ناصر بیگ چغتائی کے ناول “سلگتے چنار” کی تقریبِ اجرا

843

سیمان کی ڈائری

۔’’جہاں زاد میں آج تیری گلی مَیں
یہاں رات کی سردگوں تیرگی میں
ترے درکے آگے کھڑا ہوں
سر و مو پریشاں‘‘۔

ن م راشدکی نظم کی یہ سطریں ایک ایسی شخصیت کے گرد گھومتی ہیں جو20 برس کی طویل مدت کے بعد ایک ایسے مقام پر آکر رنجیدۂ خاطرہے جہاں سے اُس نے اپنے مستقبل کے سفر کی ابتدا کی ۔ کئی دہائیوں سے قائم دائم درودیواراُس کی آمد پر خوش بھی ہوتے ہیں اور سوالیہ نظروں سے پوچھتے بھی ہیں کہ ،کہاں تھے تم اتنے برس…؟اور وہ اپنی نم ناک آنکھوں سے خاموش کھڑا سر کو جھکائے بس دیکھتا ہی چلاجائے اورکوئی جواب نہ بن پائے۔ اِس بیس برس سے بھی بہت پہلے کہ جب وہ یہاں تھا تو کیا کیا نہیں تھا…جو اَب نہیں ہے۔
یہ میرے محسوسات ہیں بہت ہی علمی وادبی شخصیت معروف صحافی،اینکرپرسن ناصر بیگ چغتائی کے بارے میں جنھیں این بی سی کے نام سے زیادہ جانا جاتا ہے۔ میرا اوراُن کا ساتھ ایک نجی ٹی وی چینل کے توسط کوئی سات برس کا ہے۔اُس ادارے میں این بی سی ڈائریکٹر نیوز اورکرنٹ افئیرکے ایک پروگرام میں بہ طوراینکرجلوہ گر رہے۔ ادارے میں ہمارا ساتھ زیادہ دیر کا نہیں تھا لیکن رابطے کی ایک ایسی فضا ترتیب دے گئے کہ جس سے ہم آج بھی جڑے ہوئے ہیں اور جب جب اُن سے ملتے یا بات کرتے ہم اُن سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔میرے نزدیک اُن کا درجہ ایک استاد کی حیثیت رکھتا ہے۔
کم و بیش بیس برس بعد جناب ناصر بیگ چغتائی مجھ فقیر کی دعوت پر کراچی پریس کلب تشریف لائے تو میں بہت پریشان تھا کہ میں ایک طفلِ مکتب کی حیثیت سے اُن کے ساتھ کتنی دیر نشست رکھ سکوں گا اوراگر کہیں یادوں کے دریچے سے وہ اپنے ماضی میں چلے گئے تو سوالوں کے انبار لگ جائیں گے۔ جن کے جوابات میرے پاس تو کم از کم نہیں ہیں۔میری اس کیفیت کو میرے بہت ہی محترم دوست جو خود بھی استاد کا درجہ رکھتے ہیں اور معروف صحافی اور شاعر بھی ہیں ۔اے ایچ خانزادہ!…انھوں نے میری پریشانی کو بھانپتے ہوئے کہا، سیمان! آپ این بی سی کو دعوت دیجیے،ہم اُن کے میزبان ہوں گے۔
خیر سے طے شدہ دن میں ہم نے اُس نشست کا اہتمام کیا جس میں ناصر بیگ چغتائی صاحب کو مدعو کیا گیا۔ اُس نشست میں معروف صحافی جناب مقصود یوسفی،نصیر احمد،خلیل ناصراورراجا کامران بھی موجود تھے۔ یوں کہیے اِ ن معتبر احباب کی اُس نشست میں موجودگی نے رونق بکھیر دی۔محبتوں کا یہ سفر اے ایچ خانزادہ کی سربراہی میں نجیب احمد ٹیرس سے شروع ہوا، ابراہیم جلیس ہال اور بالائی منزل پرموجود لائبریری روم،کمیٹی روم اَور اُس مقام پرپہنچا جہاں این بی سی اپنے زمانے میں اپنے معززاساتذہ اور دوستوں کے درمیان تادیر رہا کرتے تھے، تمام مناظر آنکھوں میںآگئے اور وہ آبدیدہ ہوتے چلے گئے۔
یہ صورتِ حال دیکھ کر ہم بھی اپنے آنسوؤں کی تاب نہ لا سکے۔ اے ایچ خانزادہ نے انھیں محبت سے گلے لگایا۔رات کے کھانے کے بعدناصر بیگ چغتائی کے ناول ’’سلگتے چنار‘‘ جو کشمیریوں کی جدوجہد، مزاحمت اور تحریک کی ایک زندہ داستان ہے،ا یسی لازوال تحریر جو افسانے سے زیادہ حقیقت سے قریب تر ہے،کے کچھ حصے اُن کی زبانی سنے اور گفتگو ہوئی ۔ وہیں اُس ناول پر گفتگو ہوئی اور طے ہوا کہ کتاب کی تقریبِ اجرا سب سے پہلے کراچی پریس کلب میں ہوگی۔ چنانچہ کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے زیر اہتمام 30نومبر بہ روز ہفتہ’’سلگتے چنار‘‘کی تقریب رونمائی کا دن مقرر ہوا۔ صدارت کے لیے سینئر صحافی اور شاعر محمود شام صاحب سے بڑھ کر کوئی بہتر انتخاب نہیں تھا اور اظہارِ خیال کے لیے کچھ نام ترتیب دیے ۔وہ ملاقات ختم ہوئی اور ہم نے دوستوں کے ساتھ اُس تقریب کے انعقاد کے لیے کام شروع کردیا۔
30نومبرکی شام ناصر بیگ چغتائی اپنی دوصاحبزادیوں اور زوجہ محترمہ کے ہمراہ تقریب سے قبل ہی پریس کلب پہنچ چکے تھے ۔ کچھ دیر بعددوستوں کی آمد ہونا شروع ہوئی اور ہم سب ابراہیم جلیس ہال سے اٹھ کر نیو کانفرنس ہال میں چلے گئے ۔’’سلگتے چنار ‘‘کی تقریب کی صدارت ممتاز دانشور صحافی محمود شام نے کی۔نظامت کے فرائض ادبی کمیٹی کے روحِ رواں اے ایچ خانزادہ نے انجام دیے جبکہ مقصود یوسفی،ڈاکٹر فاطمہ حسن، عقیل عباس جعفری،اخلاق احمد کتاب پر اظہارِ خیال کرنے والوں میں شامل تھے۔ تقریب کاآغاز کلام پاک کی تلاوت سے کیا گیا،سعادت راجا کامران بھائی کے حصے میں آئی۔ناظمِ تقریب اے ایچ خانزادہ نے اپنے شگفتہ انداز میں کتاب پرمختصرگفتگو کی اور تقریب کو آگے بڑھایا ۔
مقررین نے اپنے اظہارِ خیال میں کہا،ناصر بیگ چغتائی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ناصر بیگ صحافیوں کی اُس آخری نسل سے تعلق رکھتے ہیں جن کا خمیر اَدب سے اٹھااورجنھوں نے رپورٹنگ، ایڈیٹنگ اور کہانی نویسی سمیت دیگر شعبوں میں اپنی صلاحتیوں کا سکّہ منوایا۔ ’’سلگتے چنار‘‘ اس تمام صورت حال میں حقیقی جزیات کی شمولیت کے بعد لکھی جانے والے حقائق سے قریب ترین اور تحقیقاتی داستان ہے۔ناول’’سلگتے چنار‘‘ جس میں مذید اضافے کے بعد کتابی شکل دی گئی، کو ایک مستنداور معتبر دستاویز کی اہمیت حاصل ہے۔مقررین کا مزید کہنا تھاکہاکہ انصا ف فراہم کرنے والے عالمی اداروں کے کردارسے مایوس ہو کر کشمیری نوجوانوں نے باقاعدہ مسلح جدو جہد کا آغاز کیا اور یہ سلسلہ اشرف ڈار اور اشفاق مجید وانی سے لے کر برہان وانی کی قربانیوں تک محیط ہو چکا ہے۔ کشمیر کی بیٹیاں 1989سے باقاعدہ طور پر بھارتی مظالم کے خلاف سراپا احتجاج بنی ہوئی ہیں اور یہ جدو جہد مقبوضہ کشمیر کی آزادی تک جاری رہے گی۔
ناول’’سلگتے چنار‘‘ کے خالق ناصر بیگ چغتائی نے اپنے اظہار خیال میں سب سے پہلے کراچی پریس کلب کے بارے میں کہا کہ یہ وہ عمارت،وہ ادارہ ہے جہاں پالاپوسا، پڑھایا لکھایا جاتا ہے اور جدوجہدکیسے کی جاتی ہے،سکھایا جاتا ہے۔انھوں نے بتایاکہ کشمیر میں سب سے پہلے صحافیوں کے ایک وفدکے ساتھ انھوں نے وہاں کا دورہ کیا اور وہیں سے اِس ناول کی بنیاد پڑی۔یہ کتاب انھوں نے انیس برس قبل لکھی تھی جسے اخبارِ جہاں نے شائع کیاتھا ۔
سلگتے چنار کشمیر کی جدوجہدِ آزادی پر،مزاحمت پر ،قربانیوں پر اور سیاسی جدو جہد پر پہلی کتاب تھی ۔ اس کتاب میں انیس سو سینتالیس لے کر ابتک جو کچھ ہوا سب موجود ہے۔پہلا حصہ اور دوسرا حصہ ایک ساتھ ہے ۔یہ تاریخ بھی ہے،افسانہ بھی ہے ،محبت بھی ہے، جنگ بھی ہے، جدوجہدہے اور قابض قوتوں کے خلاف ایک بہت بڑی لڑائی ہے جو جاری ہے۔ انھوں نے مذید کہا کہ سن ستاسی میں کشمیر کی جدوجہد ِ آزادی میں خواتین شامل ہوئیں۔اس تحریک میں سب سے زیادہ قربانی خواتین نے دی۔ کشمیر کی جدو جہد آزادی کو برہان وانی کی شکل میں نیا جذبہ ملا۔اشفاق مجید وانی نے مجھ سے کہا تھا کہ میں تو مر جاؤں گا مگر ایک اور وانی پیدا ہوگااور وہ برہان وانی کی شکل میں پیدا ہوا۔برہان وانی نے جب اپنی برہان چلائی تو اس کے بعد بھارتی حکومت قتل ہوتی چلی گئی،سرکٹتے چلے گئے۔
تقریب کے اختتام پر جناب محمود شام نے اپنے اظہار خیال میں کہا کہ ناصربیگ چغتائی نے شہر کراچی کے بد ترین ایام میں صحافت کی ہے۔ اِن کا لکھا ہوایہ ناول ایک دستاویزہے۔انھوں نے اس میں توسیع کر کے ہمارا کفارہ ادا کردیا اور ہماری لاج رکھی۔ انھوں نے مذید کہا کہ ہم وہ ملک ہیں جو بہتر سال سے اپنی شہ رگ کے بغیر جی رہے ہیں۔اب سلگتے چنار عنقریب بھڑکنے والے ہیں۔ اس ناول میں سیاست، فوج کشی اورہر قسم کا کردارموجود ہے۔محمود شام صاحب نے کراچی پریس کلب پر لکھی ہوئی اپنی نظم بھی سنائی۔تقریب کے اختتام پرسیکریٹری پریس کلب ارمان صابرنے ناصر بیگ چغتائی کو اجرک کا تحفہ پیش کیا۔تقریب میں دانشوروں، ادیبوں اور صحافیوں سمیت تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھرپورشرکت۔ تقریب بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ اپنے اختتام کوتو پہنچی لیکن کشمیر کی آزادی کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔یہ کہانی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک آزادی کا خواب پورا نہیں ہو جاتا۔

غزلیں

کامران نفیس

ایک آواز، اک خلا، اک آہ
ایک حیرت، اک آئینہ، اک آہ
ایک بازار، اک جنوں، اک سر
اک دریچے سے اک دعا، اک آہ
اک حجاب، ایک روشنی، اک آگ
ایک نظارہ، اک نشہ، اک آہ
ایک درویش، اک خدا، اک رات
ایک فریاد، اک بکا، اک آہ
اک شجر، ایک راستہ، اک عمر
ایک ماضیٔ گمشدہ، اک آہ
اک چراغ، ایک نام، ایک طلسم
ایک چرخ، ایک زائچہ، اک آہ
ایک در، ایک انتظار، اک صبر
ایک دستک، اک آسرا، اک آہ
قوس اک، ایک دائرہ، اک شکل
اک حساب، ایک نقش پا، اک آہ
ایک نیند، ایک پیراہن، اک خواب
اک سحر، ایک حادثہ، اک آہ
اک معمہ، اک آگہی، اک رمز
اک خلش، ایک سانحہ، اک آہ

نجیب ایوبی

صحرا خالی جنگل خالی پانی سے ہے چھاگل خالی
بنجارے کی قسمت دیکھو خشک زمیں اور بوتل خالی
پلک کنارے بہتا دریا اور آنکھوں میں کاجل خالی
ساون رت آکاش اتولا گھر گھر آئے بادل خالی
اس کا جوبن آگ لگائے من میں میرے جل تھل خالی
چلنا چاہا چل نہیں پایا پاؤں شل اور دلدل خالی
گھر تک مجھ کو پہنچا دے گی خوشبو خالی مشعل خالی
وہ من موہنی چاند سی لڑکی اور یہ شوخ و چنچل خالی
تیز ہوا اور بن میں ناری آندھی برکھا آنچل خالی
اڑجاتی ہے پھول سے خوشبو رہ جاتا ہے صندل خالی
سب حیران تھے دیکھ کے اس کو میں ہی نہیں تھا پاگل خالی
آن لگا پت جھڑ کا موسم برگد خالی پیپل خالی
دل پر میرے بوجھ ہے کیسا ہر دم خالی ہر پل خالی
ویرانی سی ویرانی ہے زنداں خالی مقتل خالی
گل تو لے گیا گل چیں چن کر ہاتھ میں رہ گئی ڈنٹھل خالی
دنیا ایک فریب نجیبا سونا مٹی پیتل خالی

حصہ