ادارہ فکرِ نو کے زیراہتمام محشر بدایونی کی یاد میں مشاعرہ

602

نثار احمد نثار
۔22 نومبر 2019 کو شام سات بجے کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے تعاون سے ادارۂ فکر نو کراچی نے محشر بدایونی کی یاد میں تعزیتی ریفرنس اور مشاعرے کا اہتمام کیا۔ پروفیسر جاذب قریشی کی صدارت میں ہونے والے اس پروگرام میں رفیع الدین راز مہمان خصوصی تھے‘ سعید الظفر صدیقی مہمان اعزازی اور راشد نور ناظم تقریب تھے۔ حافظ برہان قادری نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ حمیرہ شاہ زیب خان نے نعتِ رسولؐ پیش کی۔ پروفیسر جاذب قریشی نے کہا کہ ہر شاعر کے یہاں ایک محبوب حقیقی ہوتا ہے اور دوسرا عشق مجازی جب کہ محشر بدایونی نے ایک تیسرا محبوب اپنے وطن پاکستان کو بنایا اور پاکستانیت کے فروغ کے لیے وطن کی محبت اجاگر کرنے کے حوالے سے بے شمار نغمات لکھے جن کوبہت پزیرائی حاصل ہوئی۔ انہوں نے وطن کے مسائل تحریر کیے اور یہ بھی بتایا کہ ہم کس طرح ان مسائل سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے 16 سال کی عمر سے شاعری شروع کی ان کی شاعری کا بیشتر حصہ نظموں پر مشتمل ہے انہوں نے 1947ء تک زیادہ تر نظمیں ہی کہی ہیں تاہم پاکستان آنے کے بعد انہوں نے غزلوں کی طرف خصوصی توجہ دی اور غزل میں بھی نام کمایا ریڈیو پاکستان کے رسالے ’’آہنگ‘‘ میں ان کے تجربات سے نئے نئے راستے کھلے‘ ان کی پہلی کتاب 1964ء میں شائع ہوئی۔ ’’یادوں کی بازگشت‘‘ ان کی غزلوں کا اہم محور ٹھہرا۔ ان کے اشعار جدید حسیت کے آئینہ دار ہیں ان کے یہاں کلاسیکل انداز پایا جاتا ہے انہوں نے نئی اور پرانی روایات سے ہٹ کر سب سے الگ لب و لہجہ اپنایا وہ ہماری شاعری کی آبرو تھے ہم ان کے کلام سے استفادہ کر رہے ہیں۔ ان کی غزلیں اور نظمیں زمینی حقائق کی عکاس ہیں۔ انہوں نے بچوں کا ادب بھی تخلیق کیا۔ کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے رکن حنیف عابد نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ کراچی پریس کلب میں علمی و ادبی تقریبات ہوتی رہیں اس سلسلے میں ہم ہر تنظیم سے متملس ہیں کہ وہ کراچی پریس کلب میں اپنے پروگرام آرگنائز کرے ہم مکمل تعاون کریں گے۔ اس پروگرام کے دوسرے دور میں جن 44 شعرائے کرام نے کلام پیش کیا ان میں پروفیسر جاذب قریشی‘ رفیع الدین راز‘ سعید الظفر صدیقی‘ ظفر محمد خان ظفر‘ فیروز ناطق خسرو‘ سید آصف رضا رضوی‘ راشد نور‘ اختر سعیدی‘ ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی‘ خالد معین‘ فیاض احمد فیاض‘ سلیم فوز‘ محمد علی گوہر‘ راقم الحروف نثار احمد نثار‘ نسیم شیخ‘ منور جہاں‘ عرفان خانی‘ نظر فاطمی‘ سیمان نوید‘ افروز رضوی‘ کشور عدیل جعفری‘ احمد سعید خان‘ ایاز مفتی‘ حامد علی سید‘ حنیف عابد‘ ہدایت سائر‘ رانا خالد محمود قیصر‘ شاعر علی شاعر‘ یاسمین یاس‘ ڈاکٹر نزہت عباسی‘ سخاوت علی نادر‘ ریحانہ احسان‘ شاہدہ عروج‘ ضیا زیدی‘ سحر علی سحر‘ منصور ساحر‘ یاسر سعیدصدیقی‘ واحد حسین رازی‘ ہما اعظمی‘ شجاع الزماں‘ مس کوثر گل‘ شائق شہاب‘ علی کوثر اور عاشق شوقی شامل تھے۔ میزبانِ تقریب اختر سعیدی نے کلمات تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے شکر گزار ہیں کہ جن کے تعاون سے آج کی تقریب ممکن ہو سکی۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج ہر شاعر نے بہت اچھا کلام پیش کیا اور سامعین و شعرا نے اوّل سے آخر تک سماعتوں کو زندہ رکھا۔

اعجاز رحمانی کی یاد میں تعزیتی اجلاس اور نعتیہ مشاعرہ

اعجاز رحمانی اردو زبان و ادب کے معتبر شاعر تھے‘ وہ نظم بھی بہت خوب صورت کہتے تھے اور غزل بھی‘ اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک نعت گو شاعر کے طور پر بھی اپنی شناخت رکھتے تھے انہوں نے شعر و سخن کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کی اور عہد حاضر کے ناقدین سے داد و تحسین پائی ان کے انتقال سے ہم ایک وضع دار انسان اور قادر الکلام شاعر سے محروم ہو گئے ہیں۔ان دنوں کراچی میں ان کی یاد میں پروگرام منعقد کیے جا رہے ہیں اسی تناظر میں بزم نگارِ ادب کے زیر اہتمام تعزیتی اجلاس و نعتیہ مشاعرہ منعقد ہوا جس میں محسنِ اعظم محسن ملیح آبادی صدر تھے‘ رونق حیات اور سید فیاض علی فیاض مہمانانِ خصوصی تھے۔ طاہر سلطانی‘ حنیف عابد‘ شاعر علی شاعر اور خالد صدیقی مہمانان اعزازی تھے۔ نظر فاطمی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اس پروگرام کے پہلے دور میں اعجاز رحمانی کے فن اور شخصیت پر جن اشخاص نے گفتگو کی ان میں محسن اعظم ملیح آبادی‘ رونق حیات‘ حنیف عابد‘ شاعر علی شاعر‘ طاہر سلطانی‘ عبدالمجید محور‘ چاند علی چاند اور نظر فاطمی شامل تھے۔ دوسرے دور میں نعتیہ مشاعرہ ہوا جس میں محسن اعظم ملیح آبادی‘ رونق حیات‘ سید فیاض علی فیاض‘ حنیف عابد‘ شاعر علی شاعر‘ طاہر سلطانی‘ نظر فاطمی‘ سخاوت علی نادر‘ طالب رشید‘ محمد حنیف‘ چاند علی چاند‘ وسیم احسن‘ شائق شہاب‘ واحد حسین رازی‘ الحاج نجمی‘ ضیا زیدی‘ تنویر سخن‘ عبدالمجید محور‘ زیب النساء زیبی اور حامد علی سید نے نعتیہ کلام نذر سامعین کیا۔ یہ پروگرام واحد حسین رازی کی رہائش گاہ کے سامنے واقع پارک میں منعقد ہوا۔ راقم الحروف سے گفتگو کرتے ہوئے سخاوت علی نادر نے کہا کہ ان کی تنظیم اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے کوشاں ہے اس کے علاوہ ہم یاد رفتگان کے حوالے سے بھی تقریبات ترتیب دے رہے ہیں کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ اپنے محسنوں کو یاد کرنا ہماری تہذیب کا حصہ ہے اردو ادب کے منظر نامے میں جو شعرا جگمگا رہے ہیں ان میں اعجاز رحمانی بڑی اہمیت کے حامل تھے وہ ایک سایہ دار شجر کی مانند تھے جس کے سائے سے ہزاروں لوگ مستفیض ہوتے تھے ان کے شاگردودں کا حلقہ بھی بہت وسیع ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اعجاز رحمانی کے لیے ایک بڑا پروگرام منعقد کریں تاکہ ان کی شخصیت کے تمام پہلوئوں پر سیر حاصل گفتگو ہو سکے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جوارِرحمت میں جگہ عطا فرمائے‘ آمین۔

جمعیت الفلاح کا نعتیہ مشاعرہ

گزشتہ جمعرات جمعیت الفلاح نے ادارہ تعمیر ادب ناموس رسالت کے تعاون سے ایک پروگرام دیا جس کے دو حصے تھے پہلے حصے میں ڈاکٹر محمود غزنوی نے سیرتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر گفتگو کی جس کا لب و لباب یہ تھا کہ اب کسی بھی عنوان کوئی نبی یا کوئی رسول نہیں آئے گا‘ آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری پیغمبر ہیں اور اسلام اللہ کا پسندیدہ دین ہے جس میں انسانی زندگی کے تمام شعبوں کے لیے ہدایات موجود ہیں۔ مسلمانوں نے جب تک اسوۂ رسولؐ کی پیروی کی اور ہدایتِ رسولؐ پر عمل کیا وہ کامیاب و کامران رہے اور جیسے ہی مسلمان مختلف گروہوں میں تقسیم ہو کر نفاق کا شکار ہوئے ان کی ذلت و رسوائی کا دور شروع ہوگیا۔ آج ہم پر دوسری اقوام کا غلبہ ہے‘ ہم آزاد ہیں لیکن ہمارے ملک کی پالیسیاں آزاد نہیں ہیں‘ ہم اپنے ملک میں اسلامی نظام کے خواہاں ہیں لیکن آج تک اسلامی نظام نہیں آیا آیئے آج ہم عہد کریں کہ ہم اسلام کی ترویج و ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔ ڈاکٹر محمود غزنوی کی بصیرت افروز تقریر کے بعد نعتیہ مشاعرے کا آغاز ہوا جس میں پروفیسر جاذب قریشی صدر تھے۔ رفیع الدین راز مہمان خصوصی تھے اور نظر فاطمی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اس موقع پر نعت رسولؐ پیش کرنے والوں میں پروفیسر جاذب قریشی‘ رفیع الدین راز‘ ظفر محمد خان‘ جاوید منظر‘ اختر سعیدی‘ جمال احمد جمال‘ عرفان خانی‘ نسیم شیخ‘ محمد علی گوہر‘ عبدالمجید محور‘ حامد علی سید‘ طاہر سلطانی‘ حنیف عابد‘ نورالدین نور‘ آسی سلطانی‘ فیض عالم بابر‘ احمد سعید خان‘ نجیب ایوبی‘ ضیا زیدی‘ تنویر سخن‘ زاہد علی سید‘ الحاج نجمی‘ نعیم الدین نعیم‘ الحاج یوسف اسماعیل‘ اکرم راضی‘ محمود غازی‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ افضل ہزاروی‘ یاسر سعید صدیقی‘ عاشق شوقی‘ امین اللہ‘ زاہد عباس‘ ذوالفقار حیدر پرواز‘ زبیر صدیقی‘ چاند علی چاند‘ حمزہ حامی‘ طالب رشید‘ صداقت تنولی اور نظر فاطمی شامل تھے۔ اس نعتیہ مشاعرے میں شعرا کی کثیر تعداد کے سبب یہ اعلان کیا گیا کہ ہر شاعر صرف ایک نعت پیش کرے گا لیکن بہت سے شعرا نے اس پر عمل نہیں کیا اور کئی شعرا نے اس موقع پر ترنم سے اپنے اشعار سنائے جب کہ وہ ترنم سے نہیں پڑھتے ہیں اس قسم کی صورت حال سے مشاعرے کا ٹیمپو خراب ہوتا ہے۔ میرے نزدیک وہ لوگ بہت اہم ہیں جو شاعروں کو مشاعرے فراہم کر رہے ہیں جب تک آپ کو اسٹیج میسر نہیں آئے گا آپ اپنی قابلیت کے جوہر کیسے پروان چڑھائیں گے لہٰذا شعرا کا فرض ہے کہ وہ منتظمینِ مشاعرہ سے تعاون کریں۔ نعتیہ مشاعرے میں جمعیت الفلاح کے قمر احمد نے کلماتِ تشکر ادا کیے انہوں نے کہا کہ سیرت رسولؐ کی محفل میں شرکت باعثِ ثواب ہے ہم اپنے ادارے کے تحت اردو زبان و ادب کی ترقی کے ساتھ ساتھ دینِ اسلام کی تبلیغ میں بھی مصروف عمل ہیں۔ آج کی تقریب بھی سیرت رسولؐ کی ترویج و اشاعت کا حصہ ہے۔

غزلیں

عادل فریدی

خستہ حالی کی شکایت نہیں کرنے دیتا
خانۂ دل کی مرمت نہیں کرنے دیتا
کفر کہتا ہے پرستش کو بتوں کی لیکن
وہ خدا کی بھی عبادت نہیں کرنے دیتا
اپنے کوچے سے نکلنے نہیں دیتا باہر
دشت و صحرا کی سیاحت نہیں کرنے دیتا
رنگ و خوشبو کے تعلق سے اُسے جانا ہے
اس تعلق میں خیانت نہیں کرنے دیتا
اپنے پہلو میں بٹھاتا ہے وہ ایسے رُخ سے
حیف چہرے کی زیارت نہیں کرنے دیتا
فیصلے کرتا ہے صادر وہ پرستاروں پر
اور سزائوں میں رعایت نہیں کرنے دیتا
لب کشائی کی اجازت نہیں دیتا عادلؔ
بات بگڑے تو وضاحت نہیں کرنے دیتا

رئیس باغی

سیرِ گل ُان کے لیے گویا قیامت ہو گئی
دیکھنے والوں نے یہ سمجھا محبت ہو گئی
ہو گیا راضی خوشی سے گھر کے بٹوارے پہ میں
مجھ سے سرزد دیکھیے کیسی حماقت ہو گئی
ہاتھ پھیلانے میں پہلے شرم آتی تھی‘ مگر
اب تو دریوزہ گری بھی اک ضرورت ہو گئی
زخموں پر چھڑکیں نمک‘ نشتر لگائیں اہلِ درد
غم گساری ایک فرسودہ روایت ہو گئی
جس نے کی گستاخی ان کی شان میں اے دوستو!
دین بھی اس کا گیا‘ دنیا بھی رخصت ہو گئی
اب تو ہر گھر ہے یہاں تصویر خانہ‘ کیا کہوں
دم زدن میں شہر کی یہ کیسی حالت ہو گئی
وعدۂ فردا کیا ہے اس نے ہم سے آج پھر
ریت پر تعمیر شیشے کی عمارت ہو گئی

عبدالجبار اثرؔ

یہ کیسا دورِ خزاں گلستاں میں آیا ہے
الٰہی خیر کہ فتنوں نے سر اٹھایا ہے
کوئی تو ہو گا جو قلب نظر پہ چھایا ہے
یہ کس کی یاد نے اکثر مجھے رلایا ہے
یہی تو وقت نے ہم کو سبق سکھایا ہے
جسے ہم اپنا سمجھتے تھے وہ پرایا ہے
اندھیری شب ہے‘ ہوا تیز پھر بھی تیرے لیے
’’چراغ ہم نے سرِ رہگزر جلایا ہے‘‘
جہاں نہ اپنی خبر ہے نہ کچھ پتا دل کا
رہِ وفا میں انوکھا مقام آیا ہے
وفا کے پھول ہیں یہ جو کبھی نہ مرجھائیں
اثرؔ نے خونِ جگر سے انہیں کھلایا ہے

حصہ