پچھلے دنوں ہمیں اپنے دوست اشرف قریشی کے بیٹے اشعر قریشی کی شادی خانہ آبادی کا دعوت نامہ ملا۔ اشرف قریشی چونکہ شاعر ہیں، اس لیے اُن کے ساتھ ہمارا ادب دوستی کا رشتہ بھی ہے۔ لہٰذا اُن کے برخوردار کی تقریبِ سعید میں ہماری شرکت لازمی تھی، یا یوں کہیے کہ یہ پروگرام ہمارے لیے انتہائی اہمیت کا حامل تھا، سو کارڈ پر درج روانگیٔ بارات کے وقت سے بہت پہلے مجھ سمیت سارے دوست اُن کے گھر جا پہنچے جہاں باراتی تھے نہ کوئی گہما گہمی۔ سوائے اشرف طالب کے وہاں کوئی نہ تھا۔ روانگیٔ بارات سے متعلق میرے پوچھنے پر کہنے لگے ’’میں خاصی دیر سے تیار ہوکر گھوم رہا ہوں، مہمانوں کا انتظار ہے، وہ آجائیں تو روانہ ہوجاتے ہیں‘‘۔ بات بالکل ٹھیک ہے، ظاہر ہے باراتیوں کے بغیر بارات کس طرح جاسکتی تھی! سو، اُن کی طرح ہم بھی لوگوں کے انتظار میں بیٹھ گئے۔ ایک کے بعد دوسرا گھنٹہ گزرتے ہی ہمیں احساس ہوگیا کہ لوگوں کے انتظار میں یہاں بیٹھنے کے بجائے آرام کی غرض سے کہیں جاکر لیٹنا پڑے گا۔ بس اسی فارمولے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہم باراتیوں کے لیے منگوائی گئی کوسٹر میں جا لیٹے۔ یوں خدا خدا کرکے رات سوا بارہ بجے منزل کی جانب روانگی ڈال دی، اور بارات کے ساتھ رات ایک بجے نئی کراچی سیکٹر الیون ڈی پہنچے۔ ’’بارات آگئی، بارات آگئی‘‘ کا شور سنتے ہی مجھے یقین ہوگیا کہ ہماری منزل آچکی ہے، یعنی ہمارے سفر کا اختتام ہوچکا ہے۔ سارے باراتی گاڑیوں سے اترنے لگے، میں بھی اُن کے پیچھے پیچھے اُس پنڈال کی جانب چل پڑا جہاں باراتیوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے خاصا انتظام کیا گیا تھا۔ باقی لوگوں کی طرح میں بھی پنڈال میں جا بیٹھا۔ چونکہ اشعر قریشی کا نکاح چند ماہ قبل ہوچکا تھا اس لیے میرے خیال میں کھانا کھاتے ہی یہاں سے رخصت ہوجانا تھا۔ لیکن سوچنے سے کیا ہوتا ہے! ہونا تو وہی ہوتا ہے جو ہوا، یعنی ہم بیٹھے رہے اور وقت گزرتا گیا۔ رات دو بجے کے بعد کھانا کھایا اور پھر اپنی اپنی کرسیوں پر ہی براجمان رہے۔ پنڈال میں خاصی دیر تک بیٹھے رہنے سے مجھے کچھ تھکاوٹ سی محسوس ہونے لگی تھی، اس لیے سوچا باہر تھوڑی چہل قدمی ہی کرلوں، کوئی دکان کھلی ہو تو پان کھالوں۔ بس یہی سوچتا ہوا پنڈال سے باہر نکل آیا۔ شاید اس معاملے میں قسمت اچھی تھی کہ پنڈال سے باہر نکلتے ہی پان کی دکان نظر آگئی۔ میں جلدی جلدی قدم بڑھاتے اور گندے پانی کو پھلانگتے ہوئے اس دکان پر جا پہنچا۔ پان کھایا اور کچھ دیر کے لیے وہیں کھڑا ہوگیا۔ تھوڑی دیر وہاں کھڑے رہنے کے بعد میں نے دکان دار سے اُس کا نام پوچھتے ہوئے کہا ’’تمہارے علاقے کی حالت دیکھ کر نہیں لگتا کہ کبھی یہاں کوئی ترقیاتی کام ہوئے ہوں گے۔ ہر طرف سیوریج کا گندا پانی، جبکہ گلیاں انتہائی خستہ حال دکھائی دے رہی ہیں۔‘‘
پان والا شاید مجھ سے بھی زیادہ بولنے کا عادی تھا، اپنا نام آصف بتاتے ہوئے ایسا بولا کہ بولتا ہی چلاگیا: ’’ہم تو بچپن سے ہی علاقے میں گندگی اور گلیوں میں سیوریج کا بہتا ہوا پانی دیکھ رہے ہیں، یہ ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ آپ یہاں شادی میں آئے ہوئے ہیں اس لیے ایسی باتیں کررہے ہیں۔ ہم تو اسی گند کو ٹاپتے ہوئے جوان ہوگئے ہیں۔ کچرا تو یہاں کی ثقافت بن چکا ہے۔‘‘
اُس کی باتیں سن کر مجھے محسوس ہوا جیسے اُسے میری بات بری لگی ہو۔ بس اس خیال سے میں نے اُس سے کہا: ’’بھائی اگر میری کوئی بات بری لگی ہو تو معذرت چاہتا ہوں، میں تو آپ کے علاقے کی بدترین صورت حال دیکھ کر یونہی پوچھ بیٹھا تھا۔‘‘
’’نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے، مجھے آپ کی کوئی بات بری لگی اور نہ میں غصے میں ہوں۔ آپ تو مہمان ہیں، ابھی چلے جائیں گے، لیکن ہمیں تو یہیں رہنا ہے، اور پھر سچ تو سچ ہوتا ہے جو آپ کے سامنے ہے۔‘‘
دکان کے ساتھ بنی چار دیواری کے بارے میں پوچھنے پر اُس نے مجھ سے کہا: ’’یہ گدھا پارک ہے۔‘‘
’’گدھا پارک…! کیا مطلب؟‘‘
’’ذرا اندر جاکر دیکھیں آپ کو ہر طرف گدھے بندھے نظر آئیں گے۔ ویسے تو یہ ایک پارک ہے لیکن اب یہاں قبضہ مافیا نے قبضہ کررکھا ہے۔ علاقے کے وہ کاروباری لوگ جن کا کاروبار پھلوں سے منسلک ہے، اپنے گدھے یہاں باندھتے ہیں۔ یہی صورت حال اندرون گلیوں کی بھی ہے۔ یہ پارک ’’گدھا گیراج‘‘ کے طور پر بھی استعمال ہورہا ہے۔‘‘
آصف کا محلے میں قائم پارک کے بارے میں اس طرح کا نقشہ کھینچنا کسی لطیفے سے کم نہ تھا، بلکہ میرے لیے تو یہ بڑی خبر تھی۔ خیر جیسا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں، وہ بولے جارہا تھا۔ یہاں کے مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے اس نے بتایا: ’’یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ فراہمی و نکاسیِ آب ہے۔ پینے کے لیے پانی دستیاب نہیں، اور یہاں کے گلی کوچوں کے ساتھ ساتھ مرکزی سڑکیں اُبلتے گٹروں کے غلیظ اور بدبودار پانی کے تالاب یا نالوں کا منظر پیش کرتی نظر آتی ہیں، علاقے کی گلیوں اور سڑکوں سے گزرنے کا مطلب اپنے کپڑے ناپاک کرنا ہے، اسی لیے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے اپنے دروازوں کے سامنے مٹی ڈلوانے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ ہم انتہائی پریشان ہیں اور یہ سب کرنے پر مجبور ہیں۔ ظاہر ہے گھر آنے جانے کے لیے یہیں سے گزرنا پڑتا ہے، کونسلر دکھائی نہیں دیتے، بلدیاتی اداروں کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے، بلکہ زیرو ہے۔ علاقے کی حالت منتخب نمائندوں کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہاں ایک نہیں بلکہ سارے ہی نااہل ہیں۔ ہر ادارے میں کرپشن عروج پر ہے۔ جنہیں بازپرس کرنی ہے وہ کرپٹ افسران پر مہربان ہیں اور ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان کی غیر قانونی حرکتوں اور کرپشن کو نظرانداز کرتے رہتے ہیں۔ علاقے کی جانب جاتی مرکزی سڑک کی تمام اسٹریٹ لائٹس خراب ہونے کے باعث بند پڑی ہیں، نشاندہی کے باوجود کبھی کسی نے سنجیدگی دکھائی اور نہ ہی کوئی نوٹس لیا گیا۔ عوام کا کام تو عوامی مسائل سے اربابِ اختیار کو آگاہ کرنا ہوتا ہے تاکہ شہریوں کے مسائل حل ہوسکیں، مگر جب کوئی ذمہ دار عہدیدار اس پر چشم پوشی کرے تو کیا کیا جائے! پورا علاقہ کسی گاؤں کا منظر پیش کرتا ہے، بلکہ شایدگاؤں بھی اس سے بہتر ہو۔‘‘
………٭٭٭………
آصف کی باتیں سو فیصد درست ہیں۔ اگرکراچی کے انفرااسٹرکچر پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ ماضی میں یہاں کے ہر علاقے میں اپنے اور پھر شہر میں بڑے بڑے نالے ہوا کرتے تھے، پانی علاقوں کے ان نالوں سے ہوتا ہوا ملیر ندی، لیاری ندی،گجرنالہ اور دیگر نالوں میں جاکرگرتا تھا، اور سیوریج سسٹم بھی خاصا بہتر تھا۔ اس کے برعکس سیوریج کی لائنیں اب بند پڑی ہیں،کراچی شہر جو کہ تیزی کے ساتھ پھیلتا ہوا شہر ہے جہاں صرف سندھ سے ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان سے لوگ بڑی تعداد میں آتے ہیں، تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث یہاں کے مسائل میں بھی تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہونے کے باوجود کراچی گندگی اور سیوریج زدہ نظام سے اٹا پڑا ہے۔ گندگی اور مچھروں کی بہتات کے باعث یہاں کے باسی مختلف موذی امراض کا شکار ہیں۔ ہر محلے، ہر گلی کے نکڑ اور چوراہے پر کچرے کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں، جبکہ کراچی سے منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی اور بلدیاتی نمائندے ہمیشہ کی طرح سے بے بسی کا رونا ہی روتے نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی ہے جو شہر کراچی پر حکمرانی کا خواب تو دیکھتی ہے مگر جب کراچی کے مسائل پر رونا رویا جائے تو مسائل حل کرنے کے بجائے یہ جماعت اپنی تمام تر ذمہ داری کے ایم سی پر ڈال دیتی ہے۔ بات سیدھی سی ہے کہ سندھ حکومت اگر کراچی کے مسائل کا حل چاہتی ہے تو بلدیاتی اداروں کو اختیارات اور فنڈز فراہم کرے تاکہ بلدیاتی نمائندے عوام کی مشکلات میں کمی لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرسکیں اور یہاں بسنے والوں کو کچرے سے نجات دلانے کے لیے اقدامات کرسکیں، کیوں کہ نچلی سطح تک اختیارات اور فنڈ دینے سے ہی سیوریج، پینے کے صاف پانی اور ٹرانسپورٹ جیسے مسائل سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔