عشرت زاہد
آج ماما اور بابا کسی کام سے گئے ہوئے تھے۔ ماریہ اور عبدالرحمان دادی جان کے ساتھ تھے۔
ان لوگوں نے شام کے وقت اپنے گھر کے لان میں گزارا۔ دادی جان نے گھاس پر واک یعنی چہل قدمی کی اور بچے سلائیڈ اور جھولوں پر کھیلتے رہے۔ کچھ دیر بچوں نے پکڑم پکڑائی بھی کھیلی۔ جب مغرب کی اذان ہوگئی تو دادی جان بچوں کو لے کر گھر کے اندر آ گئیں۔ سب نے منہ دھو کر وضو کیا اور مغرب کی نماز ادا کی۔ اس کے بعد دادی جان نے بچوں کو چائے بسکٹ کھانے کے لئے دیے۔ پھر بچوں کو ہوم ورک کرنے کے لیے بٹھایا۔
ساتھ میں بات چیت بھی چل رہی تھی۔۔ تب دادی جان کی نظر ماریہ کی کہنی پر لگی ہوئی پٹی پر پڑی۔ دادی جان نے تشویش سے پوچھا،
“یہ کیا ہوا ہے، یہ چوٹ کب لگی؟”
دادی جان وہ آج ریسیز میں اسماء نے مجھے دھکا دے دیا تھا۔”
“کیوں دھکا دیا؟”
“میں ریک سے اپنی پانی کی بوتل لینے لگی، تو اسی وقت وہ بھی وہاں آ گئی اور مجھے دھکا دے کر ہٹا دیا۔ تب میں گر گئی اور میرے ایلبو پر۔۔۔ یعنی کہنی پر تھوڑی سی چوٹ لگ گئی۔ اور اس نے آرام سے ریک سے اپنی پانی کی بوتل نکال لی۔
اور کہنے لگی”مجھے زیادہ پیاس لگی ہے، میں پہلے پانی کی بوتل لونگی۔”
اور اس نے مجھے سوری بھی نہیں کہا تھا دادی جان۔ مجھے بہت غصہ آیا تھا۔۔ اور رونا بھی۔۔ دادی جان اس نے غلطی کی تو سوری کہنا چاہئے تھا نا، اور مجھے اٹھانا بھی چاہئے تھا۔”
“جی ہاں، بالکل اٹھانا بھی چاہئے تھا اور معافی بھی مانگنی چاہئے تھی۔
اچھا یہ بتاؤ کہ یہ پٹی کس نے لگائی؟”
“دادی جان۔۔ یہ ٹیچر نے لگائی تھی۔”
“دادی جان، اس کو کوئی زیادہ چوٹ نہیں لگی ہے۔۔ ” عبدالرحمان فوراً” بیچ میں کود پڑے۔ “یہ سنی پلاسٹ تو ٹیچر نے ایسے ہی ماریہ کو بہلانے کے لئے لگائی تھی۔۔۔ اتنی سی چوٹ سے اس کی شکل جو بن گئی تھی۔۔ یہ بالکل بھی اسٹرانگ نہیں ہے۔۔ بہادر بنو ذرا۔۔ یہ کیا ذرا سی چوٹ پر رونے لگ جاتی ہو۔۔ ہونہہ۔۔۔
اور وہ چشمش اسماء۔۔۔ وہ تو ہے ہی لڑاکہ۔ ہر کسی سے لڑتی رہتی ہے۔۔۔ دل چاہتا ہے چشمہ ہی توڑ دوں۔۔۔ پھر اندھوں کی طرح ٹٹول کر چلے گی”
“۔۔عبدالرحمان۔۔۔ کسی کو اس طرح الٹے سیدھے نام سے نہیں پکارنا چاہیے۔ اور اس کا نام بگاڑ کر نہیں رکھنا چاہیے۔ اللہ نے اس کام کو منع کیا ہے۔ اور اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی منع فرمایا ہے۔ کہ کسی کو برے القاب سے نہ پکارو، القاب لقب کی جمع ہے۔ اس کا مطلب ہے اپنی طرف سے کوئی دوسرا نام دینا۔۔ جسے تم لوگ نک نیم کہتے ہو نا۔ لقب اچھے کام پر بھی دیا جاتا ہے۔ جیسے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو “سیف اللہ ” کا لقب دیا تھا، حضرت عمر کو فاروقؓ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو غنی کا لقب عطا کیا تھا۔
کسی کو اس کی جسمانی ساخت یا نقص کی وجہ سے مذاق کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے”
اچھا۔؟ ۔۔۔ ہماری کلاس میں ایک موٹا لڑکا ہے۔ اس کو سب موٹا کہتے ہیں اور دادی جان۔۔۔۔ ہی ہی ہی۔۔۔ ایک دبلا پتلا اور لمبا سا لڑکا ہے۔۔ اس کو سب بانس کہتے ہیں”
عبدالرحمن کی ہنسی نہیں رک رہی تھی۔
“بہت بری بات ہے، بیٹا” عبدالرحمن کی ہنسی دیکھ کر ان کو بھی ہنسی آ رہی تھی۔ لیکن انہوں نے بہت مشکل سے روکتے ہوئے کہا۔۔۔ اب نہیں کہنا اور سب کو بھی منع کر دینا”
” جی ٹھیک ہے۔ اب نہیں کہوں گا۔
لیکن دادی جان، اس چشمش کا کیا کریں؟ او سوری۔۔۔ معاف کیجئے گا۔۔ اسماء کا کیا کریں۔۔ وہ سب بچوں کے ساتھ لڑتی ہے”
“اس کے بارے میں ٹیچر سے بات کریں گے انشاء اللہ۔ پیرینٹ ٹیچر میٹنگ میں اس کی امی سے کہہ دیں گے۔۔ وہ ٹھیک ہو جائے گی۔۔ لیکن آپ لوگ اس کو کچھ نہیں کہنا۔ کیونکہ، ہماری شکل صورت تو اللہ تعالی بناتے ہیں نا۔ وہ کسی کو گورا کسی کو کالا، کسی کو موٹا یا دبلا پتلا، لمبا یا چھوٹے قد کا بنا دے۔ یہ انسان کے بس میں نہیں ہوتا۔ ورنہ تو ہر کوئی خوب صورت اور حسین ہوتا۔ اور جو ہم نے نہیں بنایا اس پر اترانا کیسا؟ یا احساس کمتری میں مبتلا بھی نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اللہ احسن الخالقین ہے۔ اگر اس نے کسی کو موٹا یا کالا بنایا تو اس میں دوسری کوئی خوبی ہوگی۔ کچھ سمجھ میں آئی بات؟ ” دادی جان نے عبدالرحمن کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
” جی جی دادی جان، بہت اچھی طرح سے سمجھ میں آگئی بات۔۔ اب ہم کبھی کسی کو برے نام سے نہیں پکاریں گے۔”
“چلو اب اپنی کتابیں سمیٹ کر بیگ میں رکھو۔ میں کھانا لگا دیتی ہوں”
“دادی جان ہم بھی آپ کی ہیلپ کرنگے۔۔۔ اوہ معاف کیجئے۔ مدد کرینگے۔ ماما بابا کب تک آئینگے؟”
ان کو آج دیر ہو جائگی، وہ کھانا کھا کر آئیںگے”
کھانا کھانے کے بعد بچے دادی جان کے کمرے میں ہی آگئے۔
“دادی جان آج آپ بہت تھک گئی ہونگی نا؟”
عبدالرحمن نے ان کے پیر دباتے ہوئے کہا۔
“ہاں میری جان۔کچھ تھک تو گئی ہوں۔ لیکن آپ نے میرے پیر دبا دیے، اب میں بالکل ٹھیک ہو گئی ہوں۔ بہت پیارا بیٹا ہے میرا۔ جیتے رہو”
“تو کیا میں پیاری بیٹی نہیں ہوں؟ ”
“نہیں تو۔۔ آپ بھی میری بہت پیاری بیٹی ہیں،” دادی جان کیا آج کہانی سنائیں گی؟”
“آج میں بہت تھک گئی ہوں بیٹا۔ کل ضرور سنا دونگی۔ ان شا اللہ۔”
ٹھیک ہے دادی جان۔ مجھے بھی نیند آ رہی ہے۔ شب بخیر۔۔۔”