افروز عنایت
صبیحہ آج بہت خوش تھی۔ آخر خوش کیوں نہ ہوتی! اس کی دیرینہ خواہش جو پوری ہوئی تھی۔ نہ کسی کی روک ٹوک اور نہ ڈر… جب چاہے اٹھے، جب چاہے سوئے۔ اگرچہ وہ سارا دن گھر کی سیٹنگ کرتی رہی تھی، بدن تھکن سے چُور چُور تھا، لیکن اس کا دل مطمئن تھا کہ کل رمیز (بڑے بیٹے) کی بھی اسکول کی چھٹی ہے، وہ دیر گئے تک سوئی رہے گی… اس کا اب ذاتی گھر تھا جہاں صرف اس کی مرضی چلے گی۔
دوسری طرف اس کا شوہر سلمان بستر پر کروٹیں بدل رہا تھا۔ بار بار اماں کا اداس چہرہ اور آنکھیں اُسے بے چین کررہی تھیں… رات کو وہ جب تک اماں کو کمرے میں خدا حافظ کہہ کر نہ آتا تھا اُس وقت تک اماں بھی بے چین اور اُس کا دل بھی بے چین رہتا۔ پھر اماں کی دعائیں لے کر وہ اپنے کمرے میں آتا تو اس کا دل پُرسکون ہوجاتا… اس نے سوچا یقیناً اماں بھی اس وقت مجھے یاد کرکے بے سکون ہوگئی ہوں گی۔
٭…٭…٭
صبیحہ اگرچہ متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھی، لیکن اس کی خواہشات کا دائرہ محدود نہ تھا۔ خوبصورت تعلیم یافتہ شوہر تھا، سسرالی ماحول بھی خوشگوار تھا، ساس بھی پڑھی لکھی مگر اصول پسند تھیں، صبٍیحہ کو وہ بیٹیوں کی طرح سمجھتی تھیں، اسی لیے کبھی کبھار غلط بات کی نشاندہی کرنا اپنا فرض جانتیں۔ صبیحہ کی والدہ نے جس طرح اُس کی تربیت کی تھی اس کی وجہ سے اُس میں خودسری و من مانی نمایاں تھی۔ اس کی شروع دن سے یہ خواہش تھی کہ اس کا الگ گھر ہو، جہاں وہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارے۔ اسی لیے وہ گاہے بہ گاہے سلمان کو کہتی رہتی، اور آج اس کی یہ دیرینہ خواہش پوری ہوچکی تھی، اسے سب کچھ اچھا لگ رہا تھا، جیسے اسے اس کے خوابوں کی تعبیر مل گئی ہو۔ اکثر اب یہ ہونے لگا کہ وہ کھانا بھی ہوٹل سے منگوانے لگی۔ سلمان نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ اس کی یہ روش صحیح نہیں، لیکن وہ ایک کان سے سنتی دوسرے کان سے نکال دیتی… رات کو دیر گئے تک سونا اور صبح دیر سے اٹھنا اس کا معمول بن گیا۔ ان معمولات کی وجہ سے جیسے گھر سے برکت ہی اٹھ گئی، سلمان بھی چڑچڑا رہنے لگا۔ گھر کا سارا نظام ہی جیسے درہم برہم ہوگیا
آج تو حد ہی ہوگئی… رمیز کا پیپر تھا، صبیحہ رات کو دیر تک انگلش فلم دیکھتی رہی لہٰذا صبح اس کی دیر سے آنکھ کھلی، بلکہ سلمان نے ہی اسے اٹھایا۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھی۔ اسکول وین تو جا چکی تھی، جیسے تیسے اس نے بیٹے کو تیار کیا اور سلمان سے کہا کہ اسے بھی اسکول چھوڑنے جائے۔ سلمان کو بھی آفس سے دیر ہورہی تھی، وہ پچھلے ایک ہفتے سے مسلسل دیر سے آفس پہنچ رہا تھا، کل باس نے اسے سختی سے جلدی آفس پہنچنے کی تاکید کی تھی۔
سلمان: صبیحہ تم رمیز کو چھوڑ کر آئو، میں ویسے ہی لیٹ ہوگیا ہوں۔
صبیحہ: میں…! لیکن نوشی سورہی ہے اور پھر اُسے بخار بھی ہے، میں اُسے چھوڑ کر نہیں جا سکتی… مہربانی کرکے تم رمیز کو چھوڑتے ہوئے آفس چلے جانا۔
سلمان کو اماں یاد آگئیں، ایسے موقعوں پر وہ نہ صرف نوشی کو سنبھالتیں، اس کا خیال رکھتیں، بلکہ گھر کے دس کام بھی نمٹا دیتیں۔ مجبوراً سلمان کو رمیز کو اسکول چھوڑنا پڑا۔ آفس پہنچا تو باس سخت ناراض ہوئے کہ یہ سرکاری دفتر نہیں کہ اپنی مرضی سے آنا جانا رکھو، اور ہاں آج ساری فائلیں نمٹا کر جانا… سلمان کو سارے اسٹاف کے سامنے بڑی سبکی محسوس ہوئی۔ اس نے سوچا: واقعی دیر سے آنے کی وجہ سے میرا خاصا کام جمع ہوگیا ہے، لہٰذا آج ہر صورت میں اسے نمٹا کر ہی گھر جائوں گا۔ وہ بڑے انہماک سے اپنے کام میں مصروف تھا کہ گیارہ بجے سیل کی گھنٹی بجی، دوسری طرف صبیحہ تھی۔
صبیحہ: (بڑی گھبراہٹ میں) سلمان… رمیز کے وین ڈرائیور کا فون آیا تھا، وین خراب ہوگئی ہے، اسے اسکول سے لینا ہوگا، پلیز آپ…
سلمان: (جو پہلے ہی سے طیش میں تھا) میں یہاں جھک مارنے نہیں بیٹھا ہوں، روز مجھے تمہاری وجہ سے باتیں سننا پڑتی ہیں۔ جب سے تم الگ گھر میں شفٹ ہوئی ہو سارے معمولاتِ زندگی کو تلپٹ کرکے رکھ دیا ہے تم نے… تم خود چلی جائو۔
غصے سے سلمان نے فون بند کردیا۔
صبیحہ رونے لگی۔ ’’الٰہی اب میں کیا کروں! نوشی کو اتنا تیز بخار ہے، الٹیاں بھی کررہی ہے۔ میں تو سوچ رہی تھی کہ سلمان رمیز کو لے کر آئیں گے تو ان کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس بھی چلی جائوں گی۔ اُف خدایا اب کیا کروں! ایک دم اسے خیال آگیا کہ ڈاکٹر کا کلینک اور رمیز کا اسکول اماں (ساس) کے گھر سے قریب ہیں، میں اماں کی طرف چلی جاتی ہوں۔ لیکن چھ مہینے میں مشکل سے صبیحہ تین مرتبہ ہی ساس سے ملنے گئی تھی، جبکہ سلمان ہر ہفتے رمیز کے ساتھ اماں سے ملنے جاتے۔ اس لیے وہ ساس کے پاس جانے سے ہچکچا رہی تھی، مگر مجبوراً اسے ساس کی طرف جانا پڑا۔ ساس صبح ہی صبح بہو کو دیکھ کر حیران ہوگئیں۔ ’’خیریت تو ہے بیٹا، کچھ پریشان لگ رہی ہوں‘‘۔ بچی کو انہوں نے گود میں اٹھایا پیار کرنے کے لیے تو وہ بخار سے تپ رہی تھی۔ صبیحہ نے ساری بات ساس کو بتائی۔ ساس نے اسے تسلی دی۔ فوراً بچی کے ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھیں۔ بچی کو کچھ آرام آیا تو اس نے نقاہت سے آنکھیں کھولیں۔ دادی نے اس کی پیشانی پر پیار کیا۔ ’’صبیحہ اب یہ کچھ بہتر ہے، یوں کرو تم اپنے سسر کے ساتھ جائو، رمیز کو اسکول سے لے کر آئو۔‘‘
صبیحہ اس خاتون (ساس) کو دیکھ رہی تھی، اس نے تو سوچا تھا کہ وہ اس سے شکوے کریں گی، لیکن یہاں تو ان کے چہرے سے پوتی کے لیے شفقت ٹپک رہی تھی، بچی بھی اب دادی سے ہنس ہنس کر باتیں کررہی تھی، رمیز تو ویسے بھی دادی کا چہیتا تھا، اسکول سے آتے ہی دادی سے چمٹ گیا، وہ بھی اس کے صدقے واری جارہی تھیں۔
دادی: بچوں کو بھوک لگی ہو گی، پہلے کھانا کھالو، پھر ڈاکٹر کی طرف چلے جانا تم لوگ۔
صبیحہ اماں کے رویّے سے بڑی شرمندگی محسوس کررہی تھی… ’’اماں آپ بیٹھیے، میں کھانا لگادیتی ہوں‘‘۔ کچن میں وہ کھانا لگانے کے لیے آئی تو ہر چیز صاف ستھری اور طریقے سے رکھی ہوئی تھی۔ گھر بھی صاف تھا۔ وہ تو سمجھ رہی تھی کہ اماں مجھ سے گھوڑے گدھوں کی طرح کام لیتی تھیں، اب ان کے گھر کی حالت ابتر ہوگی۔ لیکن صبیحہ نے نوٹ کیا کہ گھر تو پہلے سے بھی زیادہ صاف ستھرا تھا… اسے وہ وقت یاد آگیا جب وہ اس گھر سے جا رہی تھی۔ ابا نے تو منہ دوسری طرف کرلیا، لیکن اماں کی اداس آنکھیں اپنے دل کی بپتا سنا رہی تھیں۔ لیکن… اس نے کس قدر بے دردی سے اماں کو خدا حافظ کیا تھا۔ اماں دونوں بچوں سے لپٹ لپٹ کر پیار کررہی تھیں اور وہ یہ سب اماں کا ڈراما اور دکھاوا سمجھ رہی تھی۔
٭…٭…٭
کھانے سے فارغ ہوکر وہ ابا کے ساتھ استپال چلی گئی۔ راستے میں ہی اس نے سلمان کو فون کرکے بتایا کہ ’’میں اماں کے پاس آگئی ہوں، آپ شام میں وہیں آجائیے گا۔‘‘
٭…٭…٭
دوائی اور اماں کی دعائوں سے نوشین کی حالت اب بہت بہتر تھی جس کی وجہ سے اس کو بھی اطمینان ہوگیا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اس کا الگ گھر لینے کا فیصلہ صحیح تھا یا غلط…؟ اسے یہاں آکر احساس ہو رہا تھا کہ اس کا یہ فیصلہ نہ صرف اس کے لیے اور بچوں کے لیے، بلکہ اماں کے لیے بھی تکلیف وہ تھا… گھر میں بڑوں کا سایہ کسی نعمت سے کم نہیں ہے…
٭…٭…٭
بے شک گھر کے بزرگ ہر گھر کے لیے اللہ کی رحمت ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ یہ بزرگ گھر کے افراد کو سمیٹ کر رکھتے ہیں، اپنے مفید مشوروں سے افرادِ خانہ کو فائدہ پہنچاتے ہیں، مشکل و تکلیف دہ لمحوں میں تسلی دیتے ہیں… اور سب سے بڑی بات کہ یہ ’’دعا کے دروازے‘‘ ہیں۔ ان سے اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو کبھی محروم نہ کریں۔ اگر وہ کسی بات پر سمجھاتے اور نصیحت کرتے ہیں تو اس میں چھوٹوں کا ہی فائدہ ہوتا ہے۔