افسانہ۔۔۔غلیظ

663

عروج دبیز
گلی میں چلنا پھرنا حد بھر ہوگیا تھا۔ ہمارا گھر کیونکہ کارنر کا تھا، لہٰذا علاقے میں گٹر بھرنے کی وجہ سے اطراف کے گٹروں کا پانی ہمارے گھر کے چاروں طرف جمع ہوجاتا تھا۔ کچھ ماہ سے نہ جانے کیا مسئلہ ہوا تھا کہ سارے گٹر ہر دوسرے تیسرے روز بند ہوجاتے۔ تعفن سے برا حال ہوجاتا۔ تمام محلے دار شدید مشکلات اور پریشانیوں میں مبتلا تھے۔ آئے دن مامیوں یعنی جمعدارنیوں کو بلوایا جاتا، پھر گٹر کھلتے۔ محلے والوں کو یہ یقین ہوتا جارہا تھا کہ یہ گٹر یہ ماسیے خود ہی بند کردیتے ہیں تاکہ ان کو بار بار بلایا جائے اور ان کی کمائی ہوتی رہے۔
کیونکہ ہمارا گھر کونے کا تھا اور گھر کے باہر چبوترہ بھی بنا ہوا تھا، لہٰذا یہ ماسیے گٹر کھولنے کے بعد وہاں بیٹھ جایا کرتے تھے۔ میں اور میری پڑوسن اور سب سے اچھی سہیلی فرح چھت پر چلے جایا کرتے تھے اور ان مامیوںکو گٹر میں اترتے اور گٹر کھولتے ہوئے دیکھا کرتے تھے۔ فرح ان کا خوب مذاق اڑاتی تھی جبکہ مجھے ان مامیوں پر بہت ترس آتا تھا، بہت دکھ ہوتا تھا کہ یہ بھی تو ہماری طرح انسان ہیں۔ کس قدر گندا اور گھنائونا کام کرنا پڑتا ہے ان کو زندہ رہنے کے لیے۔ لیکن فرح ہمیشہ سے ان کا مذاق اڑاتی، نئے نئے القابات دیتی۔ کیونکہ ہم چھت سے ان لوگوں کو دیکھتے تھے تو شکلیں صاف نظر نہیں آتی تھیں۔ ہماری گلیوں کے گٹر سب سے آخر میں کھلتے۔ یہ لوگ صبح سے گٹر کھول رہے ہوتے تھے۔ ہماری باری آنے تک دوپہر ہوجاتی۔ فرح کمنٹری کرتی: کومل دیکھ، اس کو دیکھ۔ وہ ہماری عمر کا ایک نوجوان تھا جو گندے پانی میں کھڑا ہوکر گٹر کا ڈھکن اٹھاتا اور پھر گٹر میں غوطہ لگا دیتا، پھر اوپر آتا۔ ڈنڈے اور سریے لے کر دوبارہ غوطہ لگاتا اور کچھ ہی دیر میں گٹر کھول دیتا۔ وہ جب باہر آتا تو گندگی میں لتھڑا ہوتا۔ ہر جگہ غلاظت چپکی ہوتی۔ پھر محلے کے کسی گھر سے پانی کی بالٹی مانگتا یا پائپ لگوا کر نہاتا۔ اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ ہمارے گھر کے چبوترے پر بیٹھ کر کھانا کھاتا، پھر وہ لوگ چلے جاتے تو ہم بھی اپنی اپنی راہ لیتے۔
یہ سلسلہ تقریباً پورے ایک سال چلا میری یا فرح کی کزنز وغیرہ جب ہمارے گھر آتیں تو وہ بھی یہ منظر دیکھتیں۔ یہ فرح کا انداز بیان تھا یا ہم سب کی ان مامیوںسے نفرت کہ اس اَن دیکھے نوجوان کو سب نے غلیظ کہنا شروع کردیا۔ فرح نے تو حد ہی کردی، وہ مجھے اکثر کہتی: کومل تُو نے دیکھا کہ غلیظ کو جب بھی موقع ملتا ہے تجھے گھورتا ہے۔ میں نے فرح کی بات کو حسب ِمعمول مذاق سمجھ کر نظرانداز کردیا، لیکن ایک دن غور کیا تو مجھے فرح کی بات سچ لگی، اور جوہمدردی میں ان لوگوں سے محسوس کرتی تھی وہ کہیں غائب ہوگئی اور اس کی جگہ غصے نے لے لی۔ وہ تمام علاقے میں غلیظ کے نام سے مشہور ہوگیا، اور ہمارے گھروں میں بھی۔
وقت بڑی ظالم شے ہے، جب آپ اس کو آہستہ گزارنا چاہیں تو یہ بہت برق رفتاری سے گزرتا ہے، اور جب چاہیں کہ رفتار تیز ہوجائے تو یہ آہستہ آہستہ کسی لنگڑے کی طرح چلنے لگتا ہے جس کو ایک قدم اٹھانا بھی آسان نہ ہو۔ ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ وقت گزر ہی جاتا ہے۔ بڑی دونوں بہنوں کی شادیاں ہوگئیں۔ والدہ وفات پا گئیں۔ بھائی بڑے ہونے کے بجائے بہت بڑے ہوگئے۔ ابو اور میں اکیلے رہ گئے۔ فرح کی بھی شادی ہوگئی اور اپنے گھر کی ہوگئی۔ میری ہم عمر کزنز بھی بیاہی گئیں۔ میری عمر گزرتی گئی، رشتے آتے رہے لیکن کسی نہ کسی وجہ سے شادی تک بات نہ پہنچی۔ بھائی پڑھ لکھ برسر روزگار ہوگئے، شادیاں ہوگئیں تو اپنے اپنے بیوی بچوں میں اس طرح مگن ہوئے کہ بس مہینے میں دو چار بار ملنے آجاتے۔ میں نے وقت گزاری کے لیے اسکول میں نوکری کرلی۔ ابو بھی بیمار رہنے لگے، لیکن ان کی مجبوری بس ایک ہی بات، ایک ہی دعا ہوتی کہ کومل اپنے گھر کی ہوجائے تاکہ سکون سے مر سکوں۔ ابو میرا اور میں اُن کا دکھ سمجھتے تھے۔
جب بڑی بہنیں اور فرح اپنی اپنی سسرالوں کے قصے سناتیں تو مجھے لگتا کہ میرا دل پھٹ جائے گا۔ یہ لوگ کیا اس احساس سے عاری ہیں کہ جب یہ اپنے قصے سناتی ہیں تو کنواری بوڑھی ہوتی ہوئی بہن کے دل پر کیا گزرتی ہوگی۔ میں گھنٹوں روتی، اللہ سے شکوے بھی کرتی، دعائیں بھی، وظائف بھی… لیکن نہ جانے کیوں شادی کی صورت ہی نہیں بن پا رہی تھی، جو بھی رشتہ آتا اس کے بارے میں گھر میں بات ہوتی تو میرا دل چاہتا چیخ چیخ کر کہوں مجھے رشتہ منظور ہے۔ جو بھی ہے جیسا بھی ہے، فوراً قبول کیا جائے۔ لیکن پھر میں صبر کرلیتی کیوں کہ بات آگے بڑھنے سے پہلے ہی خودبخود ختم ہوجاتی۔
رفتہ رفتہ مجھے لگنے لگا کہ میری بہنیں اور فرح جب اپنے اپنے گھروں، شوہروں اور بچوں کا ذکر کرتی ہیں تو وہ دراصل مجھے چڑا رہی ہوتی ہیں۔ جب حالات، معاملات اور لوگوں کے رویّے آپ کی توقع کے مطابق نہ ہوں تو آپ ہر معاملے میں، ہر بات پر منفی انداز میں سوچنے بھی لگتے ہیں اور عمل بھی کرنے لگتے ہیں۔ دیکھتے دیکھتے میری عمر 37 برس ہوگئی۔ ایک دن چھوٹا بھائی ابو سے ملنے آیا اور ابو سے کچھ دیر کھسر پھسر کی۔ میں سمجھ گئی کہ اب بھائی کو باپ کی بپتا کا امتحان لینا ہے، کوئی کام ہوگا ورنہ ابو کے لیے پھل، کپڑے لانے میں اتنی رقم نہ خرچ کرتا۔ مجھے خیال آیا کاش ایسی بات نہ ہو۔ مگر میری پہلی سوچ ہی صحیح ثابت ہوئی۔ بھائی اپنے بیوی بچوں سمیت واپس گھر آنا چاہتا تھا۔ ابو نے کہا کومل سے پوچھ کر بتادوں گا۔ میں نے آخری جملہ سن لیا اور ابو سے پوچھا کہ بتائیں کیا مسئلہ ہے؟ ابو نے بھائی کی بات مجھے بھائی کے سامنے ہی بتا دی۔ میں نے کہا: ابو آپ کا گھر ہے، آپ کا جو بھی فیصلہ ہو، قبول ہے۔
بھائی اگلے ہی دن گھر میں شفٹ ہوگیا۔ گھر میں گہما گہمی ہوگئی۔ میں بھائی کے بچوں اور بھابھی کے ساتھ خود کو زیادہ بہتر محسوس کرنے لگی۔ ابو بھی مجھے کافی مطمئن لگے۔ چند ہفتوں بعد میرے دونوں بڑے بھائیوں نے ابو سے کہا کہ اپنے مکان کی ایک آفر ہے، کیونکہ اب سارا علاقہ کمرشل ہوگیا ہے اور اپنا گھر ہے بھی کونے کا، تو 10کروڑ کی آفر ہے۔ اتنی بڑی آفر سن کر ابو کا ردعمل بس ایک مسکراہٹ کی صورت میں آیا اور ابو بات ٹال گئے اور دونوں بھائیوں سے بس یہ کہا کہ اس موضوع پر اگلے ہفتے بات کریں گے، تم لوگ اگلی اتوار کو آجانا، میں مومنہ اور مونا کو بھی بلا لوں گا۔ حسب توقع سب ہی بہن بھائی اتوار کو جمع ہوگئے۔ ابو نے سب سے کہا کہ میں نے تم لوگوں کو اس لیے بلایا ہے کہ میں تم لوگوں کو اپنی وصیت کے بارے میں آگاہ کرسکوں۔ میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر کومل کی شادی میری زندگی میں ہوگئی تو اس کی شادی کے ڈیڑھ سال بعد یہ مکان بیچ کر تم لوگوں کو برابر کا حصہ دے دوں گا۔ اور اگر کومل کی شادی میری زندگی میں نہ ہوئی تو مکان صرف کومل کا ہوگا۔ میں نے قانونی وصیت تیار کروا لی ہے۔ وکیل میرے مرنے کے بعد اس پر قانونی کارروائی مکمل کرے گا۔ ابو کی بات سے سب بہن بھائیوں کے چہرے پر ایک عجیب سا رنگ آکر گزر گیا۔ سب نے مختلف باتیں بنانی شروع کردیں کہ ابو آپ سلامت رہیں، ہمیں ویسے بھی مکان سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، اللہ کا دیا سب کچھ ہے ہمارے پاس، اور رہی بات کومل کی شادی کی تو آپ جانتے ہیں کہ ہم کتنی کوشش کرچکے ہیں کہ کومل جلد اپنے گھر کی ہوجائے۔
مجھے ابو کی وصیت پر بہت ہنسی آئی۔ سب کے جانے کے بعد ابو سے پوچھا: ابو آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو ابو بولے: دیکھنا اب تمہاری شادی کے لیے سب کس طرح بطور مشن کام کرتے ہیں۔ میں ابو کی ذہانت پر ہنس پڑی۔ واقعی ابو کی بات حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔ میں نے جب ابو کی وصیت پر غور کیا تو مجھے یہ بات سمجھ آگئی کہ ابو نے میری شادی کے ڈیڑھ سال بعد مکان فروخت کرنے کی بات شاید اس لیے کی تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ میں شادی کے بعد خوش بھی ہوں کہ نہیں۔
بھائی بہنوں نے میرے رشتے کے لیے سرتوڑ کوششیں شروع کردیں۔ پھر مہمانوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا، لیکن بات ابھی تک آگے نہیں بڑھ پارہی تھی، نہ جانے کیا وجہ تھی۔ اسی طرح چھ ماہ گزر گئے۔ میں پھر بیزار سی ہونے لگی تھی، چڑنے لگی تھی رد ہو ہوکر۔
ایک دن پتا چلا کہ میرا کوئی رشتہ آیا ہے چھوٹے بھائی کی معرفت، لیکن نہ تو کوئی دیکھنے آیا نہ ہی مجھے کچھ مزید پتا چل سکا۔ بس دو خواتین اور ایک مرد آئے۔ خواتین نے مجھ سے سلام دعا کی اور وہ لوگ چلے گئے۔ اگلے دن حیرت انگیز طور پر باقاعدہ رشتہ آگیا۔ وہ لوگ 10 دن میں شادی چاہ رہے تھے۔ میں حیران پریشان تھی کہ لڑکا کون ہے، کیا کرتا ہے! یہ بات صرف بھائیوں اور ابو کو پتا تھی۔ ابو نے اگلے دن ہی تایا، چاچا اور ماموں کو بلوایا اور میرے بھائیوں اور بہنوئیوں کو رشتے کی تفصیل بتائی۔ لڑکے کی عمر 39 برس تھی، اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا، لاہور میں بہت بڑے بزنس کا مالک تھا اور دین دار آدمی تھا۔ ابو نے کہا: میں نے لڑکے کی مکمل معلومات حاصل کرلی ہیں۔ بظاہر لڑکے میں کوئی برائی نہیں۔ صرف مسئلہ یہ ہے کہ لڑکا نومسلم ہے۔ اس نے 15 برس قبل اسلام قبول کیا ہے جس کی وجہ سے اس کے خاندان نے اس سے قطع تعلق کرلیا ہے۔ اس بات کو سن کر سب اپنی اپنی رائے دینے لگے۔ تایا نے ابو سے کہا: بہتر یہ ہے کہ ہم کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے لاہور چل کر اپنی پوری تسلی کرلیں۔ دو دن بعد تایا، ابو اور ماموں لاہور چلے گئے۔ تین دن بعد ان لوگوں کی واپسی ہوئی۔ ابو نے پھر سب کو جمع کیا۔
تایا نے کہا: کومل تم بھی یہاں آکر بیٹھو۔ میں بادل نخواستہ وہاں جا بیٹھی۔ دل میں عجیب و غریب خیالات اور خدشات آرہے تھے۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ یہ رشتہ ٹھکرایا جائے۔ اس کی وجہ مجھے خود بھی معلوم نہیں تھی۔ تایا نے بتایا کہ ہم تو لاہور جاکر حیران رہ گئے، لڑکے کا نام اشرف ہے، بہت امیر، بے حد بااخلاق، بے حد دین دار اور مثالی لڑکا ہے۔ کومل تمہارے ماموں اور میرا مشورہ ہے کہ اس رشتے کو قبول کرلیا جائے۔ یہ لڑکے کی تصویر ہے۔ تم اپنا فیصلہ بتاو،ٔ تمہارے ابو کو رشتہ قبول کرنے میں تامل ہے کہ لڑکا نومسلم ہے، لوگ بہت باتیں بنائیں گے۔
پہلے میں نے تصویر پر سرسری سی نگاہ ڈالی، لیکن پھر بغور جائزہ لیا۔ لڑکا کافی ہینڈسم تھا۔ میں ابھی تصویر کو دیکھ ہی رہی تھی کہ باجی نے مجھے کہنی ماری۔ میں نے ہڑبڑا کر تصویر ابو کی جانب بڑھا دی۔ میں نے کہا جی مجھے یہ رشتہ قبول ہے۔
دس روز میں ہی میری شادی ہوگئی اور کچھ دن بعد میں پاکیؔ کے ساتھ لاہور آگئی۔ کچھ ہی دن میں اپنے گھر میں ایسے سیٹ ہوگئی جیسے شروع ہی سے یہیں زندگی گزار رہی ہوں۔ دیکھتے دیکھتے شادی کو ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر گیا۔ میں کراچی نہ جا سکی کیونکہ کراچی سے کوئی نہ کوئی چکر لگا ہی لیتا تھا۔ ابو تین چار مرتبہ لاہور آئے، وہ ابھی دو ہفتہ پہلے ہی ہو کر گئے تھے۔ میں کچھ دن سے محسوس کررہی تھی کہ پاکیؔ بہت چپ چپ سے ہیں۔ میں نے کئی مرتبہ پوچھا کہ بتائیں ناں کیا مسئلہ ہے، آپ اتنے اتنے چپ کیوں ہیں؟ آج کل عبادات بھی بہت کررہے ہیں، کیا کوئی کاروباری مسئلہ ہے؟ وہ ہر بار یہی کہہ کر ٹال گئے: نہیں کوئی ایسی بات نہیں، اور عبادت تو جتنی زیادہ کی جائے، کم ہے۔ میں نے بھی زیادہ کریدنا مناسب نہیں سمجھا، لیکن میں پریشان تھی کہ ایسی کیا بات ہے جو وہ چھپا رہے ہیں۔ ابھی اسی تذبذب میں تھی کہ دو پہر ایک بجے وہ دفتر سے آگئے، کہنے لگے: کومل چلو یار کراچی چل رہے ہیں، 6 بجے کی فلائٹ ہے۔ میں نے کہا سب خیریت تو ہے، اتنی اچانک؟ کہنے لگے: یار آفس کا ایک کام ہے، میں نے سوچا تم بھی ساتھ چلو۔ مجھے تسلی ہوگئی اور ہم رات کو ہی کراچی پہنچ گئے۔ گھر میں سب بہن بھائی جمع تھے۔ پتا چلا 4 دن پہلے ابو کو خون کی الٹی ہوئی تھی، دو دن ہسپتال رہ کر آئے ہیں، السر پھٹ گیا تھا لیکن اب ٹھیک ہیں۔ میں نے پاکی سے پوچھا تو کہنے لگے: ہاں میں ابو کی طبیعت کی وجہ سے ہی پریشان تھا۔
ابو کی طبیعت تین چار دن میں مزید بہتر ہوگئی۔ میں بھی خاصی مطمئن تھی۔ ابو نے سب بہن بھائیوں اور گھر کے افراد کی موجودگی میں مجھ سے پوچھا: کیا کومل بیٹا اب تمہاری شادی کو ڈیڑھ سال ہوگیا؟ میں نے کئی بار سوچا کہ تم سے پوچھوں، لیکن پھر ارادہ ملتوی کردیا۔ بات دراصل یہ ہے کہ میں اب اپنی وصیت پر عمل کرنا چاہتا ہوں، اس لیے اپنی تسلی کے لیے پوچھ رہا ہوں کیا تم خوش ہو؟
مجھے اس سوال کی توقع شادی کے فوراً بعد ہی سے تھی لیکن آج اس قدر اچانک ابو نے یہ سوال کردیا۔ میرے آنسو نہ جانے کب سے رکے ہوئے تھے۔ خودبخود آنکھوں سے بہنے لگے۔ پاکی میری کیفیت دیکھ کر کمرے سے باہر جانے لگے، میں نے کہا رکیں، آپ کہیں نہ جائیں۔ وہ وہیں ایک کونے میں سر جھکا کر بیٹھ گئے۔ بس مجھے ان کی آنکھوں میں ایک التجا نظر آئی کہ کچھ نہ کہنا، لیکن میں نے ان کو نظرانداز کردیا۔ روتے روتے میری ہچکیاں بندھ گئیں، سب گھر والے بے حد پریشان اور بھائی غصے اور رنج کی حالت میں نظر آنے لگے۔
ابو میں بہت خوش ہوں، خود کو دنیا کی خوش نصیب ترین عورت سمجھتی ہوں کہ پاکی مجھے بطور شوہر نصیب ہوئے۔ جب میں نے ان سے شادی کی ہامی بھری اُس وقت میرے دل میں بھی بہت خدشات تھے، لیکن آپ لوگ دیکھ ہی چکے ہیں کہ میں کس طرح ملکہ کی طرح زندگی گزار رہی ہوں۔ یہ ایک مثالی مسلمان ہیں، بے انتہا خوش اخلاق، ملنسار، مخلص۔ مجھے تو اپنے آپ پر شرم آتی ہے۔ ان کی خوبیاں دیکھ کر کل باجی مجھ سے پوچھ رہی تھیں کہ تم اپنے میاں کو پاکی کیوں کہتی ہو؟ تو میں ان کو کہا: اور کیا کہوں پاکی کے سوا۔
پاکی نے بہت محنت کی۔ ان کو ایک لڑکی سے محبت ہوگئی تھی۔ انہوں نے اسلام کو پڑھا اور دین قبول کرلیا لیکن اس لڑکی کو کبھی بتانے کی کوشش نہیں کی۔ بھرا پرا گھر تھا ان کا۔ بہن بھائی، ماں باپ، دوست، رشتہ دار… دین کی طاقت نے ان کے دل کو منور کردیا۔ انہوں نے اپنا آبائی کام چھوڑ کر کاروبار شروع کیا جس میں اللہ نے برکت دی۔ اسلام قبول کرنے کے بعد ان کے اپنے ہی ان کے دشمن بن گئے۔ یہ لاہور چلے گئے۔ اس لڑکی سے رابطہ کرنے کی کوشش نہ کی، یہ سمجھ رہے تھے اس کی شادی ہوگئی ہوگی کیونکہ انہیں خود کو سیٹ کرنے میں خاصا عرصہ لگ گیا۔ دو سال پہلے انہوں نے کراچی میں آفس کھولا تو اس لڑکی کا پھر خیال آیا۔ انہوں نے اپنے کراچی کے منیجر سے اس لڑکی کے متعلق معلوم کرنے کو کہا۔ اور جب انہیں پتا چلا کہ اس لڑکی کی شادی نہیں ہوئی تو پھر انہوں نے ساجد بھائی کو ہمارے گھر رشتے کے لیے بھیجا، کیونکہ یہ جس سے محبت کرتے تھے وہ میں ہوں۔
میں بھی اتنا ہی حیران ہوئی تھی جتنا آپ لوگ حیران ہورہے ہیں کہ انہوں نے مجھے کہاں دیکھا، میں تو کہیں آتی جاتی بھی نہیں تھی۔ ان کا ہمارے محلے میں 5 سال تک تقریباً روزانہ آنا ہوتا تھا، انہوں نے مجھے کئی بار دیکھا تھا۔ یہ ہمارے علاقے میں بہت مشہور تھے۔ لیکن اشرف کے نام سے نہیں بلکہ ہم سب بھی ان کو جانتے ہیں۔ یہ غلیظ ہیں!

حصہ