شیکسپیئر کے ڈراموں سے جنم لینے والے تمام کردار وائرس کی طرح ہر اُس ملک کے بچوں کے ذہنوں میں ڈال دیے گئے ہیں جہاں انگلش میڈیم ذریعۂ تعلیم رائج ہے۔ ان کرداروں میں ایک ’’جولیس سیزر‘‘ بھی ہے، جس کی رنگارنگ کہانی میں خوب صورت ملکہ قلوپطرہ بھی ہے اور بے وفا دوست بروٹس بھی۔ شیکسپیئر کے کرداروں کو چارلس لیمب (Charles lamb) نے بچوں کے لیے تحریر کیا اور پھر انہیں ڈراموں، فلموں اور ضرب المثل کی صورت تحریروں میں زندہ رکھا گیا۔ جس طرح یورپ کے مٔورخین نے یونان کے سفاک فاتح سکندر کا ایک مرنجاں مرنج اور نرم خو چہرہ پیش کیا ہے، ویسے ہی شیکسپیئر نے بھی جولیس سیزرکو ایک رومانوی کردار کے طور پر تحریر کیا ہے۔ سکندر یونانی نے بھی جب 331 قبل مسیح میں ایران کے بادشاہ دارا سوئم کو شکست دے کر پرسی پولس کا شہر فتح کیا تو خزانہ لوٹنے کے بعد اس نے پہلا کام یہ کیا کہ وہاں موجود لائبریری کو آگ لگا دی، جس میں اُس وقت صدیوں پرانے لاکھوں قدیم قلمی نسخے اور تصاویر موجود تھیں۔ لائبریری کے ساتھ ایک بہت بڑا لیکچر ہال بھی تھا جہاں فلسفی و دانشور لوگوں کو علم تقسیم کرتے تھے۔ علم دشمن سکندر یونانی نے اسے بھی زمین بوس کردیا۔ لیکن کمال دیکھیے ان مغرب کے دروغ گو مؤرخین اور ہمارے مرعوب دانشوروں کا، کہ آج سکندر کے نام کو اتنا معتبر بنادیا گیا ہے کہ آپ کو جابجا بچوں کا نام سکندر ملے گا۔ جولیس سیزر بھی ایسے ہی حکمرانوں میں سے گنا جاتا ہے جسے یورپ کے مؤرخین نے تاریخ کے درخشاں باب کے طور پر زندہ رکھا ہے۔ اس ہیرو نما بادشاہ کے سینے پر مصر کے ساحلی شہر اسکندریہ میں موجود دنیا کی سب سے قدیم اور شاید معلوم تاریخ میں سب سے بڑی لائبریری کو نذرِآتش کرنے کا تمغا سجا ہوا ہے۔ اس لائبریری میں لکھے گئے قلمی نسخوں کی تعداد سات لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔ جولیس سیزر نے جب 47 قبل مسیح میں اسکندریہ فتح کیا تو اس عظیم علمی خزانے کو نذرِ آتش کردیا۔ لائبریریوں کو جلانے اور علمی خزانوں کو نذرِ آتش کرنے کا سلسلہ آج تک چلا آرہا ہے۔ جرمنی کے شہر ہائیڈل برگ کی وہ آگ جو جنگ ِعظیم اوّل کے بعد بھڑکائی گئی تھی اور جس میں سارے ملک سے کتابیں اکٹھی کرکے انہیں ایک بڑے میدان میں نذرِ آتش کردیا گیا تھا، جدید تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ اس آگ کے شعلے میلوں دور نظر آتے تھے اور کئی دنوں تک سرد نہیں ہوئے تھے۔ آئرلینڈ کا نیشنل آرکائیوز دنیا میں مخطوطات کے بڑے ذخیروں میں شمار ہوتا تھا جس میں چودھویں صدی تک کے علمی نوادرات موجود تھے۔ آئرلینڈ کی جدوجہدِ آزادی کے متوالوں نے 1922ء میں اسے آگ لگادی، اور آج یہ دلیل دی جاتی ہے کہ یہ آگ ایک حادثہ تھی۔ نائن الیون کے بعد بغداد کے بیت الحکمہ کی تباہی تو ابھی کل کی بات ہے۔ ستمبر 2004ء میں امریکیوں کو عراق پر حملہ کیے ابھی ایک سال ہی ہوا تھا کہ امریکی افواج نے انسانوں کے ساتھ ساتھ اس عظیم کتب خانے کو بھی نشانہ بنادیا۔ لیکن اس دفعہ لالچی فوجیوں نے اسمگلنگ کی خاطر اس میں سے قدیم نسخے چوری کیے اور پھر بقیہ لائبریری کو بموں کے نشانے پر لے لیا گیا۔ پہلی جنگ ِعظیم میں جب جرمنوں نے بیلجیئم پر قبضہ کیا تو اس کے شہر لوین (Leuven) میں تحریک احیائے علوم (Renaissance) کے زمانے سے جمع کی گئی تین لاکھ کتب موجود تھیں۔ ان کتابوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا گیا اور آگ لگا دی گئی۔ آج بھی آگ کے نزدیک کھڑے جرمن سپاہیوں کی ایک نادر تصویر تاریخی کتب میں مل جاتی ہے۔ کتابوں کی آگ صرف یورپ اور مغربی دنیا تک محدود نہیں۔ چین جو اپنے زمانے کی ایک عظیم تہذیب تصور ہوتی تھی، جنہوں نے سب سے پہلے کاغذ ایجاد کیا تھا، اسی چین کے حکمران گوئنگ خاندان کا چھٹا بادشاہ، کوئنلونگ (Qianlong) جو 1735ء سے 1796ء تک برسرِ اقتدار رہا، اس نے پورے چین سے تین ہزار کتب کے لاکھوں نسخے منگوائے اور انہیں پہلے آگ لگائی پھر راکھ کو دریا برد کردیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پچاس ادیبوں کی گردنیں بھی اڑا دی گئیں۔
پوری انسانی تاریخ میں صرف مسلمان وہ واحد قوم ہے جس کے دامن پر کتابوں کو جلانے کا داغ ہے اور نہ ہی سائنس دانوں کو قتل کرنے کا۔ مسلمانوں کے عروج کی چھ صدیاں جب پورا یورپ جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا، جسے قرونِ وسطی کا تاریک زمانہ (Dark age of medieval) کہتے ہیں، اس عہدِ جاہلیت میں گلیلیو جیل کے تہ خانے میں اذیت ناک موت مرتا ہے۔ ارشمیدس جیسے عظیم سائنس دان کو توپ کے سامنے باندھ کر اڑا دیا جاتا ہے۔ مونالیزا کے خالق اور سائنس دان لیونارڈو ڈاونچی کو سرِِ دربار قتل کردیا جاتا ہے۔ سروئیس اور برونو جیسے فلسفی دہکتی آگ کے الاؤ میں پھینک دیے جاتے ہیں۔ سائنس دانوں اور عالموں کا قتلِ عام تو معمول تھا۔ ہر چند ماہ بعد شہروں اور دیہات سے ایسے افراد کو زنجیروں میں جکڑ کر لایا جاتا جو فلسفہ اور سائنس پر کام کرتے یا گفتگو کرتے ہوئے پائے جاتے۔ انہیں پھر ایک ساتھ کسی بڑے شہر کے بیچوں بیچ ایک بہت بڑے آگ کے الاؤ میں پھینک دیا جاتا۔ یہ تصور راسخ تھا کہ ان سائنس دانوں کے دماغوں پر شیطان نے قبضہ کرلیا ہے، اس لیے انہیں جلا کر شیطان کو باہر نکالنا چاہیے۔ اس پورے تصور کو جادوگری (Witch Craft) کا خاتمہ کہا جاتا تھا۔ مغربی دنیا میں اس سحر اور جادو کے خاتمے کے نام پرصدیوں فلسفیوں، ادیبوں، سائنس دانوں اور دانش وروں کا قتل عام کیا گیا۔ سائنس دانوں کے قتل عام کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، لیکن اب یہ کام حکومتیں نہیں بلکہ خفیہ ایجنسیاں کرتی ہیں۔ ان مقتول عالموں اور سائنس دانوں کی ایک طویل فہرست ہے جسے تحریر کرنے کے لیے کئی کتابوں کی ضخامت چاہیے۔ اس میں ہر علاقے، عقیدے، رنگ، نسل اور زبان سے تعلق رکھنے والا سائنس دان مل جائے گا جسے قتل کیا گیا یا وہ غائب کردیا گیا۔ یہ ایسے سائنس دان تھے جن کی تحقیق ان کے عالمی مفادات کے خلاف تھی، یا جو اپنی قوم کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکتے تھے۔ آج ایسے کسی سائنس دان کو اس طرح صفحہ ہستی سے مٹادیا جاتا ہے کہ کوئی قتل کا سراغ تک نہیں ڈھونڈ پاتا۔ یہاں صرف چند مسلمان سائنس دانوں کا تذکرہ ہے جو جدید مہذب دنیا میں صرف اس لیے مار دیے گئے کہ ان کا سائنسی کام عالمی طاقتوں کے مفادات سے ٹکراتا تھا، یا وہ اپنی قوموں کے لیے اثاثہ تھے۔
مصر کے شہر قاہرہ میں 3 مارچ 1917ء کو پیدا ہونے والی سمیرا موسیٰ نے جب مصر سے اٹامک ریڈی ایشن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تو اسے کیلی فورنیا یونیورسٹی میں ایٹمی ٹیکنالوجی پر تحقیق کی ذمے داری سونپ دی گئی۔ اس کا کام اس قدر معتبر تھا کہ اسے امریکا کے ایٹمی پروگرام کے اداروں میں بھی جانے کی اجازت تھی۔ اس نے ایک ایسے ایٹم بم کا فارمولا پیش کیا جو بہت کم لاگت والا تھا۔ اسے امریکی حکومت نے امریکا میں قیام اور اعلیٰ پوزیشن کا لالچ دیا، لیکن اس نے اپنے ملک مصر واپس جانے کا ارادہ کرلیا۔ مصر کے ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہونے والی اداکارہ رقیہ کو اسے قتل کرنے کی ذمے داری سونپی گئی۔ وہ امریکا گئی اور سمیرا موسیٰ سے ہم وطن ہونے کے ناتے تعلقات بنا لیے۔ مصر واپسی سے ایک دن پہلے سمیرا کو ایک پُرفضا مقام پر جانے کی دعوت دی گئی۔ وہ گھر سے روانہ ہوئی لیکن وہاں تک نہ پہنچ سکی۔ اس کی کار ایک کھائی میں گری ہوئی پائی گئی جسے ایکسیڈنٹ کے بعد آگ لگ گئی تھی۔ رقیہ نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ اس نے سمیرا کو قائل کرنے کی بہت کوشش کی کہ وہ مصر واپس نہ جائے اور امریکا میں رہ کر کام کرے، لیکن سمیرا نے سخت لڑائی کی اور مجھے اپنے گھر سے نکال دیا۔ اس کے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر وہ قتل ہوچکی تھی۔
گلیلیو کا مقدمہ اور جیل خانے میں موت، دراصل قدیم رومن اور یونانی مذہبی نظریات کے ٹکرائو کی وجہ سے ہوئی۔ یہ ایسے نظریات تھے جنہیں پادریوں نے عیسائی مذہب کا حصہ بنا لیا اور پھر اس پر ڈٹ گئے۔ بائبل کی تعلیمات سے الگ تھلگ یہ ایک مذہبی سائنسی فکر تھی جو پادریوں کی زبان پر جاری تھی، جیسے ارسطو کا نظریہ کہ ’’سورج ساکن اور زمین چپٹی ہے‘‘۔ ایسی سائنس کو الہامی آشیرباد دینے کا مقصد صرف یہ تھا کہ ہر سائنسی تصور کو مذہب کی پیش گوئیوں سے منسلک کردیا جائے۔ ایسے میں جب کوئی سائنس دان یہ دعویٰ کرتا کہ زمین گول ہے، سورج حرکت کرتا ہے، زمین گھومتی ہے، اور یہ کائنات کا مرکز نہیں ہے تو اسے شیطانی روح خیال کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا، کیوں کہ چرچ اتنی ہی سائنس کو جائز قرار دیتا جتنی سائنس یونانی اور رومن اقوام کے عیسائی ہونے سے پہلے رائج تھی۔ بعد میں آنے والا ہر نظریہ عبث، بے کار اور جہالت پر مبنی تھا۔
قدیم یورپ میں سائنس دانوں اور فلسفیوں پر ظلم و جبر تو مذہب اور سائنس کی لڑائی تھی، لیکن جدید مغرب میں سائنس دانوں کا قتلِ عام جدید کارپوریٹ، جمہوری نظام کی بالادستی کی لڑائی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سی آئی اے نے پوری دنیا میں جتنے افراد قتل کروائے ہیں، اُن میں پچاس فیصد سائنس دان اور مفکر تھے۔ وہ عالمی سائنس دان جو ڈی این اے کی خصوصیات(DNA specifications) پر کام کر رہے تھے اور ایک ایسا Pathogen یعنی مرض نشو و نما کرنے والا وائرس یا بیکٹیریا ایجاد کرنا چاہتے تھے جس کی مدد سے بھورے بالوں اور ہلکے رنگ والی آنکھوں والے لوگوں کی نفسیات اور جرائم کا اندازہ ہو سکے، انہیں چن چن کر مارا گیا۔ 16 نومبر 2001ء کو ڈون سی ولی (Don c wiley) کو میمنس میں اغوا کر کے قتل کر دیا گیا۔ اسی طرح ڈیوڈ تیرازتر کو لندن میں اس کے گھر میں گھس کر 10 دسمبر 2001ء کو قتل کر دیا گیا۔ 12 دسمبر 2001ء کو ڈاکٹربنٹو کیو کو اپنی لیبارٹری میں ڈنڈے مار کر مارا گیا۔ 23 دسمبر 2001ء کو ولادیمر پالنگ کو لندن میں گھر میں قتل کیا گیا۔ 14 دسمبر 2001ء کو اسٹیوان نیگبن کو آسٹریلیا کے شہر نیگبن میں بڑے فریج میں بند کرکے مار دیا گیا۔ یہ سب کے سب سائنس دان دنیا کے مختلف ملکوں میں رہتے تھے مگر ایک مشترکہ پراجیکٹ پر کام کرتے تھے، اور یہ پراجیکٹ امریکی سی آئی اے کے نزدیک خطرناک نتائج دے سکتا تھا، اس لیے انہیں قتل کردیا گیا۔ یہ تمام کے تمام عالمی شہرت یافتہ سائنس دان تھے۔
ایسے سائنس دان جو عالمی ماحولیات پر سرمایہ دارانہ معیشت کے اثرات کی تحقیق کرتے ہیں، ان کے قتل تو بے شمار ہیں۔ اس کا آغاز 21 جولائی 2001ء کو جان بیڈو کو بوسٹن میں قتل کرکے کیا گیا جو ماحولیاتی آلودگی پر امریکی کمپنیوں کے اثرات پر تحقیقات کررہا تھا۔ ایٹمی سائنس دان اگر آپ کے مفادات کے خلاف بیان بھی دے تو وہ ناقابلِ معافی ہے۔ 2006ء میں امریکا کے بہت بڑے ایٹمی سائنس دان رابرٹ جے لل کو غنڈوں سے اس لیے مروایا گیا کیونکہ وہ دنیا کے تمام ملکوں کو ایٹمی توانائی مہیا کرنے پر بحث کررہا تھا۔
یہ لوگ اس قدر ظالم ہیں کہ اپنے اُن محسن سائنس دانوں کو بھی نہیں چھوڑتے جنہوں نے ان کے لیے خفیہ طور پر کام کیا تھا۔ اسرائیل 2003ء میں کیمیائی ہتھیاروں کے پراجیکٹ پر کام کررہا تھا، فروری میں دنیا بھر سے دس مائیکرو بیالوجسٹ اسرائیل گئے۔ انہوں نے کیمیائی ہتھیاروں پر کام کیے۔ اس پراجیکٹ پر کام کرنے کی وجہ سے ان کے سینوں میں ایسے راز آچکے تھے کہ ان کا زندہ رہنا خطرناک تھا۔ واپسی پر ان کے جہاز کو میزائل سے اڑا دیا گیا۔ ایسا ہی ایک سائنس دان فرینک اولسن سی آئی اے کا مستقل ملازم تھا۔ اس نے طرح طرح کے کیمیائی ہتھیار بنائے۔ سرد جنگ میں اس کے یہ ہتھیار بہت مقبول ہوئے۔ اس نے ایسا مچھرمار زہر ایجاد کیا جس کے استعمال سے انسان بھی آہستہ آہستہ مرنے لگتے ہیں، اور پھر اسے پولینڈ کی فوج کو بیچا گیا۔ ایک ٹوتھ پیسٹ بنایا جس کے استعمال سے فالج اور جسمانی بیماری پیدا ہوتی ہے، اور بلغاریہ کے شہریوں کو میڈیا کے ذریعے بیچا گیا۔ اسی نے شنگل بیکٹریم ایجاد کیا جسے خوراک کے ذریعے لوگوں کو دیا جاتا اور وہ قے کرتے کرتے مر جاتے۔ اس بیکٹریم کو پولینڈ اور دیگر مشرقی ممالک میں 1960ء کی دہائی میں بیچا گیا، لیکن اس سائنس دان کی بدقسمتی کہ اس نے ایک دفعہ سی آئی کے سیف ہائوس کا دورہ کرلیا، جہاں پر قید معصوم لوگوں پر یہ کیمیائی ہتھیار استعمال ہوتے اس نے دیکھ لیے۔ وہ وہاں سے غصے میں گالیاں نکالتا ہوا باہر نکلا لیکن چند دنوں بعد اسے نیویارک کے ایک ہوٹل کی دسویں منزل سے گرا دیا گیا۔ نائن الیون کے بعد قتل ہونے والے سائنس دانوں کی تعداد ہزاروں میں بنتی ہے جن میں بغداد میں قتل ہونے والے بارہ سو سائنس دان بھی شامل ہیں۔ مسلمان ممالک میں پیدا ہونے والا کوئی بھی سائنس دان جو اُن کے زیر اثر نہ رہے، موت اس کا مقدر ہوتی ہے۔
لبنان میں پیدا ہونے والا رمال حسن رمال شماریاتی مکینکس کا اس قدر ماہر تھا کہ نہ صرف اپنی فرانسیسی یونیورسٹی میں مشہور ہوا بلکہ پوری دنیا میں اس کے علم سے استفادہ کیا جانے لگا۔ وہ فرانس کا شہری نہیں تھا مگر اسے فرانسیسی تحقیقی ادارے کا سربراہ مقرر کردیا گیا۔ فرانس میں اس کے نام پر ’’رمال‘‘ ایوارڈ جاری کیا گیا۔ ایک دن اس نے بیروت واپس جاکر اپنے ملک میں خدمات سرانجام دینے کے لیے کہا، وہ جانے کی تیاریوں میں تھا کہ 31 مئی 1991ء کو اسے پراسرار طور پر قتل کردیا گیا۔ جمال حمدان جو 1928ء میں پیدا ہوا، دنیا بھر میں اپنی تاریخی تحقیقات کی وجہ سے ایک اتھارٹی مانا جاتا تھا، لیکن جیسے ہی اس نے صہیونیت کے بارے میں کتاب لکھنا شروع کی، اس کو اس کی لائبریری میں جلا دیا گیا۔ سعید السدید اُن سائنس دانوں میں سے تھا جو مائیکروویو الیکٹریکل ٹیکنالوجی میں دنیا بھر میں مانے جاتے ہیں۔ اس نے مصر میں راکٹ انجینئرنگ پر کام شروع کیا اور ایک دن اسکندریہ میں ایسے مارا گیا جیسے کوئی اس کی رگیں کاٹ گیا ہو۔
لبنان کا حسن کامل الصباح جو فلائی راکٹ کا ماہر تھا، 31 مارچ 1935ء کو نیویارک میں قتل ہوا۔ یحییٰ المشد یورینیم کی افزودگی کا مصری ماہر تھا۔ 16جون 1980ء کو پیرس کے ہوٹل میں قتل کیا گیا۔ ایرانی ایٹمی سائنس دان مسعود علی محمدی جو ایرانی ایٹمی پروگرام کے ساتھ خفیہ طور پر منسلک تھا، ایک بم دھماکے میں مار دیا گیا۔ مصر کا علی مصطفی مشرنہ جو اتنا بڑا ایٹمی سائنس دان تھا کہ آئن اسٹائن اس کا معترف تھا، یہ شخص اُن سات سائنس دانوں میں سے ایک تھا جو ایٹم کے اندرونی راز سے باخبر تھے۔ 15جنوری کو قتل ہوا تو اس پر سب سے بڑا بیان آئن اسٹائن کا آیا کہ اسے مصر کے ایٹمی پروگرام کی سزا دی گئی۔ کہانی طویل ہے اور دل گداز بھی، لیکن ایک تسلسل ہے۔ پہلے صرف سائنس دان قتل ہوتے تھے، اب وہ سائنس دان قتل ہوتے ہیں جو عالمی نظام کے لیے خطرہ ہوں۔