عائشہ مجیب
کسی جنگل میں ایک شریر اور بد مزاج جن رہتا تھا۔نہ جانے کہاں سے آیا تھا اور آکر اس جنگل میں ٹھہر گیا تھا۔یہاں اس نے پہلے اپنے لیے گھر بنایا پھر آہستہ آہستہ پورے جنگل پر قبضہ کرکے پورے جنگل کو اپنی طرح خطر ناک اور وحشت زدہ بنا دیا۔
اب یہ جنگل دور دور تک بدروحوں کے جنگل کے نام سے مشہور تھا۔حالانکہ یہ جنگل بدروحوں سے بالکل پاک تھا۔جن نے صرف دہشت کے لیے خوف وہراس پھیلا یا ہوا تھا۔اس نے جنگل میں کسی کو نہ رہنے دیا۔اسے روشنی سے نفرت تھی جب کہ اندھیرا بہت پسند تھا۔
وہ سارا دن سوتا اور رات ہوتے ہی گھومنے پھرنے کے لیے نکل جاتا۔وہ انسانوں سے نفرت کرتا تھا،کیوں کہ انسان ایک دوسرے سے لڑائی جھگڑا کرتے ہیں،چوری چکاری ،قتل اور جھوٹ جیسے بڑے گناہوں میں ملوث ہیں،اس لیے وہ انسانوں سے بہت بیزار تھا۔
اس گاؤں کے غریب لوگ محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے۔جنگل کے پاس سے ایک سڑک ایک چھوٹے سے گاؤں کو جاتی تھی۔یہ تمام لوگ اسی سڑک سے گزر کر شہر جاتے تھے۔دن میں تو لوگ سکون سے اس سڑک پر سفر کر لیتے،مگر رات کو جن انھیں طرح طرح کی آوازیں پیدا کرکے، روشنی جلا کر،درختوں کو زور زور سے ہلا کر، پتھر برسا کر ،لوگوں کو ڈراتا۔
مسافروں کو خوف زدہ کرنا اس کا من پسند کام تھا۔جن ہونے کی وجہ سے وہ غائب بھی ہو جاتا،شکلیں بدل لیتا اور طرح طرح کی آوازیں نکال لیتا۔جن کو یہ سب کرکے بہت لطف حاصل ہوتا اور اس کی تشفی ہو جاتی۔
اس جن کی وجہ سے لوگوں نے رات کو سفر کرنا بھی چھوڑ دیا تھا۔
جن ایک دن سڑک کے کنارے اْداس بیٹھا تھا۔وہ خود کو بہت اکیلا محسوس کر رہا تھا۔وہ کسی راہ غیر کی تلاش میں تھا کہ کوئی شرارت کرے تاکہ بوریت دور ہو۔لہٰذا وہ کافی دیر دماغ لڑانے کے بعد ایک نتیجے پر پہنچا۔اب وہ بوڑھے شخص کا روپ دھار کر بستی میں داخل ہو گا اور وہیں ایک مکان کرائے پر لے کررہے گا،اس طرح وہ بوریت سے بچ جائے گا اور انسانوں کو ڈرانے میں بھی آسانی رہے گی۔
اگلے ہی دن وہ بوڑھے شخص کا روپ دھار کر بستی میں کرائے کا مکان ڈھونڈ کررہنے لگا۔جن جس مکان میں ٹھہرا تھا ،وہاں آس پڑوس سب غریب لوگ رہتے تھے ،جو جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر اپنا گزر بسر کرتے۔جن نے کچھ دن خاموش رہ کر سب کے روزہ مر ہ کا جائزہ لیا۔
اب وہ پڑوس کے بچوں کو ڈرانے کے مواقع تلاش کررہا تھا۔ایک دن ایک بچہ گھر پر اکیلا تھا۔جن نے پہلے بلی کا روپ دھارا اور گھر میں داخل ہو گیا۔وہاں جا کر اپنی اصلی حالت میں آگیا۔بچے نے جب یہ منظر دیکھا تو چیخیں مار مار کررونا شروع کر دیا۔
’’ڈرپورک انسان‘‘کہہ کر جن بہت ہنسا۔
بچے کے رونے کی آواز سے بستی والے وہاں اکھٹے ہو گئے۔بہر حال جن کو بلی بن کر وہاں سے بھا گنا پڑا۔اسی طرح وہ اکثر لوگوں کو ڈراتا اور دل ہی دل میں مذاق اْڑاتا اور خوش ہوتا رہتا۔
ایک دن جن بیمار پڑ گیا۔
وہ بوڑھے شخص کی حالت میں تھا،اس لیے اسے کچھ زیادہ ہی نقاہت محسوس ہورہی تھی۔بیماری اور نقاہت کی وجہ سے اس کی جادوئی طاقتیں کم ہوتی چلی گئیں۔اب وہ ہر روز کوشش کرتا کہ جادو کے زور سے وہ دوبارہ جن کی شکل اختیار کر جائے ،تاکہ وہ اپنی مرضی سے اْڑ کر جنوں کے ڈاکٹر کے پاس جاسکے،مگر یہ سب کرنے میں اسے مشکل پیش آرہی تھی۔
وہ کئی روز بیمار پڑا رہا۔ایک روز پڑوسیوں کو اس کی بیماری کی خبر ہوئی۔پڑوسی اس کی عیادت کے لیے آئے۔جن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جس بچے کو اس نے بْری طرح ڈرایا تھا،وہ بچہ بھی اس کی تیمار داری کررہا تھا۔اب گاؤں والے اس کے گھر آتے اس کے گھر کی صفائی کرتے۔
اس کے لیے کھانا پکاتے،اس کی دیکھ بھال کرتے ،دوا کھلاتے اور اپنے گھر چلے جاتے۔جن کئی دن تک خاموشی سے یہ سب دیکھتا رہا۔آخر وہ تن درست ہو گیا،اس بار جن کے دل ودماغ میں شرارت نہیں، بلکہ ندامت اور شرمندگی کا احساس تھا۔کتنے عرصے سے اس نے گاؤں والوں کا جینا محال کر رکھا تھا،ان کو تکلیف پہنچا رہا تھا،ان کی قیمتی چیزیں بر باد کررہا تھا ،ان کے بچوں کو ڈرا رہا تھا،مگر اب جب وہ انسان کا روپ دھار کر انسانوں میں رہ رہا تھا تو اس نے محسوس کیا تھا کہ جنھیں وہ اذیت پہنچا کر خوش ہوتاہے وہ تو بہت بے ضرر سے لوگ ہیں۔
غریب اورمسکین ہیں۔اتنی غربت میں بھی ان لوگوں نے اس کا بہت خیال رکھا۔اسے روٹی کھلائی،اس کا سرد بایا،اس کے کپڑے دھوئے،اس کے گھر کی صفائی کی ،اس کا بھر پور ساتھ دیا۔جن اب بالکل صحت یاب ہو چکا تھا۔اس رات وہ اپنے کمرے میں اکیلا بیٹھا یہی سوچ رہا تھا کہ انسانوں کے متعلق اس نے جو کچھ سن رکھا ہے،وہ یقینا غلط ہے۔
اس نے فیصلہ کیا کہ وہ واپس اپنی برادری میں چلا جائے گا اور آئندہ کبھی کسی کو تنگ نہیں کرے گا،مگر جانے سے پہلے وہ اپنی اصلیت گاؤں والوں کو ضرور بتائے گا۔دل میں تہیہ کرکے جن سو گیا۔صبح اْٹھا تو اپنا سامان سمیٹ کر باہر نکل آیا۔
گاؤں والوں کو اکھٹا کیا اور ان سے کہا:’’گاؤں والو!قریبی جنگل جو بدروحوں کے نام سے مشہورہے وہاں کوئی بدروح نہیں ،بلکہ وہاں ایک جن رہا کرتا تھا جو سب کوڈراتا، مسافروں کو تنگ کرتا اور ان کی چیزیں اِدھر سے اْدھر کر دیتاتھا۔‘‘
گاؤں والے حیران ہونے لگے۔ایک بوڑھے شخص نے آگے بڑھ کر اس سے پوچھا:’’تمھارے پاس کیا ثبوت ہے اس بات کا ؟‘‘
’’ثبوت یہ ہے کہ وہ بھوت اس وقت آپ سب کے سامنے ہے۔‘‘جن یہ کہہ کر خاموش ہو گیا۔سب لوگ حیرانی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
عورتیں اور بچے ایک کونے میں سہمے ہوئے کھڑے یہ سب منظر دیکھ رہے تھے۔جن نے پھر کہا:’’جی ہاںمیں ہی وہ جن ہوں۔اس گاؤں میں اس نیت سے آیا تھا کہ آپ سب کا جینا محال کردوں گا ،مگر یہاں انسان کا روپ دھار کر میں حقیقت جان گیا۔
جب میں بیمار پڑاتو نقاہت کے باعث میری طاقتیں کم ہو گئی۔جس وجہ سے مجھے کئی دن انسان کا روپ دھار ے ہی رہنا پڑا،مگر اس دوران آپ سب نے جتنی میری خدمت کی ہے میں اس سے بہت شرمندہ ہوں۔ مجھے احساس ہو گیا ہے کہ آپ سب انسان بہت اچھے ہیں۔
مجھے یقینی طور پر معاف کر دیں گے۔میں آپ سب سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ اب کبھی دوبارہ یہاں آکر کسی کو نہیں ستاؤں گا۔میں جا ر ہا ہوں آپ کے گاؤں سے اور اس جنگل سے بھی۔‘‘جن نے یہ کہہ کر سامان اْٹھا یا اور چل پڑا۔
’’رک جاؤ،تم ایسے نہیں جا سکتے۔‘‘گاؤں والے آگے بڑھے۔ایک پَل کو بھوت ڈر گیا کہ شاید اب یہ سب مل کر مجھ پر حملہ کر دیں گے ،مگر ایسا نہ ہوا۔گاؤں کے لوگ جن کے پاس آئے اور کہنے لگے:’’ہمیں خوشی ہے کہ تمھیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے۔
تمھاری خدمت اس لیے کی کہ اللہ نے ہمیں دوسروں کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے۔یہ ہمارا فرض تھا اور رہی بات تمھیں معاف کرنے کی تو انسان اشرف المخلوقات ہے،معاف نہ کرکے ہم چھوٹانہیں ہونا چاہتے اور خدا کے بندے ہونے کا تقاضا ہے کہ ہم تمھیں معاف کردیں۔
اب اگر تم چاہوتو اسی گھر میں ہم سب کے ساتھ رہ سکتے ہو۔‘‘گاؤں والوں کی بات سن کر جن کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔وہ سب کے ساتھ رہنے پر راضی ہوگیا۔اب جن گاؤں والوں کی مدد کرتا ،کوئی مصیبت میں گرفتار ہوتا تو اس کی مدد کو پہنچ جاتا۔
کوئی بھوکا ہوتا تو اسے روٹی لا دیتا۔کوئی بیمار ہوتا تو اس کی خدمت کرتا۔کوئی پریشان ہوتا تو اس کی پریشانی دور کردیتا۔جن کے اس رویے سے سب خوش تھے۔جن بھی اب انسانوں میں بہت خوش رہنے لگا تھا۔اب سب انسان اس کے دوست تھے۔