کو کتے نے کاٹ لیا تھا، علاج کروانے میں بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، پنڈلی کا گوشت بھرنے میں ابھی خاصا وقت لگے گا۔ ویسے حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں کتے آئے کہاں سے؟ چلو اگرآہی گئے ہیں تو عوام کی زندگیاں محفوظ بنانے کے لیے بلدیاتی ادارے ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی کارروائی کیوں نہیں کرتے؟‘‘
’’اس میں حیران اور پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ صوبہ سندھ، خاص طور پر ہمارا شہر کراچی کتوں کی افزائشِ نسل کے لیے آئیڈیل اور محفوظ خطہ بنتا جارہا ہے، ایسا علاقہ جہاں ان کی زندگیوں کو کوئی خطرہ نہیں، ایسا علاقہ جہاں وہ بآسانی اپنے شکار پر جھپٹ سکیں اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ یعنی یہ خطہ کتوں کے لیے ایسا علاقہ بن چکا ہے، جہاں صوبائی و بلدیاتی اداروں کے بجائے ان کے اپنے قوانین چلا کرتے ہیں۔‘‘
’’مذاق چھوڑیں وقار بھائی! ایسا تو نہ کہیں۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ سرکاری اداروں نے ہمیشہ آوارہ کتوں کے خلاف کارروائی کی۔ مجھے یاد ہے بلدیہ کے اہلکار آوارہ کتوں کو زہر دے کر مار دیا کرتے تھے، یہی طریقہ آج بھی رائج ہے۔‘‘
’’میں مذاق نہیں کررہا، یقین نہیں آتا تو صوبہ سندھ کی سرحد پر جاکر دیکھ لو، کس طرح سارے ملک سے کتوں کی مع اہل وعیال آمد جاری ہے۔ ظاہر ہے جہاں شکار کرنے کے بہتر مواقع میسر ہوں، شکاری وہیں کا رخ کرتے ہیں۔ سندھ حکومت کی جانب سے آوارہ کتوں کے خلاف کارروائی نہ کیے جانے کے باعث ملک کے طول وعرض سے تعلق رکھنے والے کتوں کے مختلف جتھوں نے اِس مرتبہ اپنا سالانہ کنونشن بھی ہمارے ہی صوبے میں رکھا ہے۔‘‘
’’آپ کی باتوں سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے جیسے سندھ سرکار جانوروں کے تحفظ کے نام پرآوارہ کتوں کے خلاف اقدامات کرنے یعنی اُن کا خاتمہ کرنے کے بجائے ان کی محافظ بنی ہوئی ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر اِس حکومت اور مودی سرکار میں کیا فرق؟ وہ بھی تو گائے کو ذبح نہیں کرنے دیتے، اُن کے نزدیک گائے کو ذبح کرنا بھی تو جانوروں کے عدم تحفظ ہی کے زمرے میں آتا ہے۔‘‘
’’نہیں نہیں ایسا بالکل نہیں ہے، گائے ہمارے لیے حلال جانور ہے۔ وہاں گائے ذبح کرنے پر پابندی اٹھارہویں صدی میں ہندوئوں کی طرف سے چلایا جانے والا ایسا سیاسی چکر ہے جس کی وجہ سے لاکھوں مسلمانوں کی جان جا چکی ہے۔ یہ سیاست ہندو مذہب میں اس قدر سرایت کرچکی ہے کہ آج بھارت میں ہندوؤں کی طرف سے گائے کو ’گاؤ ماتا‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ اسی لیے ہندو مت کے احکامات پر عمل کرنے والے بہت سے افراد کے مطابق بیف کے لیے گائے کو ذبح کرنا ’توہینِ مذہب‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی لیے ہندو برادری کی اکثریت کے نزدیک گائے ایک مقدس جانور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی دھویں میں ڈوبی ہوئی سڑکوں پر گائے مزے سے ٹہلتی پھرتی ہے جہاں کوئی اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کرتا، بلکہ مختلف تہواروں پر اس جانورکی پوجا تک کی جاتی ہے۔ مذہبی تہواروں سے پہلے مندروں سے منسلک لوگ گائے کی پیشانی پر رنگ لگاکر نہ صرف اسے گلیوں، محلوں میں لیے پھرتے ہیں اور خیرات اکٹھی کرتے ہیں بلکہ اب تو بھارت میں ایک رسالہ بھی شائع ہوتا ہے جس کا نام ہے ’انڈین کاؤ‘ یا بھارتی گائے ہے۔ اس کے علاوہ ایک خیراتی ادارہ یا ٹرسٹ بھی ایسا ہے جس کا نام ’لو فور کاؤ‘ یا گائے سے پیار ہے۔ ایک ہندو قوم پرست جماعت نے تو بناؤ سنگھار یا میک اپ کی ایک نئی قسم بھی متعارف کرائی ہے جس میں گائے کا پیشاب اور گوبر استعمال کیا جاتا ہے۔ اور تو اور، بھارت کی ایک ریاست میں وزیرِ گائے بھی لگا دیا گیا ہے۔ ہاں ایک اعتبار سے دونوں سرکاریں ضرور ایک سا ہی کام انجام دے رہی ہیں، یعنی دونوں طرف انسانوں کے بجائے جانوروں کا ہی تحفظ کیا جارہا ہے۔‘‘
’’آپ کہہ رہے ہیں کہ بھارت میں حلال جانور (گائے) کے ذبح پر لگائی جانے والی پابندی سیاسی نوعیت کی ہے، تو ہمارے ہاں آوارہ کتوں (حرام جانور)کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے پیچھے کون سی سیاست کارفرما ہے؟‘‘
’’یہ سب دبائو کا نتیجہ ہے۔ مختلف این جی اوز بناکر بین الاقوامی فنڈنگ پر موج اڑانے والے اس طرح ہی کیا کرتے ہیں، مثلاً جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے کی سربراہ کی ہی بات سن لو، وہ کہتی ہیں: ’’ہمارا مقصد جانوروں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بناناہے، اور خاص طور پر شہروں اور دیہات میں موجود آوارہ کتوں، بلیوں، گدھوں، گھوڑوں اور اونٹوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنا ہے۔ ہمیں لوگوں کی جانب سے آوارہ جانوروں کے حوالے سے کالز موصول ہوتی ہیں، جس پر اب تک ہم پانچ ہزار سے زائد کتوں اور بلیوں کو ریسکیو کرچکے ہیں۔ محترمہ مزید فرماتی ہیں:’ ’ہمارے معاشرے میں ایک عجیب سوچ نے جنم لیا ہوا ہے کہ آوارہ کتوں کو زہر دے کر مار دیا جائے، جبکہ بیرونی ممالک کے لوگ مختلف نسلوں کے کتوں اور بلیوں کو اپنے گھروں میں پالتے ہیں‘‘۔ جانوروں کے حقوق کے ادارے کی سربراہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’آوارہ کتوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کاٹتے ہیں۔ ایسا بالکل نہیں ہے، بلکہ اس کی وجہ لوگوں کا کتوں کے ساتھ برا رویہ ہے‘‘۔ اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لیے کچھ یوں فرماتی ہیں: ’’میں نے اب تک پانچ ہزار سے زائد کتوں کو ریسکیو کیا ہے، مجھے تو اب تک کسی ایک کتے نے بھی کچھ نہیں کہا۔ جانور پیار کے بھوکے ہوتے ہیں، اگر ہم نے جانوروں کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا تو یہ انسانیت کے ساتھ بھی ظلم ہوگا‘‘۔ جب اس قسم کے اداروں کی جانب سے دی جانے رائے کا احترام کیا جائے گا تو انسانیت سے زیادہ تحفظ خونخوار جانوروں کا ہی کیا جائے گا۔‘‘
’’کبھی آپ کہتے ہیں یہ مسئلہ مذہبی نوعیت کا ہے، کبھی اسے معاشرتی بتاتے ہیں، کبھی اسے حکمرانوں کی نااہلی گردانتے ہیں تو کبھی کہتے ہیں کہ دبائو ہے۔ یقین کیجیے آپ کی باتیں میرے پَلّے نہیں پڑ رہیں، جبکہ سندھ حکومت تو ان آوارہ کتوں کے خلاف کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ میرے علم میں ہے کہ سندھ حکومت نے صوبے بھر کے دیہی و شہری علاقوں میں آوارہ کتوں کی بہتات سے نمٹنے کے لیے جامع منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت آوار ہ کتوں کو اینٹی ریبیز انجکشن لگایا جائے گا اور آوارہ کتوں پر اسپرے کرکے ان کی نس بندی کی جائے گی، اس طرح افزائشِ نسل روک کر آوارہ کتوں کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ حکومت اس کے سوا کیا کرے؟ آپ کیا چاہتے ہیں کہ سندھ حکومت بھی بھارت میں لگائے جانے والے وزیر کائو (گائے)کی طرح وزیر ڈوگ (کتا) کا محکمہ بنادے۔‘‘
’’میری باتیں تمہاری سمجھ میں نہیں آئیں گی، لہٰذا تمہاری جانب سے بیان کردہ سندھ حکومت کی کارکردگی پر ہی بات کرلیتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سندھ بھر میں 6 سے 7لاکھ آوارہ کتے ہیں، اور سندھ حکومت آوارہ کتوں کو زہر دے کر مارنے کے بجائے کے ٹی این آر منصوبے (جس کا تم نے ذکر کیا) کے تحت آئندہ 5 سال میں ان کی افزائشِ نسل روک کر انہیں مکمل طور پر ختم کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے۔ یہی کہا ہے ناں تم نے؟ اب سنو، اس منصوبے پر 40 سے 50کروڑ روپے کی لاگت آئے گی، اور آوارہ کتوں سے محفوظ رہنے کے لیے پیسوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ عوام کو پانچ سال مزید انتظار کرنا پڑے گا۔ سوچو اگر پانچ سال بعد مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہوئے تو کیا ہوگا؟ ظاہر ہے یہاں انسانوں سے کہیں زیادہ کتے ہوں گے۔ جب ابھی یہ صورتِ حال ہے تو اُس وقت کیا ہوگی؟ بات سیدھی سی ہے، کسی کو اگر جانوروں کے تحفظ کے نام پر آوارہ کتوں کی زندگیاں عزیز ہیں تو وہ ان خونخوار جانوروں کو انسانی بستیوں سے دور رکھنے کے انتظامات کرے، ان کے لیے خوراک اور پانی کا بندوبست کرے، اور دل کی گہرائیوں سے محبت کرے۔ ایسا کرنے سے مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ اور جہاں تک حکومتِ سندھ کی جانب سے بنائے گئے منصوبے پر عمل کرنے کے لیے رقم مختص کرنے کا تعلق ہے، تو یہ قومی خزانے کو پچاس کروڑ کا ٹیکا لگانے کے مترادف ہے۔ میرے نزدیک اس مسئلے کا سیدھا سا حل تھوڑی سی قلاقند ہے۔ قلاقند سے متعلق فارمولا بلدیہ کراچی خوب جانتی ہے۔‘‘