مریم شہزاد
۔’’توبہ توبہ، آسمان سے باتیں کررہی ہیں سبزیوں کی قیمتیں۔‘‘ راشدہ گھر میں داخل ہوتے ہوئے بڑبڑائی۔
لائبہ نے آگے بڑھ کر ساس کے ہاتھ سے سبزی کا تھیلا پکڑا اور بولی ’’کیا ہوا امی` سب خیریت؟‘‘
’’کہاں کی خیریت، مٹر 200 روپے سے اوپر ،گاجر 50 روپے، موسم کی کئی سبزیاں ہیں، پھر بھی نیچے آنے کے بجائے اوپر ہی جا رہے ہیں نرخ۔ اور ٹماٹر کی تو خیر بات ہی نہ کرو۔‘‘ راشدہ نے پانی پینے کے ساتھ ساتھ سبزی نامہ سنایا۔
’’میری تو سمجھ میں نہیں آرہا کہ گوبھی، بینگن، توری اور دوسری کتنی ہی سبزیاں اور پھر کڑاہی گوشت… یہ سب آخر ٹماٹر کے بغیر کیسے پک سکتے ہیں!‘‘ انہوں نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔
’’اچھا آپ پریشان نہ ہوں، بس یہ بتائیں کہ آپ کیا لائی ہیں اور آج پکانا کیا ہے؟‘‘ لائبہ نے پوچھا۔
’’وہی گوبھی اور توریاں سمجھ آئی تھیں، تو میں نے سوچا دو دن کی تو لے لوں ہفتہ بھر کے بجائے۔ کیا پتا ایک دو دن میں ریٹ کچھ نیچے آجائیں تو پھر لے آؤں گی، مگر ٹماٹر لینے کی ہمت ہی نہیں ہوئی، اور اب یہ سوچ کر پریشان ہورہی ہوں کہ بغیر ٹماٹر یہ دونوں چیزیں کیسے پکیں گی۔‘‘
’’ارے آپ آرام کریں، میں سب کرلوں گی۔‘‘ لائبہ نے تسلی دی ۔
’’ایک تو ہم کو سبزیاں فریز کرنے کی عادت بھی نہیں ہے، ورنہ فریزر کے کونے کھدرے سے ایک دو ٹماٹر تو نکل ہی آتے۔‘‘ انہوں نے پھر ٹماٹر کا رونا رویا اور لائبہ مسکراتی ہوئی باورچی خانے کی طرف بڑھ گئی۔ دوپہر کو تو دونوں نے کل کا رکھا ہوا کھانا کھایا، رات کو جب دانش اور اس کے ابو آفس سے آگئے تو کھانا لگانے سے پہلے راشدہ نے پتیلی کھولی تو توریاں تیار تھیں۔ وہ لائبہ سے پوچھنا چاہ ہی رہی تھیں کہ یہ ٹماٹر کے بغیر کیسے پکا لی؟ مگر سب کے شور مچانے پر کہ بھئی جلدی کرو بھوک لگ رہی ہے، خاموشی سے ڈش میں کھانا نکال کر لے آئیں۔
’’بھئی واہ! آج تو توریوں کا الگ ہی ذائقہ ہے۔‘‘ دانش کے ابو نے کہا، تو دانش نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔
’’اور آج وہ عجیب سی لال لال بھی نہیں ہے، کیا کسی نئی ریسیپی سے بنائی ہے؟ مزے کی کھٹی میٹھی بنی ہیں۔‘‘ اس نے امی کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’آج تو تم اپنی بیگم سے ہی پوچھو، ہم تو برسوں سے ٹماٹر میں پکاتے آرہے ہیں، آج ٹماٹر اپنی پہنچ سے دور تھے تو میں نہیں لائی مگر انہوں نے تسلی دی کہ میں کرلوں گی تو ہم نے بھی ان کے حوالے کردیا۔‘‘
’’آج توریاں املی میں پکائی ہیں۔‘‘ لائبہ نے بتایا۔
’’ہائیں…! املی میں؟‘‘ راشدہ ایک دم اچھل پڑی… ’’بھلا املی میں کیسے پک سکتی ہیں!‘‘
لائبہ مسکرا دی’’امی سب جگہ کے الگ ذائقے ہوتے ہیں، میں نے ایک ریسیپی میں املی پڑھی تو املی ڈال دی، ویسے مزے کی بنی ہے ناں؟‘‘
لائبہ کے میکے میں ہمیشہ املی میں ہی توریاں پکتی تھی، مگر جب سے شادی ہوئی تو سسرال میں ٹماٹر میں پکی توریاں مشکل سے ہی حلق سے اترتیں۔ اس کی کوشش تھی کہ ایک دفعہ وہ املی میں پکا کر کھلائے تو سب کو معلوم ہو کہ کتنے مزے کی بنتی ہییں۔ اور آج ٹماٹر مہنگے ہونے سے اس کا کام آسان ہوگیا تھا، لیکن اس کو معلوم تھا کہ اگر اس نے یہ کہا کہ میکے میں اس طرح سے بنتی ہیں تو کسی نہ کسی کو اعتراض ہوگا۔ ویسے بھی اس کی امی کا تو یہ کہنا تھا کہ کسی چیز کو بھی عادت نہ بناؤ کہ فلاں چیز کے بغیر تو فلاں چیز پک ہی نہیں سکتی۔ دہی نہیں ہے تو ٹماٹر، ٹماٹر نہیں تو املی، کیری کا موسم ہے تو کیری۔ کھانا کھانے، اور کھلانے میں نخرہ کیسا! جب کہ بعض گھرانوں میں تو ہرا دھنیا نہ ہونا بھی مسئلہ بنا لیا جاتا ہے۔
’’چلو ایک نئی ترکیب ہی معلوم ہوگئی اس بہانے، اچھا مزا ہے املی کے ساتھ بھی۔‘‘ راشدہ نے کہا۔
’’اور اب کل لائبہ کو گوبھی دہی میں بنانی ہے۔‘‘
’’کیا کہا ! شکل عجیب سی ہوگی، کوئی بات نہیں آنکھیں بند کر کے کھا لیجیے گا۔‘‘
آج گوبھی پک رہی تھی تو اس کی نند کا فون آیا، وہ بہت پریشان تھی۔ راشدہ نے اس کو تسلی دیتے ہوئے کہا ’’ارے کیا ہوا ٹماٹر نہیں لائے تمہارے میاں! املی ڈال لو، دہی ڈال لو، کہہ دینا نئی ریسیپی سے بنایا ہے۔‘‘ اور باورچی خانے میں کھڑی لائبہ یہ سن کر مسکرادی۔