تنویر اللہ
پاکستان چھوڑنے کی بہت سی وجوہات بیان کی جاتی ہیں، مثلاً کہا جاتا ہے کہ یہاں ٹیلنٹ کی قدر نہیں ہے، یہاں محنت کا پھل نہیں ملتا، اقربا پروری ہے، رشوت ہے، سفارش ہے، سیاسی نوازشات ہیں، یہاں کوئی مستقبل نہیں ہے۔ امن وامان خراب ہے، سسٹم خراب ہے، بے روزگاری ہے، فضا آلودہ ہے، عوام جاہل ہیں۔ ممکن ہے یہ سب باتیںٹھیک ہوں۔
اب ان ساری وجوہات کے مقابلے میں دین، ایمان، معاشرت کو رکھیں، کیوں کہ کوئی بھی پاکستان کو اس لیے نہیں چھوڑتا کہ اس کا دین، ایمان، اخلاق یہاں خطرے میں ہے… اور یہی بات سب سے اہم ہے، جسے جانے والے بالکل اہمیت نہیں دیتے۔ اگر میں غلط کہہ رہا ہوں تو کوئی ایک ڈھونڈ کر لائیں جو ایمان، اخلاق، معاشرت بچانے کے لیے یورپ، امریکا یا مشرق وسطیٰ گیا ہو؟
ممکن ہے پاکستان چھوڑ کر جانے والے باہر جاکر وہ سب کچھ حاصل کرلیں جس کی کمی وہ یہاں محسوس کرتے ہیں۔ اپنی زمین، ماں باپ، عزیز رشتے دار انھیں کہیں نہیں ملیں گے۔ بہت سے بہت زندگی میں ایک دو بار وہ اپنے اماں ابا کو پردیس بلالیں، لیکن رشتے ماں باپ ہی پر ختم نہیں ہوجاتے۔ دادا، دادی، ماموں، پھوپھی، چچا، تایا، خالہ، کزنز اور بہت سے لوگوں کا شمار رشتے داروں میں ہوتا ہے۔ سب کو آپ پردیس نہیں بلا سکیں گے۔
ان سب سے اہم یہ ہے کہ آج کے جانے والوں کا نہیں تو ان کی آئندہ نسلوں کا ایمان اور آخرت خراب ہونے کا یقینی خدشہ ہے۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ یورپ، امریکا سے رشتے داروں سے ملنے کے لیے آنے والے زیادہ باعمل مسلمان ہوتے ہیں، لیکن باعملی کے اس فیز کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہے۔ اب تک کا تجربہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ماحول انسان پر اثر ڈالتا ہے، خصوصاً بچے ماحول کا اثر زیادہ لیتے ہیں، انھیں کس طرح بچایا جاسکتا ہے؟
اچھے مستقبل کے خواہش مند ایک صاحب سے میری ملاقات ہوئی، وہ کوئی پچاس برس پہلے یورپ چلے گئے تھے۔ میں نے اُن سے کہا کہ ایک جملے میں بتائیں کہ پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ درست تھا یا غلط تھا؟ کہنے لگے: میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ یہاں سے جاکر غلط کیا ہے۔
میں نے کہا: اس پچھتاوے کی وجوہات بھی بتانا ہوں گی۔
جو انھوں نے بیان کیا وہ آپ سے شیئر کررہا ہوں۔ کہنے لگے: باہر جاکر خوب مال کمایا، ہر طرح کا عیش عیاشی کی، خوب گھومے پھرے۔ پہلے پہل میں ہر سال پاکستان آتا تھا، والدین، بہن بھائیوں، عزیزوں، رشتے داروں سے ملتا تھا اور واپس چلا جاتا تھا۔ پھر یہ آنا جانا قریبی رشتے داروں کی شادی بیاہ، مرنے جینے تک محدود ہوگیا۔ ہم کبھی بھی سب گھر والے اکٹھے پاکستان نہیں آئے، کیوں کہ ایسا کرنے کے لیے سب کا ایک ساتھ فارغ ہونا اور جیب کا زیادہ بھرا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ پھر پاکستان میں قریبی شادی بیاہ بھی نمٹ گئے، خونیں عزیز رشتے دار بھی دُنیا سے چلے گئے، اب یہاں آنے کی کوئی خاص وجہ نہیں رہی۔ لہٰذا ایک مدت کے بعد اپنے وطن آیا ہوں۔ رشتے داری کی کڑیاں ٹوٹ گئی ہیں۔ کوئی ایسے ہی نہیں پہچانتا، تعارف کی کڑیاں جوڑنا پڑتی ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے تنہا کھڑا ملک اور رشتے داروں سے بے وفائی کا اقبالِ جرم کررہا ہوں۔
میں نے پاکستان چھوڑنے والوں کا حساب لگایا کہ کون لوگ بیرونِ ملک جاتے ہیں اور کن لوگوں کو وہاں قبول کیا جاتا ہے۔
وہ جو تعلیم یافتہ ہیں، وہ جن کے پاس بڑا سرمایہ ہے، کچھ وہ بھی ہیں جو شادی کے نتیجے میں جاتے ہیں۔
لہٰذا لائق ڈاکٹر، ماہر انجینئر، قابل اساتذہ، کامیاب کاروباری، بڑا سرمایہ دار جب پاکستان چھوڑ جائے گا تو پیچھے بچتا کیا ہے! نالائق ڈاکٹر، اناڑی انجینئر، غبی اساتذہ، ناکام کاروباری، نکمے شوہر،خالی جیب عوام۔
ایسا توکل پسندیدہ نہیں ہے جس کا محرک کاہلی، کم ہمتی، غیر مستقل مزاجی ہو۔ لیکن ایسا ہرجائی پن بھی اچھا نہیں کہ مشکلات کا سامنا کرنے اور ان سے نمٹنے کے بجائے فرار کا راستہ اختیار کیا جائے۔
جو پاکستان میں رہ کر مشکلیں جھیلتے رہے، اور جو یہاں سے جاکر نہال ہوجاتے ہیں انجام دونوں کا ایک ہی ہے: مرنا، مٹی میں رل مل جانا، اللہ کے حضور حاضری اور جزا یا سزا۔ لیکن اکثریت اس حقیقت کو سب کچھ سے گزر کر تسلیم کرتی ہے۔ جس طرح کالج اور یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کو جو لوگ رجعت پسند، اکھڑ، خشکے کے خطابات سے نوازتے ہیں وہی لوگ جب عملی زندگی میں آتے اور ان کے بچے کالج، یونیورسٹی تک پہنچتے ہیں تو وہی رجعت پسندی، احتیاط، اکھڑ پن، نظم وضبط، خشکا پن اصول پسندی نظر آنے لگتی ہے، لیکن اپنا خوب کھل کھیل کر گزارنے والوں کی نہ نصیحتوں میں اثر رہتا ہے اور نہ ان کی ڈانٹ ڈپٹ سے خوف ہوتا ہے۔
اللہ نے انسان کے لیے ایک فطری نظام بنایا ہے۔ جب بچہ کمزور ہوتا ہے تو ماں باپ اس کی نگہداشت کرتے ہیں، اور جب ماں باپ بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہوجاتے ہیں تو اولاد ان کا سہارا بنتی ہے۔ ملک چھوڑ کر جانے والابڑھاپے میں ماں باپ کے قریب کیسے رہ سکتا ہے ؟ ان کو محبت بھری نظروں سے کیسے دیکھ سکتا ہے ؟ ان کی خدمت کیسے کرسکتا ہے ؟ مرتے ماں باپ کا سر اپنی گود میں کیسے رکھ سکتا ہے؟ کبھی تو ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ بیرونِ ملک سے آنے میں اتنا وقت لگ جاتا ہے کہ آنے والے کو والدین دفنانے کا موقع بھی نہیں ملتا۔
کوئی کہے کہ وڈیو کال، اسکائپ سے روزانہ بات ہوسکتی ہے، دیکھ سکتے ہیں… اوّل تو مستقل ایسا ہونا ممکن نہیں، دوئم کیا کسی نومولود بچے کو ان وڈیو کال، اسکائپ پر پالا جاسکتا ہے؟ جس طرح بچے کے لیے ماں باپ کی فزیکل موجودگی ضروری ہے ،اسی طرح بوڑھے ماں باپ کی دیکھ بھال کے لیے اولاد کی ماں باپ کے پاس موجودگی ضروری ہے مشینی آلات یہ کمی کیسے پوری کرسکتے ہیں ؟۔
کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا کے دروازے اپنے اوپر بند کرلیے جائیں۔ مدعا یہ ہے کہ پاکستان چھوڑنے کا کوئی متعین مقصد اور متعین عرصہ ہونا چاہیے۔ بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے کے لیے جائیں، لیکن واپسی کے سچے ارادے کے ساتھ۔ اپنے مالی حالات سدھارنے باہر جائیں لیکن ایک متعین مدت کے لیے۔