آمنہ آفاق
۔ ’’آئے ہائے بہو! یہ کیا… تم جانتی ہو ٹماٹر اتنے مہنگے ہوگئے ہیں پھر بھی کھڑے کھڑے کھا رہی ہو، بھلا ہو تمہارے سسر صاحب کا، منع بھی کیا ہے اتنی مہنگی سبزی ہے مت لائیں، مگر یہاں جب تک کہ ہنڈیا کا ذائقہ نہ کھلے حلق سے نوالہ نہیں اترتا۔‘‘
یہ کڑک دار آواز میری بی جان کی تھی، اور برا ہو میری عادت کا جو کھانا پکاتے وقت لقمہ اتارنے کی ہے۔
’’وہ بی جان میں نے سوچا کہ یہ لال لال ٹماٹروں کو ذرا چکھ کے تو دیکھوں کہ اتنے مہنگے ٹماٹروں کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے۔ مجھے تو وہی لگا جو سستے والے ٹماٹروں کا ہوتا ہے۔‘‘ میری بات پر بی جان نے مجھے ایسے گھور کر دیکھا جیسے میں بہت کم عقل ہوں۔ ’’اچھا ناں چھوڑیں بی جان، ایک چھوٹا سا ٹکڑا تو لیا تھا میں نے، ایک ٹکڑے کے کم ہونے سے سالن کا ذائقہ خراب نہیں ہوگا۔‘‘میں نے ان کی تسلی کی تو انہوں نے مجھے گھورنے کا سلسلہ منقطع کیا۔
’’ارے بیٹا! تمہیں کیا بتاؤں کہ ہر گھر میں تباہی مچائی ہوئی ہے اس مہنگائی نے تو۔ ابھی برابر والی شاکرہ خالہ کے ہاں سے آرہی ہوں، اُن کے ہاں بڑا پھڈا ہوا اس موئے ٹماٹر کو لے کر۔‘‘
’’اچھا…‘‘ میں تجسس سے ان کے قریب ہی آکر بیٹھ گئی۔ ’’کیا ہوا بی جان؟‘‘
’’ارے ہونا کیا ہے، جس گھر کی محبت کی مثالیں میں تم لوگوں کو دیتی تھی، بے چاری کی پریشانی دیکھی نہ گئی۔‘‘
’’ اب بتا بھی دیں بی جان۔‘‘ مجھے ہمیشہ سے بات کا اختتام جاننے کی جلدی رہتی تھی۔
’’ ارے بھئی! ساس بیگم بڑی دقت سے ایک کلو ٹماٹر خرید کر لے آئیں کہ چلو کبھی بھی کوئی مہمان وغیرہ آجائے تو بہوئیں بریانی یا کڑاہی وغیرہ بنالیں، ٹماٹروں کا چھینٹا مار کے ہی سہی، اب دوسرے دن آگئیں اتفاق سے اُن کی چہیتی بڑی بیٹی بچوں سمیت، شاکرہ آپا نے بڑی بہو ندا سے کہا آج تو بریانی پکالو۔ اب بہو بیگم کا وہی جواب کہ اماں بریانی کے سامان کے ساتھ ٹماٹر بھی لیتی آئیے گا۔‘‘
’’ہائیں…! ٹماٹر ختم؟ میں کل ہی تو لائی تھی…کیا سارے ڈال دیے؟‘‘چھوٹی بہو سے پوچھا تو وہ بولی ’’ہاں چقندر بغیر ٹماٹر کے اچھے نہیں لگتے۔‘‘
اب تو ان کا پارہ ہائی… ’’ارے یہ میں نے مہمانوں کے لیے لا کر رکھے تھے، تم چقندر میں دہی ڈال لیتیں۔ میرا دل کہہ رہا تھا کہ ہوسکتا ہے صفیہ آ جائے بچوں کی چھٹی ہے، مگر تم لوگوں کو تو ہر بات بتانی پڑتی ہے یہاں۔‘‘
’’ارے اماں چھوڑے ناں۔‘‘ صفیہ نے اماں کا غصہ ٹھنڈا کیا۔ ’’آپ یخنی بریانی پکوا لیں، ہم وہی کھا لیں گے۔‘‘
’’ارے آپا مگر آپ تو مسالے والی بریانی شوق سے کھاتی ہیں اور آپ کے بچے بھی وہی بریانی کھاتے ہیں۔‘‘ بڑی بھی کم نہ تھیں، انہوں نے ساس کے غصے کو پھر سے ہوا دی تو پھر سے ان کی بڑبڑاہٹ شروع ہوگئی ’’آگ لگے اس مہنگائی کو، بندہ اپنے بچوں کو من بھاتا کھلا بھی نہیں سکتا، سو سو بار سوچنا پڑتا ہے کسی کے لیے کچھ بناتے ہوئے۔‘‘ ساتھ چھوٹی کو گھور کر دیکھا اور اپنے کمرے میں چل دیں، اور چھوٹی بہو بڑی فراخی سے مسکرا دیں۔
’’ہیں بس، یہ کیا بات ہوئی! اماں اس میں پھڈے والی کیا بات ہے! اتنا تو آپ بھی ہمیں ڈانٹ دیتی ہیں، اور یقین کریں آپ کی ڈانٹ اور اپنی امی کی ڈانٹ مجھے تو یکساں لگتی ہے۔‘‘ میں نے مایوسی سے کہا۔ کیوں کہ اس کہانی میں مجھے کہیں کوئی ٹوئسٹ نظر نہیں آیا۔
’’ایک تو بہو! تم بھی سدا کی جلد باز ہو، پوری بات سنی نہیں اور لگیں اپنی ہانکنے۔‘‘ بی جان نے پھر میری کلاس لے ڈالی۔
’’اچھا جلدی بتائیں، مجھے سالن بھوننے جانا ہے اسی لیے میں جلدی سے نتیجے پر پہنچ گئی تھی۔‘‘
’’ارے اصل پھڈا اس وقت شروع ہوا جب صفیہ کی بڑی بیٹی کسی کام سے چھوٹی بہو کے فریج میں گھسی، پتا چلا کہ چھ سات لال لال ٹماٹر کالے رنگ کے ایک شاپر میں چھپاکر رکھے ہوئے ہیں کہ بڑی کا ہاتھ نہ لگے ورنہ بڑی کی ہنڈیا ذائقہ دار ہوجائے گی اور وہ ساری تعریفیں سمیٹ لیں گی، یا شاید ان کو اپنی اماں کی دعوت کرنا ہو جو انہوں نے یہ عجیب و غریب حرکت کی۔‘‘
’’کیا…؟‘‘ میں خاصی حیران ہوئی، گویا ٹماٹر اتنے نایاب ہوگئے ہیں کہ یہ ہمارے رشتوں سے بھی زیادہ اہم ہوگئے ہیں، اُف…‘‘ میں نے سر پکڑ لیا۔
’’ہاں بہو! شاکرہ بھی بڑی بے بس نظر آئی، ہے تو چھوٹی سی بات، مگر یہ دیکھو اپنا ایمان کتنا خراب کرلیا اس کے پیچھے۔ جھوٹ، چیزوں کی ہیرا پھیری، پھر یہ جھگڑا۔ اور سب سے بڑی بات دل برے ہوئے وہ الگ۔ کیا یہ 400 یا 500 کے ٹماٹر ایمان سے بڑھ کر ہوسکتے ہیں؟‘‘ بی جان نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
’’جی بی جان! اور پھر یہ بھی دیکھیں کہ ہمارا تقدیر باللہ پر ایمان کتنا کمزور ہوگیا ہے کہ جو بھی ہماری تقدیر میں ہوگا وہ مل کر رہے گا، لیکن پھر بھی ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کے پیچھے اپنا ایمان خراب کرتے ہیں۔ کاش ہمیں اس کی سمجھ آجائے۔‘‘
’’ آمین…‘‘ بی جان نے کہا۔ ’’ ہے تو چھوٹی سی چیز، مگر اس سے دل کی تنگی ظاہر ہوتی ہے۔ اگر ہم ان چھوٹی چھوٹی چیزوں پر نظر رکھ لیں تو اپنا بہت سا ایمان اپنی روزمرہ زندگی میں بچاسکتے ہیں، جیسے خود اچھی اچھی چیزیں لے کر دوسرے کے لیے خراب یا داغ دار چھوڑ دیا جائے، یا اپنی چیزوں کی حفاظت اور دوسرے کی چیز کو خراب کرنے کے درپے ہونا، اور بہت سی ایسی مثالیں ہیں جن سے ہمیں روزمرہ زندگی میں بچنے کی سعی کرنی چاہیے۔ کوئی بھی چیز کتنی قیمتی کیوں نہ ہو ایمان سے بڑھ کر نہیں ہوسکتی۔‘‘
’’ جی بی جان بالکل ٹھیک کہا آپ نے۔‘‘ میں نے تائید کی اور سالن بھوننے کے لیے اٹھ گئی۔ ساتھ دل میں یہ خیال بھی آرہا تھا کہ ہے تو چھوٹی سی بات، مگر ہمیں ہر وقت اپنا محاسبہ کرنے کی کتنی ضرورت ہے۔