محفوظ

544

آمنہ آفاق
وہ نازنین حسینہ، سرخ و سفید رنگت، لہراتے گھنگھریالے بال، اس کے علاوہ ایک ادا سے بولنا اور مسکرانا، نہ جانے کتنے لوگوں کو اپنی جانب مائل کرنا… اور ان گھائل ہوتے لوگوں کو دیکھ کر اس کے اندر تک سرشاری کی کیفیت پیدا ہوجاتی۔ کتنے ہی لوگ اس سے بات کرنے کی وجہ تلاش کرتے، اور وہ یہ سب جان کر اپنے حسن پر نازاں رہتی۔
اسکول سے کالج تک کا زمانہ تعریفی کلمات سنتے سنتے گزرا، وقت کے ساتھ ساتھ وہ اور بھی زیادہ حسین ہوگئی تھی۔
’’بیٹا! میری چاند بیٹی، میرے پاس آؤ، میری بات سنو‘‘۔ دادی اس کو ہمیشہ ایسے ہی مخاطب کیا کرتی تھیں۔ ’’میں تم کو ہزار بار سمجھا چکی ہوں کہ اب تم بڑی ہوگئی ہو، عبایا پہنو، حجاب لو، پھر چاہے یونیورسٹی جاؤ، کوچنگ جاؤ… مگر جب گھر سے باہر نکلو تو اپنے آپ کو چھپائو میری چاند۔‘‘
’’میری پیاری دادی! ابھی میں بہت چھوٹی ہوں۔‘‘ وہ ایک ادا سے دادی کے گلے میں بانہیں ڈال کر انہیں ٹال جاتی اور دادی جزبز ہوکر رہ جاتیں۔
’’بھلا کیا فائدہ اتنے خوب صورت ہونے کا جب مجھے اپنے آپ کو چھپانا ہی ہو! چھپائے تو وہ جس میں کوئی کمی ہو‘‘۔ وہ ہمیشہ آئینے کے سامنے کھڑی ہوکر یہی سوچتی۔
’’نازی یہ کیسے کپڑے پہنے ہیں تم نے! اور اس طرح جاؤگی کالج…؟‘‘ بلیک کلر کے تنگ ٹائٹس اور ساتھ گھٹنوں تک آتی اسٹائلش پنک کرتی کو دیکھ کر دادی توسلگ ہی اٹھیں۔
’’کیا ہوا امی، ابھی تو یہ ٹین ایجر ہے اور اس عمر کی سبھی بچیاں ایسے ہی کپڑے پہنتی ہیں۔‘‘ نازی سے پہلے زرینہ بیگم نے مداخلت کی تو دادی پہلو بدل کر رہ گئیں۔
مگر شام کو نازی کے آتے ہی دادی نے اس کو آواز لگائی ’’میری چاند ادھر آؤ۔‘‘
’’جی دادی امی!‘‘ نازی کا چہرہ خاصا تھکا سا تھا مگر دادی امی اُس کو اُس کی اہمیت کا احساس دلانے کے لیے ایک منٹ کی بھی دیر نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ’’یہ دیکھو گڑیا تمہارے پاپا پھل لائے ہیں، تم جانتی ہو کہ یہ پھل چھلکوں میں کیوں ہوتے ہیں؟
’’دادی امی یہ چھلکوں میں محفوظ ہیں۔‘‘ نازی نے مختصر جواب دیا۔
’’تو آپ اس بات سے کیا سمجھیں؟‘‘ دادی اماں نے پوچھا تو نازی ناسمجھی کی کیفیت میں بیٹھی رہی۔ ’’اچھا پہلے آپ فریش ہوجاؤ پھر ہم شام میں بات کریں گے، بس آپ سوچنا ضرور۔ اور ہاں ظہر کی نماز ضرور پڑھ لینا۔‘‘ دادی کو جیسے اس کا تھکا ہوا چہرہ دیکھ کر ترس آگیا۔
’’ارے نازی بیٹا کہاں چل دیں آپ؟‘‘ شام کو دادی نے اسے کھٹ کھٹ ہیل والی سینڈل پہنے سیڑھیاں اترتے دیکھا تو پوچھا۔
’’وہ دادی جان مجھے اپنی دوست کی برتھ ڈے پارٹی میں جانا ہے۔‘‘ نازی نے جواب دیا اور منظر سے غائب ہونا ضروری سمجھا مبادا دادی پھر سے نہ ٹوک دیں۔
آج اس کو پھر سے بہت سی تعریف سمیٹنی تھی اور آج وہ دل سے بھی تیار ہوئی تھی۔’’اچھا بیٹا، مگر سوچنا ضرور وہ چھلکوں والی بات، اللہ حافظ۔‘‘ اس کے پیچھے دادی نے اس کو آواز لگائی اور وہ گھر سے باہر نکل گئی۔
جلدی جلدی اسٹاپ پر پہنچی۔ اسٹاپ پر اسے اور مدیحہ کو جمع ہونا تھا۔ ’’کیا ہوا، مدیحہ ابھی تک نہیں آئی!‘‘ اس نے کوفت سے سوچا اور اردگرد کا جائزہ لینے لگی۔ جلد ہی اس نے محسوس کیا کہ وہ ہرآنکھ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔
بلو کلر کی جینز پر گھٹنوں تک آتی شارٹ فراک کے ساتھ چنری کا پتلا دوپٹہ بالکل ’’پانی کی دیوار‘‘ ثابت ہورہا تھا۔ بائیک پر سوار آتے جاتے لڑکے اس کی طرف فقرہ اچھالنا ضروری سمجھتے، اور وہ جزبز رہ جاتی۔ قریب ہی اس کی نظر پھل فروش کے ٹھیلے پر پڑی، گو کہ وہ بھی چور نگاہوں سے اس کو ہی تک رہا تھا مگر اس کے پھل جو چھلکوں میں محفوظ تھے اور ان پر کوئی مکھی بھی نہیں بیٹھ رہی تھی، نازی ان کو ہی تکے جارہی تھی۔ ساتھ میں کچھ گلے سڑے پھل بھی پڑے تھے جو جگہ جگہ سے چھلکے کے بغیر تھے، وہ دوسرے پھل بھی خراب کردیتے اسی لیے شاید ریڑھی والے نے الگ کردیے ہوں گے۔ اس نے سوچا۔ یکایک اس کی نظر ان گلے سڑے پھلوں پر اڑتی بھنبھناتی مکھیوں پر پڑی اور ایک دم اسے ان سے کراہیت سی آئی، اور پھر دوسری نظر اپنے وجود پر ڈالتے ہی وہ جیسے سب کچھ سمجھ گئی ’’اللہ پاک نے ہر قیمتی چیز پردے میں رکھی ہوتی ہے چاند۔‘‘ دادی امی کی آواز دور کہیں سے آئی، جیسے ’’سیپ میں موتی‘‘، ’’پھل چھلکوںمیں محفوظ‘‘، اس کے علاوہ ’’خانہ کعبہ پر غلاف‘‘، پھر بھلا عورت کیوں کھلے منہ دندناتی پھرے! وہ تاسف سے سمجھاتیں تو وہ ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا ڈالتی۔
’’ہیلو بیوٹی فل، اتنی گرمی میں کھڑے ہوکر اپنی خوب صورتی کو جھلسائو مت، آؤ میں ڈراپ کردیتا ہوں۔‘‘ ایک چھچھورا اس کے کان کے قریب آکر بولا تو وہ ہڑبڑاتے ہوئے ہوش کی دنیا میں آگئی، اور تقریباً وہاں سے بھاگتے ہوئے گھر کی راہ لی۔
’’ارے نازی اتنی جلدی آگئیں آپ؟‘‘ اُس کی سرخ ہوتی اڑی اڑی رنگت دیکھ کر دادی امی گھبرا گئیں۔
’’وہ دادی بس ایسے ہی، مدیحہ ابھی تک اسٹاپ پر نہیں آئی تو میں واپس گھر آگئی۔‘‘ اس نے اپنے اعصاب پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
’’اچھا! تمہیں معلوم ہے ناں کہ میں نازی کی دادی امی ہوں، مجھے بتاؤ سچ سچ کہ کیا ہوا ہے؟‘‘ دادی نے اس کے چہرے کے تاثرات کو بھانپتے ہوئے پوچھا تو وہ ان کے گلے لگ گئی۔
’’مجھے معلوم ہی نہیں تھا دادی جان کہ میں اتنی قیمتی ہوں، اور میں اپنے آپ کو بے مول بنائی ڈھیر ساری بھنبھناتی مکھیوں کے درمیان کھڑی تھی، مجھے اپنا وجود بالکل گلے سڑے پھل کی طرح لگا دادی جان۔‘‘
’’ہاں تو میری چاند! تم قیمتی ہو اور قیمتی چیز ہمیشہ چھپا کر رکھی جاتی ہے، اسی طرح عورت کو بری نظر سے بچانے کے لیے اللہ نے پردے کا اہتمام کیا ہے۔‘‘ دادی جان نے اس کے چہرے کو پیار سے اپنے دونوں ہاتھوں سے تھامتے ہوئے کہا۔
’’مجھے معاف کردیں دادی جان! میں نے آپ کی اتنی قیمتی نصیحتوں کو ہمیشہ لاپروائی سے جھٹک دیا۔‘‘
نازی واقعی شرمندہ تھی ’’حالانکہ مجھے تو شکر گزار ہونا چاہیے تھا کہ مجھے نصیحتیں کرنے والا اور زمانے کی اونچ نیچ سمجھانے والا کوئی تو ہے۔‘‘

حصہ