یہ ہفتہ بنیادی طور پر تو ’ایکسٹینشن‘ کی نذر ہوگیا۔ پچھلے ہفتے کا اختتام ناروے میں ہونے والے افسوس ناک واقعے کو روکنے کی کوشش کرنے والے ہیرو ’عمر‘ پر ہوا تھا۔ اس پر بات ہونے کی مزید گنجائش تھی، بعد میں جاری ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ کوئی چار پانچ افراد حصار توڑ کر اندر داخل ہوئے، لیکن وہ ’فلائنگ کک‘ والا عظیم مجاہد سب سے پہلے پہنچنے کی وجہ سے بازی لے گیا۔ بہرحال ناروے ایشو سے متعلق تمام ویڈیوز وائرل رہیں، خصوصاً بعد میں آنے والی وہ ویڈیو جس میں مسلمانوں نے اُسی مقام پر جمع ہوکر قرآن مجید کی تلاوت سے ماحول کو منور کیا۔ ایسے میں ایک بار پھر حکومت کے لیے بلکہ حکومت نے خود اپنے لیے خاصی مشکلات کھڑی کیں۔ وزیراعظم عمران خان نے کلین اینڈ گرین انڈیکس کی تقریب میں اپنے ایک تازہ خطاب میں پھر (مبینہ طور پر) زبان پھسلا دی۔ اس کے بعد پھرسوشل میڈیا پر خوب بھد اُڑائی گئی۔
رضوان بھٹی لکھتے ہیں کہ ’’شرم آنی جانی چیز ہے… بندہ ڈھیٹ ہونا چاہیے‘‘۔ ایک سب سے مقبول پوسٹ یہ رہی جس میں تواتر سے وزیراعظم صاحب کے خطابات میں سے اہم اور انوکھے اقوال… جن کی تصحیح یا معذرت آج تک شاید کہیں نظر نہیں آئی…کو یکجا کرکے ’عمرانی سائنس‘ کا نام دیا گیا، کیونکہ اس میں تمام سائنسی علوم کی شاخوں پر مبنی اہم انکشافات تھے۔ پوسٹ کچھ یوں تھی:’’ عمرانیاتی سائنس میں ایک اور اضافہ مبارک۔’’درخت رات کو آکسیجن دیتے ہیں‘‘۔ دنیا بھر کے سائنس دان اس درخت کی تلاش میں بنی گالا کی طرف روانہ۔ بقول ایک شخص کے، یہ رلاتا ہے تو ہنساتا بھی تو ہے ناں۔ درخت رات کو آکسیجن دیتے ہیں (باٹنی)۔ اسی طرح ایک اور خطاب میں فرمایا کہ چین میں اسپیڈ کی لائٹ سے تیز ٹرین چلتی ہے (فزکس)۔ جاپان اور جرمنی ہمسایہ ممالک ہیں (جغرافیہ)۔ حضرت عیسیٰؑ کا تو تاریخ میں ذکر ہی نہیں ملتا (تاریخ)۔ پلاٹ لاٹس (پلیٹ لیٹس) نئی چیز سیکھ لی (میڈیکل)۔ کٹے، انڈے، مرغیاں بیچنے سے معیشت چلتی ہے (اکنامکس)۔ بجلی ملائشیا سے درآمد پام آئل سے بنتی ہے (ٹیکنالوجی)۔ پانی کے لیے کھودے گئے کنووں سے گیس نکلتی ہے، لوگ کنویں میں پائپ ڈال کر چولہے جلاتے ہیں (جیالوجی)۔ سال میں بارہ موسم ہوتے ہیں (ماحولیات)۔ گائے چھ نہیں بارہ کلو دودھ دے تو انقلاب آجائے (پلاننگ)۔ میرے پاکستانیو! یہی تو ہے وہ روحانیت والی سپر سائنس جو بنی گالہ کے جنات سے سیکھی گئی ہے۔‘ ایک اور ناقد نے مزید برھاوا دیتے ہوئے لکھا کہ ،‘ درخت رات کوآکسیجن دیتے ہیں پر کبھی کبھی انڈے بھی دے دیتے ہیں۔‘‘اسی طرح ایک اور پوسٹ میں آرمی چیف ایکسٹینشن کی مناسبت سے تنقید کی گئی کہ ’’جتنی محنت عمران نے باجوہ کو ایکسٹینشن دینے پر کی ہے اُتنی محنت اگر سائنس میں کرتے تو رات کے وقت درختوں سے آکسیجن نہ نکالتے۔‘‘
اچھا یہ تو ہوا سو ہوا، اب اس پر مہر یوں ثبت ہوئی کہ اتنا سمجھ دار، پڑھا لکھا وزیراعظم ہوگا تو اس کی ٹیم بھی ویسے ہی کارنامے کرنے والی ہوگی ناں؟ اس پر مزید نااہلیت کے جھنڈے سپریم کورٹ نے گاڑ دیئے، جب آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کے خلاف ایک درخواست پر سپریم کورٹ نے ایک سوموٹو ایکشن لیا تو اُس کی سماعت کے دوران قوم پر یہ بم گرا کہ حکومت کو معلوم ہی نہیں کہ طریقہ کار کیا ہوگا، اور جو طریقہ کار اختیار کیا گیا اُس کے بارے میں خود حکومت کومعلوم تھا کہ یہ غلط ہے، چاہے صدر سے منظوری کے بعد کابینہ میں لانا ہو، یا کابینہ کے تمام ارکان کی منظوری نہ ہونا، یا غلط شق پر سمری بنا کر عدالتِ عظمیٰ میں پیش کرنا۔ بہت سخت الفاظ میں بھرکس نکلا۔ ٹویٹر پر تو ایکسٹینشن کے حق میں، پھر مخالفت میں ٹرینڈ چل پڑے۔ یہاں تک کہ عدالت نے اپنا ڈنڈا دکھا کر ’چھ ماہ‘ کا ہلکا ہاتھ رکھ دیا۔ وزیر قانون فروغ نسیم کو اپنی سنگین غلطی پر مستعفی ہونا پڑا۔ ایسے میں ٹویٹر پر ایک بار پھر گویا ڈیڑھ سال میں کوئی پانچویں مرتبہ ’صدارتی نظام‘ کی گونج ٹرینڈ کی صورت میں نظر آئی۔ پی ٹی آئی کے جاں نثاروں نے ہاتھ اور انگلیوں کی بازی لگاکر خوب پوسٹیں پھیلائیں اور ٹویٹر پر تو عمران خان کو صدر بنا ہی دیا۔ عمران خان کو ہیرو بناکر پورے پارلیمانی نظام کو کچرا قرار دیا۔ اس کے ساتھ ہی قائداعظم علیہ رحمہ کی تحریر کردہ دستاویز کی فوٹو بھی وائرل کی گئی کہ یہ صدارتی نظام ان کا خواب تھا۔ افسوس کی بات یہ تھی کہ رٹے رٹائے جملے تھے، ساری بودی دلیلیں تھیں، بلکہ دلیل تو کوئی نظر ہی نہیں آئی۔ پی ٹی آئی کے مطابق اب قومی اسمبلی ایک منڈی بن چکی ہے۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی خود کو نظام سے بالاتر سمجھنے لگے ہیں۔ عدالتیں حکومتی فیصلوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک رہی ہیں۔ 2،2 سیٹیں رکھنے والی جماعتیں حکومت گرانے و بنانے کے فیصلے کررہی ہیں۔ جس کا جی چاہتا ہے، اٹھ کر جمہوریت کے نام پہ کوئی بھی سڑک بند کرکے جمہور کی اذیت میں اضافہ کردیتا ہے۔ کیا یہ وہ جمہوریت ہے جسے چلتے رہنا چاہیے؟ کیا اس نظام کے بطن سے کسی خیر کا ظہور ممکن ہے؟ کیا ایسی مفلوج حکومتیں جمہور کو کچھ ڈیلیور کرنے کی پوزیشن میں ہوتی ہیں؟ کیا ایسے نظام سے جمہوریت مضبوط ہوگی؟ کیا یہ نظام جمہوریت میں نقب زنی کے دائمی مسئلے پر قابو پا سکے گا؟ دوسری جانب صدارتی نظام کی خامیاں بھی ہیں، جن میں سرفہرست اختیارات کا نچلی سطح پر نہ پہنچ پانا ہے، لیکن اس کی خوبیاں وہ ہیں جن کی اس وقت شدید ضرورت ہے۔ ایک منتخب صدر طاقتور ہوتا ہے، اسے کسی قسم کی بلیک میلنگ کا سامنا نہیں ہوتا، کوئی ادارہ اس کے کام میں مداخلت نہیں کرسکتا، کوئی عدالت اس سے جواب طلبی نہیں کرسکتی، اس کے احکام میں رخنہ نہیں ڈال سکتی، کوئی چھوٹی یا بڑی جماعت اس کے راستے میں مزاحم نہیں ہوسکتی، تمام انتظامیہ اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور وہ اپنی تمام صلاحیتوں کا اظہار کرنے میں آزاد ہوتا ہے۔ وہ صرف اور صرف عوام کو جوابدہ ہوتا ہے جن کے پاس اسے ہر چار یا پانچ سال بعد جانا ہوتا ہے۔ اب یہ ساری خصوصیات، پھر اشارہ ہو عمران خان کی جانب تو یا کہنے۔ ایسا نہیں کہ میاں نوازشریف، شہبازشریف یا بلاول وغیرہ خان صاحب سے کم ہوں ( ماسوائے تقریری مقابلے کے)۔ مگر لوگ، یا سارے نئے یوتھیے بھول جاتے ہیں کہ پاکستان پر صدارتی نظام کا راج طویل عرصہ رہ چکا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر کرپشن رگ و پے میں سرایت کرجائے، دین ایمان مال و دولتِ دنیا بن جائے تو کوئی نظام نہیں سدھار سکتا۔
دو دن یہ معاملہ ملکی منظر نامے پر چھایا رہا۔ نااہلی کے تناظر میں بھی بہت باتیں ہوئیں، لیکن ان سب میں سے ہم نے امیر جماعت اسلامی پاکستان کی ایک ٹویٹ کا انتخاب کیا ہے جو بہت کچھ سمجھانے کو کافی ہے ’’وفاقی وزرا کی فوجِ ظفر موج سے اگر ایک نوٹیفکیشن کئی دن کی مشق اور بار بار کی ہدایت اور اجلاسوں کے بعد بھی درست طور پر جاری نہیں ہوسکتا تو ملک و قوم کے معاملات کے لیے ایسے لوگوں پر کیسے اعتبار کیا جا سکتا ہے؟‘‘
ایسی ایسی میمزبنیں کہ لگ رہا تھا گوگل پر سب سے زیادہ سرچ کیا جانے والا لفظ الیکٹرک ایکسٹینشن بورڈ تھا۔ جسے دیکھو جلے یا ناکارہ ہوئے الیکٹرک ایکسٹینشن بورڈ کا فوٹو لگا لگا کر نہایت تخلیقی صلاحیت کا مظاہرہ اپنے کمنٹس میں کررہا تھا:
یہ تو جل گیا۔
کیا یہ ریپیئر ہوجائے گا؟
ایکسٹینشن نہیں مل رہا۔
کہیں تم یہ تو نہیں ڈھونڈ رہے تھے۔
تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم کا کہنا تھا کہ ’’میرے کپتان، آپ کی اس ملک و قوم کی بقا کی جنگ میں سائیبر واریئرز آپ سے ایک قدم آگے کھڑے ملیں گے۔
اداروں کے تصادم کا خواب دیکھنے والوں کی نیندیں بھی اڑ گئیں۔ ہمیں ملک کے تمام اداروں کے سربراہان پر ناز ہے۔ ملک کا سرمایہ ہیں سب۔‘‘
جس طرح کے ٹرینڈز چل رہے تھے واقعی میں وہ خان صاحب سے بھی آگے ہی نظر آئے۔ کیوں نہ نظر آتے!
تھا بھی اپنی نوعیت کا منفرد کیس۔
لوگ اس دوران ٹماٹر، میاں صاحب کی خراب طبیعت، کشمیر… سب کچھ بھول سے گئے تھے۔ چونکہ بات چلی تھی ملکی دفاعی ضرورت اور بھارت سے ٹینشن کی، تو سید طلعت حسین نے سنجیدگی سے متوجہ کیا کہ ’’جنرل باجوہ چاہتے ہیں 3 سال۔ جو 3 سال کے بعد سینئر ہوں گے وہ بھی چاہتے ہیں 3 سال۔ جو 7 ماہ بعد سینئر ہوں گے وہ سوچتے ہیں 6 ماہ۔ عمران خان چاہتے ہیں 4 سال، تاکہ اگلے انتخابات بھی پچھلے جیسے ہوں۔ حزبِ اختلاف مانگتی ہے نئے انتخابات، اور پھر دے گی 3 سال۔ پوچھنا تھا کشمیر کا کیا کرنا ہے؟‘‘
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں افواج کا کردار ڈھکا چھپا نہیں۔ اس کے باوجود اس واقعے سے بہت کچھ کھل کر سامنے آیا، جیسے کہ 1973ء کے آئین میں آرمی چیف کی توسیع ملازمت کا تصور ہی نہیں، نہ ہی کوئی ایس او پی کا قانون ٹائپ کی چیز موجود ہے۔
اس صورت حال پر ایک بھرپور تبصرے کی صورت ڈاکٹر فیاض یوں لکھتے ہیں بلکہ متوجہ کرتے ہیں کہ ’’72 سال میں کسی بھی سیاسی پارٹی کے رکنِ پارلیمان کو یہ توفیق نہ ہوسکی کہ وہ چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے کے متعلق قوانین کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر اس میں موجود سقم کی نشاندہی کرتا۔ قانون اور طریقہ کار میں کوئی معقول ترمیم تجویز کرتا۔ کوئی نجی بل ہی پیش کردیتا۔
یہ صورتِ حال صاف صاف بتاتی ہے کہ ملکِ خداداد میں کسی کی جرأت نہیں ہے کہ ’’نوگو ایریا‘‘ میں قدم رکھنے کا سوچ بھی سکے۔
کیا پڑوسی ملک ہندوستان میں بھی چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے کے حوالے سے اسی طرح کا مبہم قانون ہے؟ وہ بھی انگریز کی غلامی سے آزاد ہوئے ہیں اور ہم بھی۔ بدقسمتی سے ہمارے حصے میں صرف گوروں کے منتخب کردہ فوجی افسران ہی نہیں آئے تھے، وڈیرے اور گدی نشین بھی آئے تھے۔ تینوں کے گٹھ جوڑ نے جو چمتکار دکھائے وہ آج سپریم کورٹ کے کچھ ججوں کے ریمارکس کی صورت میں قوم کے سامنے ہیں۔
ممکن ہے کہ سپریم کورٹ کے کسی فیصلے کے نتیجے میں ابہام دور ہو اور ایک سرکاری عہدے کے حوالے سے پراسراریت کا خاتمہ ہوجائے، اور واضح قوانین وجود میں آسکیں، اور پھر کوئی جرنیل خود کو نہ توسیع دے سکے اور نہ دلوا سکے۔‘‘
معروف صحافی و اینکر حامد میر نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے یہ اہم سنجیدہ تبصرہ کیا کہ ’’سپریم کورٹ کا فیصلہ کسی فرد کی ہارجیت نہیں بلکہ آئین اور قانون کی جیت ہے، جو معاملات پہلے طے نہ ہوسکے تھے اب ہمیشہ کے لیے طے ہوجائیں گے تاکہ آئندہ کبھی اداروں میں تصادم کا تاثر پیدا نہ ہو۔ پاکستان کی ترقی ایک خودمختار پارلیمنٹ، مضبوط فوج، آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا سے مشروط ہے۔‘‘
نوٹ: واضح رہے کہ تمام نہیں لیکن کچھ پودے رات کو بھی آکسیجن دیتے ہیں۔ وقاص حیدر کی پوسٹ سے کچھ نام بھی مل گئے جن میں نیم ، اریکاپام، اسپائیڈرپلانٹ/ڈراسینا/سونگ آف انڈیا/ربر پلانٹ/لکی بیمبو/چائنیز ایورگرین/منی پلانٹ/اسنیک پلانٹ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سب 24گھنٹے آکسیجن خارج کرتے ہیں۔ چونکہ ہمارا موضوع سوشل میڈیا مباحث تھا اس لیے یہ جان کر کہ لوگ غلط مطلب نہ لیں یہ وضاحت ضروری سمجھیں اس لیے عنوان بھی یہی رکھا۔