افروز عنایت
ریحان: (ماں کے دونوں ہاتھ تھام کر) مما اب آپ ملازمت چھوڑ دیں، آپ نے بابا کے ساتھ مل کر ہمارے لیے، ہماری تعلیم و تربیت کے لیے بہت محنت کی ہے… اب آپ اپنے لیے وقت نکالیں۔ دیکھیں مما آپ نے تمام زندگی ہم پر صرف کردی، میری ملازمت لگ گئی ہے، اب آپ کو ملازمت کرنے کی ضرورت نہیں۔
سعدیہ: (پیار سے بیٹے کو دیکھا) ٹھیک ہے بیٹا، میں استعفیٰ دے دیتی ہوں۔
٭…٭…٭
سعدیہ رات کو سونے کے لیے لیٹی تو اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو دیکھا، جھریوں سے بھرے ہاتھ… اٹھ کر آئینے کے سامنے بیٹھی تو چہرے پر بھی جھریاں… اس کی اتنی عمر تو نہیں ہے، پھر یہ جھریاں… یہ بے رونق آنکھیں… ہوں… ریحان صحیح کہتا ہے کہ میں نے کبھی اپنا خیال نہیں رکھا۔ کیا میں نے اپنی ذات کا صحیح حق ادا کیا ہے؟ نفی میں اس کی گردن ہلی… میں تو اتنی مصروف رہی ہوں کہ صرف اللہ کے آگے فرض نمازوں کے ہی سجدے ادا کیے ہیں۔ مجھے ضرور اپنے لیے بھی سوچنا چاہیے، ابھی بھی میرے پاس وقت ہے۔ میں اپنی آخرت سنوارنے کے لیے رب سے ناتا جوڑوں گی۔ اپنی ذات کا سب سے زیادہ حق تو یہی ہے مجھ پر۔
٭…٭…٭
عالیہ: (بڑے پیار اور اپنائیت سے) آپ نے شادی کیوں نہیں کی؟
ڈاکٹر زینب، عالیہ کے سوال پر چونک گئی، یوں محسوس ہورہا تھا کہ اس سوال نے اسے اندر تک ہلا دیا ہو۔ اس نے مسکرانے کی ناکام کوشش کی، لیکن اس کوشش میں ایک آنسو اس کی آنکھ سے ڈھلک گیا، وہ کہیں دور کھو گئی، عالیہ کے دوبارہ پکارنے پر اسے ہوش آیا۔
عالیہ: مجھے اندازہ ہورہا ہے کہ آپ جوانی میں خوبصورت ہوں گی، پھر ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے بہت سے لوگوں نے… میرا مطلب ہے کہ…
ڈاکٹر زینب: ہوں… اب تو شام ڈھل چکی بلکہ رات بھی ڈھلنے والی ہے۔ تمام زندگی کیریئر بنانے میں ایسی جڑی کہ اپنی ذات کی حق تلفی کر گزری… ماں باپ جب تک زندہ تھے کہتے رہے شادی کرلو، اچھے رشتے آرہے ہیں کسی ایک کا ہاتھ تھام لو… لیکن میں تو بے لگام گھوڑے کی طرح دوڑتی رہی۔ نہ اپنا ہوش، نہ اوڑھنے پہننے کا ہوش، نہ بننے سنورنے کا…
عالیہ نے اس 75 سالہ خوش شکل کمزور خاتون کو غور سے دیکھا جہاں لا تعداد جھریاں تھیں، بکھرے کھچڑی جیسے بال… سلوٹیں پڑی کاٹن کی ساڑھی۔ تمام دن کی ڈیوٹی اور میڈیکل کالج میں لیکچر، سیمینار، کانفرنس میں حاضری لگا کر ابھی رات نو بجے گھر پہنچی تھی۔ گھر کیا تھا، بڑا دو منزلہ کلینک جس کے ایک کمرے میں وہ کروٹیں بدلتے رات گزار دیتی تھی۔
ڈاکٹر زینب: (عالیہ کو اپنی طرف غور سے دیکھتے ہوئے) کیا دیکھ رہی ہو بیٹا اتنے غور سے؟
عالیہ: آپ کو شادی نہ کرنے کا افسوس ہوا کبھی…؟
ڈاکٹر زینب: میں نے کہا نا کہ میں نے اپنی ذات سے بڑی ناانصافی کی ہے۔ نہ دنیا کے لیے وقت نکال سکی اور نہ آخرت کے لیے… صرف چند نمازوں کے ساتھ اللہ کے روبرو حاضری ہوگی (زور سے بے جان قہقہہ لگاتے ہوئے)۔
٭…٭…٭
ان دونوں حقیقی واقعات سے واضح ہے کہ دونوں خواتین نے اپنی ذات کے ساتھ حق تلفی کی ہے۔ دینِ اسلام نے محنت مشقت سے نہیں روکا، لیکن محنت مشقت اس طرح ہو کہ آپ اپنی جان، اپنی ذات کا بھی خیال رکھیں۔ انسان کو بننے سنورنے کا بھی حق ہے، آرام بھی ضروری ہے، اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل بھی ضروری ہے، اور سب سے بڑی بات کہ اپنی ذات کا آخرت کا حق ادا کرنا بھی لازم ہے، جس سے کوتاہی برتنا اپنی ذات پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔ اپنی ذات کو آخرت میں آرام و سکون و راحت دینے کے لیے اپنا محاسبہ کرنے کا وقت بھی نکالنا لازمی ہے کہ آیا میں اپنی ذات کا صحیح حق ادا کررہا ہوں یا نہیں؟ آج چاروں طرف بہت سے لوگ دن رات کی تفریق کے بغیر دنیا کمانے کی فکر میں اپنی ذات کو فراموش کرچکے ہیں۔ وہ نحیف و ناتواں بدن کے لیے بھی وقت نکالنے کے قابل نہیں رہتے۔
میرے نبیؐ کی ذاتِ اقدس قرآن اور احکاماتِ الٰہی کی مکمل عکاس ہے۔ کس کس خوبی اور اسوہ حسنہ کو بیان کیا جائے۔ ہر عمل، ہر انداز، ہر طریقہ کار ہم مسلمانوں کے لیے رہنمائی بخشتا ہے (سبحان اللہ)۔ جس طرح آپؐ نے زندگی کے باقی امور و معاملات کے بارے میں تعلیمات دی ہیں، اسی طرح کاروبار اور تجارت کے بارے میں بھی واضح تعلیمات سے امتِ مسلمہ کو نوازا ہے، جس سے رزقِ حلال کے راستے کھلتے ہیں۔
اماں عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: سب سے عمدہ (حلال کا) کھانا آدمی کے واسطے یہ ہے کہ اپنی کمائی کا کھائے، اور اولاد بھی انسانوں کی کمائی ہے۔ (ابن ماجہ… ابودائود)
میرا دین بڑا پیارا ہے۔ ضابطۂ حیات ہے۔ میں جب تنہا ہوتی ہوں اور غور کرتی ہوں تو اس دین کی خوبصورتیاں آشکارا ہوتی جاتی ہیں (سبحان اللہ)۔ کوئی پہلو بھی تو میرے رب نے نہیں چھوڑا۔ ہر معاملے میں ہدایات و احکامات اپنے پیارے نبیؐ کے ذریعے ہم تک پہنچاتے ہیں۔ میں اپنی تحریروں میں گاہے بہ گاہے ان کا تذکرہ کرتی رہتی ہوں۔ اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، رہن سہن، معاش، حقوق العباد، حقوق اللہ، معاملاتِ زندگی وغیرہ… نہ صرف رب العزت کی طرف سے اس بارے میں احکامات و ہدایات ہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و احادیث نے بھی ہر پہلو کو ہمارے سامنے منور کردیا ہے، یہاں تک کہ بندے کے اپنے ذاتی حقوق کو بھی فراموش نہیں کیا گیا ہے۔ جس طرح کسی بندے پر دوسرے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی تاکید فرمائی گئی ہے، اسی طرح اس کی اپنی ذات کے حقوق کی ادائیگی کی بھی تاکید فرمائی گئی ہے۔ حدیثِ مبارکہ ہے کہ آپؐ نے فرمایا ’’تمہارے جسد (بدن) کا تم پر حق ہے، اور تمہاری آنکھ کا تم پر حق ہے۔‘‘ (بخاری، مسلم)
اسی طرح ابودرداءؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے بیماری اور دوا دونوں چیزیں اتاری ہیں، اور بیماری کے لیے دوا بنائی ہے، پھر تم (اگر بیمار ہوجائو) دوا کیا کرو اور حرام چیز سے دوا نہ کرو‘‘۔ ان احادیث سے واضح ہے کہ انسان کو اپنی جان کی حفاظت کرنی چاہیے۔ اگر بیمار ہے تو دعا کے ساتھ دوا بھی لازمی ہے۔ یعنی بندے کو اپنے آپ کو صحت مند رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کیونکہ رب العزت بھی قوی اور صحت مند مومن کو پسند کرتا ہے، جیسا کہ حدیثِ مبارکہ ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا ’’مومن قوی (قوت والا) مومن ضعیف (کمزور) سے بہتر ہے اور خدا کو زیادہ پیارا ہے، اور یوں سب میں خوبی ہے۔‘‘ (مسلم شریف)
یہ جان بھی اللہ کی طرف سے دی گئی نعمتوں میں سے ایک ہے، اس کی قدر کرنی چاہیے، اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ مشقت کے ساتھ اپنے ذہن و جسم کو آرام بھی دینا چاہیے۔ جسم کو اس قدر زیادہ نہ تھکانا چاہیے کہ بندہ اللہ کی عبادت سے ہی محروم رہ جائے، جیسا کہ اوپر حدیث سے بھی واضح ہے کہ قوی مومن ہو، یعنی قوی و صحت مند ہوگا تو اللہ کی بارگاہ میں بھی دلجمعی، دلچسپی اور خشوع و خضوع سے حاضری دے گا۔ اور حقوق العباد کی ادائیگی بھی عمدہ طریقے سے انجام دے گا۔ یہاں تک اپنا خیال رکھنے کی تاکید کی گئی ہے کہ عبادات میں بھی توازن رکھنے کے لیے کہا گیا ہے، عبادات میں زیادتی کی ممانعت فرمائی گئی ہے۔ مسلسل روزے رکھنے یا تمام دن رات عبادات سے انسان بے آرام اور کمزور ہوجاتا ہے، اس لیے اس بات سے روکا گیا ہے تاکہ انسان اپنی جان کا حق بھی ادا کرسکے اور دوسروں کے حقوق کی انجام دہی بھی آرام سے کرسکے۔ جو شخص اپنی ذات سے پیار کرتا ہے یقینا وہ اپنی ذات (اپنے آپ) کو اِس دنیا میں بھی خوار نہیں کرتا اور آخرت کے لیے بھی ’’سامان‘‘ تیار رکھتا ہے، تاکہ آخرت میں عذابِ دوزخ سے بچ سکے۔
آپؐ صحابہ کرامؓ کو تعلیم دیتے کہ اپنی جانوں کی بھی حفاظت کریں۔ بے سوچے سمجھے اپنے آپ کو اندھیری گھاٹی میں گرانے سے روکا گیا، اپنی حفاظت کے لیے منصوبہ بندی اور منظم رہنے کی تاکید فرمائی گئی۔ صحابہ کرامؓ جب کسی منزل پر اترتے تو گھاٹیوں اور میدانوں میں متفرق ہوجاتے تھے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا ’’تمہارا یہ گھاٹیوں اور وادیوں میں متفرق ہوجانا شیطان کی طرف سے ہے (کیونکہ اگر کسی پر کوئی آفت آجائے تو دوسروں کو پتا نہ ہو)‘‘۔ پھر اس کے بعد جس منزل پر اترتے تو ایک دوسرے سے اس طرح مل جاتے کہ اگر ان پر ایک کپڑا بچھا دیا جاتا تو سب پر آجاتا۔ (ابو دائود)
اس حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں بھی ہمیں یہی تعلیم مل رہی ہے کہ اپنی حفاظت لازمی ہے۔ قوی اور طاقتور بندوں کو میں نے دیکھا ہے کہ وہ حقوق اللہ و حقوق العباد کو بآسانی سرانجام دیتے ہیں جیسا کہ روایت میں ہے (مفہوم) ایک صحابیؓ کی زوجہ محترمہ نے شوہر کی شکایت کی کہ یہ رات کی نماز میں لمبا قیام فرماتے ہیں جس کی وجہ سے میرا حق ادا نہیں کر پا رہے۔ آپؐ نے ان صحابی سے فرمایا تھا کہ تم پر تمہاری جان کا بھی حق ہے اور اہل و عیال کا بھی۔ پھر آپؐ نے انہیں اپنی مثال پیش کی کہ میں اللہ کی عبادت بھی کرتا ہوں اور گھر والوں کو بھی وقت دیتا ہوں۔
آج ہمارے سامنے بہت سے لوگ ہیں جو دنیاوی آسودگی حاصل کرنے کے لیے دن رات تگ و دو میں لگے رہتے ہیں، اس طرح وہ نہ صرف خود کمزور و ناتواں ہوجاتے ہیں بلکہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں کوتاہی کے بھی مرتکب ہوتے ہیں جیساکہ درج بالا واقعے سے ظاہر ہوتا ہے۔ نہ دنیاوی سکھ و سکون اور نہ ہی آخرت کا سکھ… لہٰذا ہم سب کو اپنی جانوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ اپنی جانوں کو بے جا تکالیف سے بچانا چاہیے۔
جیسا کہ حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا ’’نہیں لائق مومن کو کہ اپنے نفس کو ذلیل کرے‘‘۔ صحابہؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسولؐ مومن اپنے نفس کو کیونکر ذلیل کرتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’جس بلا کو سہار نہ سکے اس کا مقابلہ کرے۔‘‘ (ترمذی شریف)
یعنی ایسے تمام امور جو اپنی طاقت اور بس کے نہ ہوں، جن سے جان کو تکلیف و ایذا پہنچے اُن سے پرہیز کرنا چاہیے۔
ہمارے نبیؐ سے زیادہ اللہ کا کوئی بندہ افضل نہیں۔ آپؐ کی زندگی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپؐ نے شادیاں بھی کیں، دینِ اسلام بھی پھیلایا، اپنی ذاتِ مقدس کا خیال بھی رکھا۔ صفائی ستھرائی، صحت کے بہترین اصول ہمیں آپؐ کی ذاتِ اقدس سے ملتے ہیں۔ آپؐ نے امتِ مسلمہ کو بھی ایسی ہی تعلیم فرمائی جس پر ہم عمل پیرا ہو کر ہی دنیا اور آخرت سنوار سکتے ہیں۔